اسامہ کےقتل پر جشن امریکی اپنی عقل کا ماتم کریں
تحریر نذر حافی
یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ،جو دنیا کی واحداسلامی ایٹمی طاقت ہے،جس کے بانی نے ایک آزاد و خود مختار اسلامی ریاست کے قیام کے لئے غیر مسلموں کی ہر پیشکش کو ٹھکرا دیاتھا،جس کے باشندوں نے صرف اور صرف "لا الہ الااللہ ” کی بالا دستی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیاتھا۔۔۔آج بھی دنیا کے کسی بھی گوشے میں جب بھی کوئی اسلامی تحریک چلے تو اس ملک کے لو گ قربانیاں دینے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔بلامبالغہ آج بھی کشمیر کے چناروں ،فلسطینیوں کے نعروں اور افغانستان کے کہساروں میں اسی ملت کے جوانوں کے خون کے دھبےّ صاف دکھائی دیتے ہیں۔تاریخی صفحات شاہد ہیں کہ حکمرانوں کی منافقتیں،آرمی کے ٹارچر سیل،یورپ کے ہتھکنڈے،ایجنسیوں کی سازشیں،امریکہ کے ڈالر اور سعودی عرب کے ریّال اس ملّت کی دینی وحدت کوختم نہیں کرسکے ۔یہی وجہ ہے کہ غزہ کے محاصرےسے لے کر بیت المقدس کی آزادی تک ہمیشہ ملّت پاکستان نے شیعہ اور سنی،پنجابی اور سندھی جیسے تعصبات سے بلند ہو کر اپنی آواز بلند کی ہے۔یوں تو یورپ اور امریکہ ایک عرصے سے اس ملت کی دینی غیرت و حمیّت کی طاقت کو سمجھتے ہوئے اس سے سوء استفادہ کرنے کے درپےتھے ہی لیکن انہوں نے سعودی عرب کے شانوں پر سوار ہوکر یہ کام بطریق احسن انجام دیا۔انہوں نے سعودی عرب کے ذریعےپاکستان میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے بیج بوئے،پاکستان کے دینی مدارس کے ذہین و فتین طالب علموں کو دہشت گردی کے راستے پر لگایا،مساجد،امام بارگاہوں اور اولیائے کرام کے مزارات کو دہشت گردی کا نشانہ بنوایا،دینی طالب علموں کی سربراہی میں دہشت گرد تنظیمیں،لشکر، ٹولے اور طالبان منظّم کئے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ کبھی بھی نہ ہوتا اگر سعودی عرب اسلام کا پرچم اٹھا کر امریکہ کا اتحادی نہ بنتا۔سعودی عرب نے امریکہ کی شہ پر پاکستان کے دینی مدارس کو شدّت پسندی کی ترغیب دی ۔جس کے بعد لشکروں پہ لشکر اور جیش پہ جیش تشکیل پانے لگے ،جب ان لشکروں نے سوویت یونین کو مار بھگایا اور امریکی عزائم کی تکمیل ہو گئی تو پھرامریکہ نے مستقبل میں ان لشکروں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی خاطروقتی طور پر انہیں دبانا ضروری سمجھااور ” دہشت گردی کے خلاف جنگ "کے نام سے ایک نئے ڈرامے کا آغاز کیا۔اس ڈرامے کے دوران اب تک جہاں بے شمار بے گناہ افغانی اور پاکستانی مارے گئے ہیں وہیں پر طالبان کی صفوں میں موجود ایسے لوگ بھی مارے گئے ہیں جو اصلا مسلمان ہی نہیں تھے اورجن کی ہلاکت سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ طالبا ن کانام استعمال کر کے امریکہ خود سے دہشت گردی کو فروغ دے رہاہے۔