کالم

ڈرون حملے بند کروائے جائیں

تحریر! محمد اکرم خان فریدی
میں اپنے چند صحافی دوستوں کے ہمراہ وزیرستان اور اسکے گردونواح کے قبائلی علاقوں کے دورہ کے دوران وہاں کے سرداروںسے انکے مسائل سُن رہا تھا کہ اچانک ایک قبیلے کے سردار نے انتہائی درد مندانہ انداز میں صحافیوں سے مطالبہ کیا کہ ہمارا صرف ایک مطالبہ ملکی و بین الاقوامی سطح پر پہنچا دیں،میں نے کہا جی بتائیں،تو وہ کہنے لگے کہ یہ جو فضا ءمیں آپ گونجتی ہوئی آواز سُن رہے ہیں یہ ڈرون طیاروں کی ہے جنکا شکار بہت سارے بیگناہ لوگ بھی بن گئے ہیں لہذا ہمارا مطالبہ ہے کہ خدارا یہ ڈرون حملے بندکروائے جائیں۔قبائلی سرداروں کو مطالبہ کئے ہوئے ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ دتہ خیل میں امن جرگے پر ڈرون حملہ ہو گیا ۔قارئین کرام !یہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز قبائلی علاقوں میں امن پھیلانے کے لئے بہت ساری قربانیاں دے چکی ہے اور مسلسل دے رہی ہے جبکہ قیامِ امن کے لئے قبائلی سرداروں کا مل بیٹھنا بھی اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے اُن علاقوں میں بد امنی کے خاتمہ کے لئے کاوشیں جاری ہیں۔18مارچ کو امن جرگہ پر ہونے والے ڈرون حملے کے بعد پاکستانی حکومت اور فوج پر ڈرون حملوں کے خاتمہ کے لئے عوامی دباﺅ میں مزید اضافہ ہوگیا اورپاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی بھی بڑہ گئی اور اسی کشیدگی کے نتیجہ میںبہت سارے امریکی سی آئی اے کی ٹھیکیدار بھی پاکستان چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ ایک طرف امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق امریکہ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں ہے اور دوسری طرف پاکستانی علاقوں میں ڈرون حملوں کا تسلسل امریکی محکمہ خارجہ کی اس خواہش کی نفی کرتا ہے ۔امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بھی اسے نیچا دکھا کر کر قائم رکھنا چاہتا ہے اسکی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ اوبامہ انتظامیہ نے افغانستان میں امریکی اور ایساف فورسز کی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھرایا ہے جبکہ جنرل کیانی نے امریکی انتظامیہ کی رپورٹ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے”ہماری سکیورٹی فورسز نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قابلِ قدر کام سر انجام دیا ہے اور دہشتگردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا گیا ہے“۔ بڑی عجیب بات ہے کہ ایک طرف امریکہ پاکستان کی کی دہشت گردی کے خلاف دی جانے والی قربانیاں ماننے کے لئے تیار نہیں اور دوسری جانب پاکستان کی ضرورت بھی محسوس کرتا ہے۔۔شائد امریکہ نے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے بعد پاکستان کو انڈر ایسٹیمیٹ کرنا شروع کر دیا ہے ۔یقین جانئے کہ 2001ءسے اب تک پاکستان نے اپنے سپاہیوں کی جتنی قربانیاں دی ہیںاتنی جانیں اگر نیٹو فورسز کی ضائع ہوتیں تو شائد یہ فورسز عرصہ دراز سے افغانستان کی مٹی چھوڑ دیتیں۔آج اگر افغانستان میں طالبان دوبارہ متحرک ہو رہے ہیں تو میرا خیال ہے کہ امریکہ یا پاکستان کو اس سے غرض نہیں ہونی چاہئے کیونکہ یہ کسی بھی ملک کا اندرونی معاملہ ہے واشنگٹن اور اسلام آباد کو تو سوچنا چاہئے کہ اُنکی معیشت اگر زوال پذیر ہو رہی ہے تو عوام کی ٹیکسز کی مد میں وصول ہونے والی رقم کو عوام کی خوشحالی کے لئے خرچ کیا جائے نہ کہ جنگوں کے لئے۔قارئین کرام۱ یہ قدرتی امر ہے کہ جب کسی قوم کی آزادی کو سلب کیا جاتا ہے تو وہ مزاحمت ضرور کرتی ہے ،یہاں بھی کچھ صورتِ حال ایسی ہی ہے کہ افغان قوم اپنے ملک میں نیٹو فورسز کے وجود کو برداشت کرنے کے لئے ہرگز تےار نہیں اور وہ اپنے ملک میں آزادی کی زندگی بسر کرنے کے خواہاں ہیں۔ وہ بھی کیا کریں اُنہیں دو صدیوں سے جنگوں میں دھکیلا جا رہا ہے۔لیکن افغان قوم نے اپنے ملک میں کسی دوسری طاقت کا وجود کبھی تسلیم کیا اور نہ ہی وہ ایسا کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔جنگی جرائم میں ملوث نیٹو فورسز افغان شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کو اتنی بُری طرح روند رہے ہیں کہ دہلی کے پے رول پر کام کرنے والا حامد کرزئی بھی بلبلا اُٹھا تھا۔بہر حال نیٹو ممالک کو اِس بات کا بخوبی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ افغان قوم کسی بھی حال میں ہار ماننے کے لئے تیار نہیں ہے اس لئے افغانستان کو فتح کرنے کا خواب دےکھنے کی بجائے اپنے اپنے ممالک کی معیشت پر توجہ دیں ۔دوسری جانب پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی محافظ محب وطن عوام یہ جانتی ہے کہ پاکستانی حدود میں کسی دوسرے ملک کی طرف سے حملے ہماری آزادی ،خود مختاری اور غیرتِ ملی کے تقاضوں کے قطعی منافی ہے اس لئے پاکستانی حکومت کے پاس عوام کو دینے کے لئے کوئی معقول جواب نہیں جسکے نتیجہ میں پاکستانی حکومت کا اپنی عوام کے ساتھ اعتماد کا رشتہ بالکل ختم ہوتا جا رہاہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی حکومت کو اپنی عوام کی آزادی،خود مختاری اور غیرت عزیز ہے یا پھر امریکی مفادات کی جنگ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی مفادات کی جس جنگ میں ہمارے ملک کی پرامن دھرتی اپنے ہی شہریوں کے خونِ سے سُرخ ہوئی ہے اور ملک کی معاشی حالت تباہی کے دہانے پر پہنچی ہے ، اسے اپنے مفادات کی جنگ بنا کر اب تک اس میں شریک رہنا کیوں ضروری سمجھا جا رہا ہے حالانکہ ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے تقاضوں کے تحت تو یہ جنگ ہماری سلامتی اور آزادی و خودمختاری کے خلاف ہمارے دوست نما دشمن کی جنگ ہے اب جبکہ پاکستان کی عسکری قیادت کو مکمل ادراک ہو چکا ہے کہ امریکی نیٹو افواج کی اس خطہ میں موجودگی ہماری سلامتی کے لئے انتہائی خطرناک ہے تو ہماری حکومتی سیاسی قیادتوں کو بھی اس کا ادراک ہون

Leave a Reply

Back to top button