کالم

آئیں بھی وہ گئیں بھی وہ ختم افسانہ نہیں ہوا

سمیع االلہ ملک
23جون کوبھارتی سیکرٹری خارجہ نروپما راو(Nirupama Rao)پاکستانی خارجہ سیکرٹری سلمان بشیرکے ساتھ دودن کے مذاکرات کے بعدواپس نئی دہلی چلی گئیںمسزراؤ ایک منجھی ہوئی سفارتکارہیں جو اس سے پہلے امریکا،روس میں ڈپٹی چیف آف مشن کے عہدے کے علاوہ چین میں بھی سفارتکاری کے فرائض سرانجام دے چکی ہیں۔وہ پہلی خاتون بھارتی سیکرٹری خارجہ مقررہوئیں اوراب امریکامیں بطورسفیرتعینات ہوئی ہیں۔ممبئی حملوں کے تین سال بعدپہلی مرتبہ انتہائی احتیاط کے ساتھ تنازع کشمیرکاتذکرہ تو ہوالیکن ان مذاکرات سے پہلے پاکستانی وزارتِ خارجہ کے سیکرٹری سلمان بشیرنے جہاں اپنے افتتاحی کلمات میں بڑے پرامیداندازمیں کہا کہ:ہمیں گفتگوبرائے گفتگواورروایتی طورطریقے چھوڑکر با مقصدبات چیت کرناہوگی وہاںموصوفہ نے مذاکرات سے پہلے ہی انتہائی معنی خیزاندازمیںیہ بیان دیاکہ”اس مسئلے (کشمیر)پربات سے پہلے ماحول کوبندوق سے پاک کرناہوگا“۔گویابھارتی خارجہ سیکرٹری نے ایک مرتبہ پھر اپنی پالیسی واضح کردی کہ کشمیرکامسئلہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔اگرکشمیرکے عوام بندوق اورتشددکاراستہ ترک کردیں تومسئلہ خودبخودحل ہوجائے گا۔جس کامطلب یہ ہے کہ بھارت کشمیرکوخارجی مداخلت کاشاخسانہ سمجھتاہے اوراسے حقیقی مسئلے کی حیثیت دینے کوتیارنہیں۔
مذاکرات سے پہلے فریقین نے میڈیاکومذاکرات کوبامقصداورمفاہمت کی طرف ایک اہم قدم قراردینے کاتاثردیااورکسی منفی بیانات سے احترازکیاگیا۔مذاکرات کے پہلے دورمیں فریقین میں اعتمادسازی کےلئے کئے جانے والے مختلف اقدامات ،خطے میں امن واستحکام کے قیام کے حوالے سے مختلف تجاویزپرمشاورت کی گئی ۔پاکستان کی جانب سے طے شدہ ایجنڈے کے علاوہ بلوچستان میںبھارتی مداخلت اورافغانستان میں بڑھتے ہوئے بھارتی اثرونفوذکے تناظرمیں اپنے اپنے خدشات وتحفظات کاتذکرہ بھی کیاگیا۔دونوں ملکوں میں دہشتگردی کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال ہوااوربھارت نے اپنی ”تشویش“ کااظہارکیاجبکہ وزارتِ خارجہ کی ترجمان تہمینہ جنجوعہ نے میڈیابریفنگ میں کہا:مذاکرات انتہائی دوستانہ ماحول میں ہوئے ہیں ،نتائج کے بارے میں کوئی بات کرناقبل از وقت ہوگاجبکہ بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وشنوپرکاش نے اپنی جان چھڑاتے ہوئے اس سارے معاملے کوگول کرتے ہوئے کہاکہ”اس معاملے پرمذاکرات کے حوالے سے قیاس آرائی موزوں نہیں“۔ لیکن چارگھنٹے کے مذاکرات کے بعدیہ کھل کرسامنے آ گیا کہ یہ اعتمادسازی کوبحال کرنے والے مذاکرات محض حیلہ سازی کے سواکچھ بھی نہیں تھے۔