دہشت گردی کا یہ ڈرامہ کھیل کر گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل اسلام کو اور مسلمانوں کو بدنام کیاجارہاہے لیکن سعودی عرب آنکھیں بند کرکے امریکی ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہے۔گزشتہ دنوں اسامہ بن لادن کے قتل کے بعد جہاں پر کچھ لوگوں نے اسامہ بن لادن کو امریکہ اور سعودی عرب کا ایجنٹ قرار دیا وہیں پر کچھ نے موصوف کو مجاہد اسلام کہہ کر آنسو بھی بہائے۔ہم اس بارے میں موصوف کے زندگی نامے کی ورق گردانی کئے بغیر موصوف کے مقتل کا محل وقوع قارئین کی خدمت میں پیش کرناچاہتے ہیں ۔ہماری خواہش ہے کہ صاحبان علم و دانش خود ہی تجزیہ و تحلیل کے ساتھ نتیجہ نکا لیں۔تجزیہ کرتے ہوئے بس اتنا ضرور یاد رکھئیے گا کہ اسامہ بن لادن دنیا کا ایسامطلوب ترین اور خطرناک ترین شخص ہے کہ جس کی تلاش میں جدید ترین جاسوسی ٹیکنالوجی کے ساتھ اکیسویں صدی کی اعلی تربیّت یافتہ خفیہ ایجنسیاں اورحساس ادارے برسوں سے مارے مارے پھر رہے ہیں۔اس شخص کوگزشتہ دنوں ایبٹ آباد میں یعنی پاکستان کے دارلحکومت اسلام آبادسے شمال مشرق کی جانب صرف ۱۲۵کلومیٹر کے فاصلے پر بغیر کسی غیر معمولی مزاحمت کے ماردیاجاتاہے۔ایبٹ آباد جسے سکولوں کا شہر بھی کہا جاتاہے اس کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ شہر عسکری حوالے سے بھی انتہائی اہمیّت کا حامل ہے۔اس شہر میں پاکستان آرمی کی معروف ترین چھاونی "کاکول ” واقع ہے۔اس کاکول چھاونی میں پاکستان آرمی کے درجنوں اہم مراکز موجود ہیں اور ان سب مراکز میں سے نہایت اہمیت کا حامل ادارہ”پاکستان ملٹری اکیڈمی ” بھی یہیں پر واقع ہے اور یہ قتل”پاکستان ملٹری اکیڈمی ” سے صرف چند سو گز کے فاصلے پر ہوا ہے۔اب چند سوالوں کے جواب سوچئے
۱۔ دنیا کا یہ خطرناک ترین شخص اتنے حساس ترین علاقے میں کیسے رہ رہا تھا؟
۲۔پاکستان آرمی کے قلب میں یہ شخص قتل ہوا لیکن پاکستان آرمی نے کیوں اسے قتل یا گرفتار نہیں کیا؟
۳۔ امریکی فوجی تو اسامہ کو قتل کرنے اس حساس ترین علاقے میں پہنچ گئے لیکن پاکستان آرمی کا انتہائی اہم مرکز ہونے کے باوجود پاکستان آرمی کو اس کی موجودگی کی خبر نہ ہوئی۔۔۔کیا یہ ممکن ہے؟
۴۔القائدہ جیسی بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم کے سربراہ کی اپنی حفاظت کے لئے وہاں پر القائدہ کا کوئی حفاظتی دستہ موجود نہ تھا؟
پاکستان آرمی کی آغوش میں امریکی فوج کے ہاتھوں اسامہ بن لادن کا قتل اس بات کی دلیل ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا یہ ڈرامہ اب ایک نئے انداز میں شروع کیا جانے والا ہے۔ ڈرامہ جس انداز میں بھی ہو ڈرامہ ہی ہوتاہے اور ڈرامہ جیسا بھی ہو وہ عوام النّاس پر اپنے اچھے یا برے اثرات ضرور مرتّب کرتا ہے۔ڈرامہ بازی اچھی چیز ہے لیکن اب امریکہ،سعودی عرب اور پاکستان کے حکمرانوں کو اتنا ضرور جان لینا چاہیے کہ وہ طالبان اور القائدہ کے نام پر دہشت گردی اور شدت پسندی کے جس تفکّر کی پرورش کرتے چلے آرہے ہیں اب وہ تفکر ایک ناگ کی صورت اختیار کرچکاہے اور یہ ناگ جلد یا بدیر کہیں سے بھی اپنا سر نکال سکتاہے۔اب یہ ناگ اتنا جوان اور طاقتور ہوچکاہے کہ مسجدوں میں نمازیوں یا اولیائے کرام کے مزارات میں زائرین کے خون سے اس کے پیٹ کی آگ بجھنے والی نہیں۔اب وہ وقت زیادہ دور نہیں کہ جب دہشت گردوں کے ہاتھوںمارے جانے والے مظلوم پاکستانیوں اور افغانیوں کی بیواوں کی طرح سعودی عرب کے شاہی خاندان کی بیوائیں بھی بین کرتی پھریں گی اور دہشت گردی میں ملوث ہمارے جرنیلوں کی بیگمائیں بھی اپنے آنسووں کے شوربے میں روٹیاں بھگو کر کھائیں گی۔دہشت گردی کا ناگ اگر اپنی پھنکار سے غریبو ں کے چولھے بجھاسکتاہے تو زرداروں ،نوابوں،وڈیروں اور کرپٹ سیاستدانوں کے ماتھے پر بھی ڈس سکتاہے۔دہشت گردی کاجو ناگ بارباراسلام آباد سے سر نکال رہاہے اسے وائٹ ہاوس تک پہنچنے میں آخر کچھ دیر تولگے گی۔۔۔بہرحال اسامہ کے قتل پر امریکہ میں جشن بنانے والوں کو اپنی عقل کا ماتم بھی کرنا چاہیے اس لئے کہ امریکہ کے مکار سیاستدان نسل در نسل دہشت گردی کے جس ناگ کو پال رہے ہیں وہ آگے چل کرایک نہیں کروڑوں اساموں کو جنم دے گا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پاکستان ایمبیسی
جب قانون شکنجہ بن جائے ۔۔۔
نذر حافی
[email protected]
یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ دنیا میں ہر شخص کا کوئی نہ کوئی شوق اور مشغلہ ہوتا ہی ہے ۔کسی کو چاند پر جانے کا ،کسی کو پتنگ اڑانے کا ،کسی کو کبوترپالنے کا اور کسی کو بیت بازی کا ۔ہمیں بھی بچپن سے ہی دو عجیب چیزوں کا شوق تھا،ایک تو پولیس میں بھرتی ہوکر چوروں کو پکڑنے کا اور دوسرے پاکستان ایمبیسی دیکھنے کا۔پہلا شوق تو یونیورسٹی کے زمانے میں اس وقت ہمارے دل سے نکل گیا جب ہم راولپنڈی کے رحمان آباد اسٹاپ سے ویگن پر سوار ہو کر صدربازار میں یونیورسٹی جایاکرتے تھے۔راستے میں جب بھی کوئی پولیس والا گاڑی میں سوار ہوتا تھا تواس کے اترتے ہی لوگ اس کی اور اس کے محکمے کی غیبت شروع کردیتے تھے اور پھر ایسی ایسی باتیں کرتے تھے کہ توبہ توبہ۔۔۔