(Forward Looking)جیسی خوشنما اصلاحات اس وقت دم توڑگئیں جب بھارتی سیکرٹری خارجہ نروپماراؤنے مہمان ہونے کے ناتے اپنے پاکستانی ہم منصب سے زیادہ وقت لیتے ہوئے ایک مرتبہ پھروہی گھسے پٹے بھارتی مؤقف کااعادہ کرتے ہوئے کہا”:ممبئی واقعات کی اطمینان بخش تحقیقات اورکاروائی ہی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات معمول پرلانے میں مدددے سکتی ہے“اوراس کے برعکس جب میڈیانے سلمان بشیرکی مددکرتے ہوئے سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کے بارے میں سوال کیاتوموصوف نے نہائت انکساری کامظاہرہ کرتے ہوئے نروپماراؤ کے مزاج کوبرہم نہ ہونے دیا۔نروپماراؤ نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ:دونوں خارجہ سیکرٹریوں نے اپنے وزرائے اعظم کی طرف سے دیئے گئے مینڈیٹ کے تحت یہ مذاکرات کئے ہیں ۔تعلقات معمول پر لانے کےلئے پرامن دیرپامذاکرات ضروری ہیں،تشددنے مذاکرات کونقصان پہنچایاہے اورہم لوگوں کے مفاد میں ہے کہ دوطرفہ تجارت میں اضافہ ہواوردہشتگردی مکمل طورپر ختم کردی جائے ۔ ہمیں عوام کے فائدے کےلئے مذاکرات کے عمل کوآگے بڑھاناہے ۔ممبئی حملوںکامعاملہ بھارت کےلئے بہت ”حساس“ہے جس پربھارتی تشویش بڑی واضح ہے ۔
آخرممبئی واقعات کو سمجھوتاایکسپریس کے مسئلے پرترجیح دینے کاتاثرکیوں واضح ہواجبکہ خودبھارتی تحقیقات کے مطابق بھارتی دہشتگردوں کے اس میں ملوث ہونے کے شواہدثابت ہوچکے ہیں۔ آخر پاکستانی خارجہ سیکرٹری نے اس معاملے کوسنجیدگی سے کیوں نہیں اٹھایاجبکہ نروپماراؤنے یہ کہہ کراپنادامن جھٹک دیاکہ ”داخلہ سیکرٹریوں کے اجلاس میں یہ مسئلہ زیر غور آیاتھاجس میں بھارت نے واضح کردیاتھاکہ جب تحقیقات مکمل ہوجائیں گی توپاکستان کوان کے نتائج سے مطلع کردیاجائے گا “جبکہ پاکستان کی سنجیدگی کااس بات سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ انہوں نے یہ کہہ کرنروپماراؤکےلئے آسانی پیداکردی کہ”دہشتگردی سے متعلقہ تمام معاملات پرداخلہ سیکرٹریوں نے بات کی جومثبت تھی“۔بات چیت کے اختتام کے بعدیہ کھل کرسامنے آگیاکہ خارجہ سیکرٹریوں کے مذاکرات تنازعہ کشمیرپرکسی ادنیٰ سی پیش رفت کے بغیرہی ختم ہوگئے ہیں۔بھارتی وفدکی طرف سے اس بیان نے توان مذاکرات کی قلعی کھول کررکھ دی کہ:پاکستان کے ساتھ تنازعہ کشمیرپرصرف اسی صورت میں بات ہوسکتی ہے کہ وہ پہلے(Shadow of Gun)”بندوق کاسایہ“ختم کرے۔