حالانکہ کئی مرتبہ ہم نے گاڑی میں لوگوں کو پولیس کے مقدس محکمے کی ضرورت اور اہمیت پر لیکچر دینے کی کوشش بھی کی لیکن پولیس کے بارے میں لوگوں کی اتفاق رائے دیکھ کر ہمیں صاف محسوس ہوتا تھا کہ لوگ ہم سے زیادہ پولیس کے بارے میں جانتے ہیں۔ہم تقریباًہر روز یونیورسٹی آتے جاتے عوام اور پولیس کی نفسیاتی جنگ کا مشاہدہ کرتے چلےآرہے تھےکہ اسی دوران عید قربان کے ایّام آگئے۔چاندنی چوک سے کچھ فا صلے پر پولیس نے ناکہ لگایا ہوا تھا اور اشارہ کر کے گاڑیوں کو ایک سمت میں کھڑا کرنے کے بعد ڈرائیوروں کو نیچے اتار کر ایک کنارے پر لے جاتے تھے۔چنانچہ چلتے چلتے ہماری گاڑی بھی رکی اور ڈرائیور اتر کر ایک پولیس کانسٹیبل کے ہمراہ ایک طرف نکل گیا۔ہم سب نے مڑ مڑ کر پیچھے دیکھنا شروع کردیا تو پچھلی سیٹوں پر بیٹھے کسی منچلے نے زور سے آواز دی کہ بھائیو۔۔۔مڑ مڑ کر نہ دیکھو قانون شرما جائے گا۔
کچھ ہی دیر میں ڈرائیور ہنستا مسکراتا لوٹ آیا اور گاڑی چل پڑی۔ہم نے بھی ذرا لہک کر پوچھا کہ جناب کہاں گئے تھے۔وہ شرماتے ہوئے بولا وہ جی اصل میں آج کل عید کے دن ہیں اس لئے ۔۔۔ پولیس والے عید اکھٹی کررہے ہیں۔ہم نے پوچھا کتنے لئے ہیں آپ سے؟ بولا دس روپے
ہم نے حیران ہوکرکہاصرف دس روپے اس نے ہنس کرکہا سوزوکی والوں سے چار پانچ روپے بھی وصول کرتے ہیں یعنی جس سے جو مل جائے۔۔۔اس کے بعد گاڑی صدر بازار پہنچ گئی اور ہم نے ہمیشہ کے لئے پولیس کے دفاع اور پولیس میں بھرتی ہوکر چوروں کو پکڑنے کا خیال اپنے دل سے نکال دیا۔البتّہ دوسرا شوق وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے دل میں جوان ہوتا جارہا تھا وہ تھا پاکستان ایمبیسی کو دیکھنا۔جیسے جیسے ہم تہذیب و ثقافت،اسلامی تمدّن اور تاریخ پاکستان کا مطالعہ کرتے چلے جارہے تھے،پاکستان ایمبیسی کی قدر و اہمیّت ہماری نگاہوں میں اور زیادہ بڑھتی چلی جارہی تھی۔ہم سمجھتے تھے کہ دنیا بھر میں پاکستانی سفارتخانوں کا بچھاہوا جال دراصل پاکستانی تہذیب و ثقافت اور تمدن کا نیٹ ورک ہے، ان سفارتخانوں کے دم سے ملت پاکستان کا تشخص اور وقار قائم و دائم ہے اور یہ سفارت خانے در اصل وہ تہذیبی،ثقافتی اور نظریاتی مراکز ہیں جو اقوام عالم کو فکر اقبال اور افکار قائداعظم سے آشنا کر رہے ہیں۔
ایک طرف تو ہمارے ذہن میں پاکستانی سفارتخانوں کی اہمیتّ کا لاوا پک رہاتھا اور دوسری طرف ہمیں کبھی پاکستان ایمبیسی دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملاتھا۔چنانچہ ہمارے ہاں جو بھی کسی باہر کے ملک سے واپس گھر آتا تھاہم گھما پھرا کر اس سے پاکستان ایمبیسی کے بارے میں سوال کرتے تھے، تقریباً ہر دفعہ ہمیں یہ جواب دے کر خاموش کرادیاجاتا کہ تھانے اور ایمبیسی میں خدا دشمن کو بھی نہ لے جائے۔
ایمبیسی کو تھانے کی شبیہ قرار دیناہمارےلئے ایک انوکھی بات تھی چونکہ ہمارا خیال تھاکہ سفارتخانہ ،سفارتخانہ ہے اور تھانہ ،تھانہ ہے۔بہرحال ہم اپنے خیال پر ڈٹے رہےاور لوگ اپنی ضد پر اڑے رہے۔اسی دوران صدام کا تختہ الٹ گیا اور ہمیں عراق جانے کا موقع ملا۔وہاں بھی ہم پر پاکستان ایمبیسی دیکھنے کاجنون سوار ہوالیکن دوستوں کے سمجھانے اور بزرگوں کے ڈرانے باعث ہم نے پاکستان ایمبیسی جانے کا ارادہ ترک کردیا۔بعد ازاں ہم نے امریکہ اور یورپ سے آنے والے پاکستانیوں کاتعاقب شروع کیا اور ان سے پاکستانی سفارتخانوں کی خدمات اور ملی سرگرمیوں کے بارے میں سوالات کرنے شروع کئے ۔اکثر لوگ تو ہماری باتوں پر ہنس کر کہتےتھے کہ پتہ نہیں آپ سفارتخانے کو کیا سمجھتے ہیں۔ارے قبلہ ہم تو بس کبھی ویزے یا پاسپورٹ کے چکر میں ایمبیسی جائیں تو جائیں اور وہ بھی دعا کریں کہ خدا کسی کو نہ لے جائے۔۔۔
خدا خدا کر کے اس سال ہماری یہ دیرینہ آرزو پوری ہوگئی اور ہمیں تہران میں قائم "پاکستان ایمبیسی "جانے کا شرف حاصل ہوہی گیا۔ہوا کچھ یوں کہ ایران میں ہم باپ بن گئے اور ہمیں پاکستان ایمبیسی سے اپنے بچے کا پاسپورٹ بنوانا پڑگیا۔ہم نے ہزاروں ارمانوں اور خوابوں کے ساتھ کہیں سے پاکستان ایمبیسی کا ٹیلی فون نمبر لیا اور فون کر کے تمام تر ضروری معلومات اکٹھی کرلیں۔تین چار دنوں میں آفس ٹائمنگ معلوم کی گئی،فوٹوکاپیاں کروالی گئیں،صاحبزادے کی تصاویر اتروا لی گئیں اورٹیکسی والے کو صبح لے جانے اور واپس لانے کی تاریخ اور ٹائم بتا دیا گیا۔اتفاق سے جس صبح ہم نے ایمبیسی جانا تھا اس رات خوشی کے مارے ہمیں نیند ہی نہیں آئی۔رات بھر جاگتے رہے لیکن اس کے باوجود جسم پر کسی قسم کی تھکاوٹ کے کوئی آثار نہیں تھے۔صبح سویرے ہم ٹیکسی میں سوار ہوئے اور مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ پہلے یعنی آٹھ بجے ایمبیسی پہنچ گئے۔نوبجے قطار بنائی گئی اور ہم بہت خوش ہوئے چونکہ سب سے آگے ہم کھڑے تھے۔پھروہیں کھڑے کھڑے دس بج گئے پھر ساڑھے دس بجتے ہی ہمارے منہ پر بارہ بجنے لگے،ہم نے ڈیوٹی پر مامور چند افراد کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم لوگ باہر روڈ کے اوپر آخر کب تک کھڑے رہیں گئے ،انہوں نے جواب دیا جب تک بڑے صاحب نہیں آجاتے۔ہم نے عرض کیا حدّ اقل ان خواتین اور بچوں کو تو صحن میں بٹھادو ہم ادھر روڈ پر ہی قطار بنائے رکھیں گے وہ بولے نہیں ہر گز نہیں چونکہ اوپرسے آرڈر نہیں ہے۔لہذا ہم اپنی ہی ایمبیسی کے سامنے خود بھی دھوپ اورغصّےمیں جلتے رہے اور دوسروں کو بھی جلتا دیکھتے رہے۔