بھارتی سیکرٹری خارجہ نروپماراؤنے کہا:اکیسویں صدی کے منظرنامے میںپاکستان اوربھارت کے مابین فوجی تصادم کی کوئی گنجائش نہیں۔تنازعہ کشمیرایک پیچیدہ مسئلہ ہے اس کےلئے تشددکی راہ ترک کرناہوگی اورامن وسلامتی کے حوالے سے اقدامات مرحلہ وارہونے چاہئیں۔کوئی شریمتی سے یہ توپوچھے کہ اب تک اعتمادسازی کے پندرہ سوسے زائد مرتبہ مذاکرات کاڈرامہ رچایاجاچکاہے اورہردفعہ یہی گھسے پٹے بیانات کے ذریعے حیلہ سازی کاکب تک سہارالیاجائے گا۔بھارت خودمسئلہ کشمیرکواقوام متحدہ میں لیکرگیاجہاں اس نے تحریری طورپرکشمیریوں کوحق خودارادیت دینے کاودعدہ کیااوراقوام عالم کے دس بڑے ملکوں نے بطورگواہ اس کی ضمات دی۔اب جب کشمیری بھارت سے اس وعدے کی تکمیل کامطالبہ کرتے ہیں تواس کے جواب میں بھارت نے سات لاکھ سے زائد فوج کوان کے سروں پرمسلط کررکھاہے اورپاکستان کوہمہشہ یہ مشورہ دیاجاتاہے کہ پہلے دوسرے مسائل پرتوجہ دے اورکشمیرمیں جاری تحریک آزادی میں پاکستان کوموردِ الزام ٹھہراکراس پربات چیت سے انکارکردیاجاتاہے۔
بھارت دنیابھرمیں اپنی جمہوریت کی مثال دیتے ہوئے یہ کیوں بھول جاتاہے کہ کشمیرمیں کسی بھی بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اورغیرملکی میڈیاکوجانے کی اجازت نہیںتاکہ وہ دنیاکوبھارت کی جعلی جمہوریت کاداغدارچہرہ نہ دکھادیں۔فرض کریں کہ کشمیربھارت کاحصہ ہے توپھر بھارتی افواج کوکس قانون نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ خوداپنے ہی ایک لاکھ سے زائدکشمیری شہریوں کواقوام متحدہ میں منظورکی گئی قراداد پرعملدرآمدکاوعدہ یادکروانے کی پاداش میںبے رحمانہ اندازمیں قتل کردے اور اس کی افواج اب تک چھ ہزارسے زائد کشمیری خواتین کی عصمت دری کردے۔ہزاروں بچے ،خواتین اوربوڑھے بھی بھارتی افواج کی سفاکی کانشانہ بنادیئے جائیں ۔یہ کیسی جمہوریت ہے کہ بھارت کے اندرخوددودرجن سے زائد علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں اوروہ پاکستان سے محض اس لئے مسئلہ کشمیرسے دستبردارہونے کامطالبہ کرے کہ وہ اس وقت داخلی مسائل میں الجھاہواہے۔من موہن سنگھ صاحب یہ مشورہ دیتے ہوئے کیوں بھول گئے کہ بھارت کے اندرچھتیس گڑھ اورماؤ نوازاپنے علاقوں کی آزادی کی نہ صرف جنگ لڑرہے ہیں بلکہ حکومت کے متوازی نظام چلارہے ہیں جہاں اپنے اپنے علاقوں میں بھارتی سیکورٹی فورسزکواندرجانے کی ہمت نہیں ہورہی، پھربھارت ان علاقوں سے کب دستبردارہوگا؟
دراصل بھارت ان مذاکرات کی آڑمیںپاکستان کوالجھاکرافغانستان میں فوائدحاصل کرناچاہتاہے۔سنٹرل ایشیاکی ریاستوں میں بھارتی اثرونفوذ بڑھاکران کی تجارتی منڈیوں پر اپنی اجارہ داری کے دیرینہ خواب کی تکمیل کاخواہاں ہے۔