گیارہ بجے توملازمین نے اعلان سنایاکہ وقت ختم ہوگیاہے ہم نے بہت منّت سماجت کی کہ ہم دوبارہ بیوی بچوں کو ساتھ نہیں لاسکتے ،ہم صبح سے آئے بیٹھے ہیں ،کم از کم ابتدائی کاروائی تو کر لی جائے تاکہ دوبارہ پوری فیملی کو ساتھ نہ لانا پڑے،وہ بولے جناب ہم کچھ نہیں کرسکتےہمارے ہاں یہ قانون ہے کہ گیارہ بجے ہم لوگوں کوواپس بھیج دیتے ہیں،ورنہ یہ جو اوپر آفیسرز بیٹھے ہیں وہ ہمیں جوتے مارتے ہیں۔وہ اپنی باتیں کرتے رہے اورہم لوگ ڈھیٹ بن کر روڈ پرکھڑے رہے ، اسی طرح بارہ بج گئے،بارہ بجے ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ایک ایک کر کے ساراعملہ گیٹ سے باہر نکلا اور چلا گیا۔
ہم نے بھی واپس پلٹنے میں ہی اپنی عافیّت سمجھی اور یہ بات کچھ کچھ ہمیں سمجھ آنے لگی کہ آخر کیوں لوگ ایمبیسی کو تھانے کی مانند قراردیتے ہیں۔چند دن ہمیں اپنے آپ کو سمیٹنے میں لگے اور تقریباً دو ہفتوں بعد ہم نے ایک مرتبہ پھر ایمبیسی جانے کا ارادہ کیا۔چنانچہ حسب سابق تمام تیاریاں مکمل کی گئیں اور ایک مرتبہ پھر ہم صبح آٹھ بجے ایمبیسی کے گیٹ کے سامنے روڈ پر کھڑے ہوگئے اور نو بجے تک ہمارے پیچھے شیطان کی دم کی طرح لمبی لائن لگ گئی۔یہاں پر ہم یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ پاکستان ایمبیسی میں صرف پاکستانی نہیں آتے بلکہ مختلف ممالک کےسیّاح، تاجر ،انجینئر اورکاروباری حضرات بھی آتے ہیں جوپاکستان میں بزنس یا کاروبار کے سلسلے میں مشغول ہوتے ہیں یا ہونا چاہتے ہیں۔
اس مرتبہ ایک خاص تبدیلی دیکھنے میں آئی اور وہ یہ کہ خواتین اور بچوں کو گیٹ سے اندر داخل ہوکر صحن میں لگی پرانی اور گندی کرسیوں پر بیٹھنے کی اجازت دے دی گئی۔اتنی بڑی تبدیلی دیکھ کر ہمارا دل خوشی کے مارے اچھل کر حلق میں آگیا۔ نو بجے لوگوں میں فارم تقسیم کردئے گئےتا کہ وہ اپنی اپنی ضرورت کا فارم پر کریں اور جمع کرائیں،فارموں کی تعداد بھی مختلف تھی،کسی کی قسمت میں ۴ کسی کی قسمت میں ۵ اور کسی کی قسمت میں ۶ فارم تھے،مزے کی بات یہ ہے کہ یہ سب کے سب فارم انگلش میں تھے اورموجود حاضرین کی اکثریت بغیر کچھ سوچے سمجھے ان فارموں پر دستخط کرتی چلی جارہی تھی اور ایک دوسرے کی دیکھادیکھی فارم پر کئے جارہے تھے۔ایک صاحب سے میں نے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ بیان حلفی پر دستخط کر رہے ہیں وہ بولے مجھےکیا معلوم ،میں نے پاسپورٹ بنواناہے وہ کہتے ہیں یہاں یہاں دستخط کردو میں نے دستخط کردئے۔
پھر وہ صاحب مجھ سے بولے کے یہ لوگ "اردو زبان”میں فارم کیوں نہیں چھپواتے،میں نے عرض کیا کہ قبلہ اس کی دو وجوہات ہیں ایک یہ کہ اردو غریبوں،کمیوں اور ناداروں کی زبان ہے جب کہ انگلش نوابوں،انگریزوں اور سرکار کی زبان ہے جبکہ دوسری وجہ جب آپ اندر جائیں گئے تو بڑے صاحب سے پوچھئے گا۔ادھر ہم لوگ باتیں کررہے تھے اُدھر کچھ لوگ پسینے میں شرابور ہانپ رہے تھے،ہم نے ہانپنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ یہاں پر فوٹوکاپی کی سہولت موجود نہیں ہے لہذا ایک فوٹوکاپی کے لئے آنے اور جانے میں تقریباً ۴۵منٹ لگتے ہیں۔ابھی یہ بات ہوہی رہی تھی کہ ایک اور صاحب بولے کے فیس جمع کرانے کے لئے بھی اچھا خاصا دور جانا پڑتاہے۔حالانکہ یہ مسئلہ اس طرح بھی حل ہوسکتاہے کہ پاسپورٹ کے ساتھ ہی فیس وصول کرلی جائےاور بعد میں اکاونٹ میں جمع کرادی جائے۔اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے طریقے موجود ہیں جنہیں اختیار کر کے فوٹوکاپی اور فیس جمع کرانے کی مشکل حل ہوسکتی ہے۔
باتوں ہی باتوں میں فارم پر ہوگئے اورگیارہ بجے ہمیں بڑے صاحب کی خدمت میں باری باری پیش کیا جانے لگا۔سب سے پہلے ہمارا نمبر تھا،گیٹ کھول کر ہمیں اندر داخل ہونے کی اجازت دی گئی۔چند قدم چلنے کے بعد ہم نے ایک دروازہ کھولا اور ایک کمرے میں داخل ہوگئے ،ہمارے پیچھے پیچھے دوسرے لوگ بھی چلتے آرہے تھے،بالکل ایسے ہی جیسے کوئی بے گناہ قیدی کال کوٹھڑی کی طرف چلتاہے۔اندر پہنچ کر ہمیں تو کہیں پر قائداعظم یا علامہ اقبال کی کوئی تصویر نظر نہیں آئی،البتہ ممکن ہے عوام النّاس کی نظروں سے چھپاکر کہیں پر کوئی تصویر لگائی گئی ہو یا قائداعظم کا کوئی قول یا علامہ کا کوئی شعر لکھا ہوا ہو،بہر حال ہماری گستاخ نگاہیں بار بار ڈھونڈھنے کے باوجود نہ ڈھونڈ پائیں۔
اس کے بعد ہمیں بڑے صاحب کے سامنے پیش ہونے کے لئے ایک کمرے میں لے جایاگیا،ان سے ملتے ہی ہمارابدن ایسےسرد پڑگیاجیسے برف، ہمارے سرد ہونے کی وجہ یہ تھی کہ بڑے صاحب وہ کام کر رہے تھے جو چھوٹے صاحب کے کرنے والے تھے،موصوف کاغذوں کو نتھی کر رہے تھے،تصاویر مرتب کر رہے تھے اور فارموں کو فائلوں میں ڈال رہے تھے، سلام کے بعد ہم نے کچھ دیر صبر کیا اور پھر بڑے صاحب پر اپنے مفید مشوروں کی خواہ مخواہ بارش شروع کردی۔ہمارے مشورے کچھ اس طرح کے تھے کہ مثلاًلوگوں سے ملاقات کی ٹائمنگ بڑھائی جائے۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔انہوں نے فائلوں کو ٹٹولتے ٹٹولتے میرے مشورے سنے اور بڑی محبت سے یہ جواب دیاکہ میرے پاس سٹاف نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ کام بہت زیادہ ہے۔میں بھی حکم کا پابند ہوں جو اوپر سے آرڈر آتا ہے وہی انجام دیتاہوں لہذا میں مجبور ہوں کچھ بھی نہیں کرسکتا۔اس کے بعد انہوں نے اگلی خبر یہ سنائی کہ اب اوپر سے یہ آرڈر آیاہے کہ آپ کے بچے کے لئے پاسپورٹ جاری نہیں ہوسکتا،ابھی صرف رجسٹریشن ہوگی آپ جائیں فلاں چوک کے نزدیک فلاں بینک میں رجسٹریشن فیس جمع کراکے وہاں سے فلاں چوک کے اتنے نمبر کوچے سے رجسٹریشن فیس کی رسیدکی ۲عددفوٹوکاپیاں بھی کراکے اپنے ہمراہ لیتے آئیں۔ یہ سنتےہی ہمیں خطرہ پڑگیاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم فیس جمع کرانے اور فوٹوکاپی کرانے اتنے دور چلے جائیں اور پیچھے چھٹی ہوجائے۔ اس خدشے کےاظہار پر موصوف نے تسلی دی کہ ہمارے واپس آنے تک یعنی۳۰،۴۰منٹ تک چھٹی نہیں ہوگی، ہم بھاگم بھاگ گئے اور واپس آگئے ،ہم نے رجسٹریشن فیس کی رسید جمع کرائی اور دیکھاکہ لوگ جناب عالی سے پوچھ رہے تھے کہ پاسپورٹ کے بغیر ہم بچے کو پاکستان کیےس لے جائیں ؟جناب عالی فخر کے ساتھ مسکراکربتارہے تھےکہ ابھی نیا قانون جاری ہواہے جس کی رو سے ہم آپ کو صرف ایک مہنےج کا ایمرجنسی پاسپورٹ بنا کر دیں گے۔جب آپ نے پاکستان جانا ہو آئیں اسی وقت ایمر جنسی پاسپورٹ لیں ،بچے کو پاکستان لے جائیں اور وہاں جاکر نیا پاسپورٹ بنوائیں۔یعنی کیا ۔۔۔کیا جب تک ہم پاکستان نہ جائیں ہمارے بچے بغیر پاسپورٹ کے رہیں گے اور اگر ان کا پاسپورٹ نہیں ہوگا تو انہیں قانونی اقامت بھی نہیں ملے گی،یعنی غیرقانونی طور پر انہیں ایک دوسرے ملک میں رکھیں گئے۔وہ بولے مجھےنہیں پتہ میں تو قانون کا پابند ہوں۔یہ شور شرابا جاری تھاکہ میں خاموشی کے ساتھ ایمبیسی سے باہر نکل آیا کہ اب الجھنے کا کوئی فائدہ نہیں،اس لئے کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہے۔
میں نے باہر دیکھاتولوگ روڈ کے اوپر کھل کرغیر ملکیوں کے سامنے ایک دوسرے کے ساتھ اپنادرد دل بیان کر رہے تھے۔اب آپ خود سوچئے کہ اگر ہر روز سینکڑوں پاکستانی اپنی ایمبیسی کے دروازے پر کھڑے ہوکر اپنی بدقسمتی کاماتم کررہےہیں تو اس سے ہمارےقومی عزت و وقار میں ہرروزکس قدر اضافہ ہورہاہے۔
پاکستان ایمبیسی کا یہ حال دیکھ کر مجھے شدّت سےیہ محسوس ہواکہ ہمارے ملک کی داخلی و خارجی کلیدی پوسٹوں پر ایسے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں،جوشعوری یا لاشعوری طور پر پاکستانیوں کو پاکستان سے متنفّر کر رہے ہیں۔ایسے لوگ قانون کے ذریعے لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے لوگوں کواذیّت و آزار میں مبتلاکررہے ہیں۔ اب اور کوئی سوچے یا نہ سوچےارباب علم و دانش کو تویہ سوچنا چاہئے کہ آخریہ کون لوگ ہیں ۔۔۔جو مختلف کرسیوں پر بیٹھ کرپاکستانیوں کے دل سے پاکستان کی محبت کو مٹانے پر تلے ہوئے ہیں ۔۔۔ کیایہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ جب قانون کو شکنجہ بنا کر عوام کے سامنے پیش کیاجائے تولوگوں کے دل سےخود بخود قانون کا احترام ختم ہوجاتاہے ۔