پچھلے ماہ افغانستان کے مستقبل کےلئے ہونے والی لندن کانفرنس میں جس طرح بھارت کوباہررکھاگیااورپاکستان کے ایک کلیدی کردارکوتسلیم کیاگیاہے ،اس سے جہاںبھارت کی افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری غرق ہوتی نظرآرہی ہے وہاں سنٹرل ایشیاکی ریاستوں تک رسائی کاخواب بھی شرمندہ تعبیرہوتادکھائی نہیں دے رہا ۔بھارت کاخیال ہے کہ امریکاکے ساتھ بڑھتی ہوئی دوستی کافائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کومزیددباؤ میں رکھ کراپنے عزائم کی تکمیل کی جاسکے لیکن حال ہی میں پاک امریکافوجی تعلقات نے جس انداز سے انگڑائی لی ہے اس سے خودامریکااوراس کے اتحادی یہ جان چکے ہیںکہ اب پاکستان کومزیددباو¿ میں رکھنامحال ہے۔
پاکستان کی عسکری قیادت بھارت کے عزائم سے پوری طرح باخبرہے اوروہ کبھی بھارت کواس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ مشرقی سرحدوں کے ساتھ ساتھ اس کی مغربی سرحدیں بھی غیرمحفوظ ہوجائیں۔یہی وجہ ہے کہ امریکاکوواضح ثبوت اورشواہدمہیاکرکے یہ مطالبہ کیاگیاہے کہ اگروہ افغانستان سے پرامن انخلاءمیں پاکستانی مددکاخواہاں ہے تواسے افغانستان کے راستے بھارتی را ،افغانستان کی خاداورسی آئی اے کی بلوچستان میںمداخلت بندکرنے میں اپناکرداراداکرناہوگا۔امریکاکے اندرجہاں یہودوہنودلابی قصرسفیدکوپاکستان کے خلاف کسی کاروائی کےلئے دن رات اکسارہی ہیں وہیںجنرل پیٹریاس جوعراق کی جنگ میں فتح کے شادیانے بجاتاہواافغانستان کوطاقت کے بل بوتے پرزیرکرنے کاخواب دیکھ رہاتھااوراس نے پینٹاگون اورسی آئی اے کواس بات پرقائل کیاہوا تھاکہ طالبان پرہرطرف سے طاقت کے بل بوتے پراس قدرخوفناک حملے کئے جائیں کہ جس کے بعدوہ مذاکرات کےلے مجبورہوجائیں اورامریکااپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی پوزیشن میں آجائے ۔
لیکن اب وہ فغانستان میں بری طرح ناکامی کے بعد اس کی ذمہ داری پاکستان پرڈال کرخودکوبری الذمہ قراردینے کی کوشش کررہاہے۔رابرٹ گیٹس کی سبکدوشی کے بعدلیون پنیٹاکوامریکاکانیاوزیردفاع جبکہ جنرل پیٹریاس کوسی آئی اے کاسربراہ مقررکردیاگیاہے۔ادھر جنرل پیٹریاس کی شدیدخواہش تھی کہ افغانستان میں کامیابی ملنے کے بعداس کومائیک مولن کی جگہ امریکی افواج کاجائنٹ چیف آف سٹاف مقررکردیاجائے اوربعدازاں ریٹائرہونے کے بعدوہ امریکاکی صدارت کاخواب بھی دیکھ رہاتھاجواب چکنا چور ہو گیا ہے ۔ لیون پنیٹااورجنرل پیٹریاس دونوں کے پاکستان کی عسکری قیادت کے ساتھ اختلافات کوئی ڈھکے چھپے نہیں۔قرائن یہ بتاتے ہیں کہ وہ امریکاکے اندرکام کرنے والی ہنودویہودلابیوںکوساتھ ملاکرانتقام کی خاطرافغانستان کی جنگ کوپاکستان میں منتقل کرنے کی پوری کوشش کریں گے جس کےلئے ہمارے عسکری حکام کوتوادراک ہے لیکن پاکستان کی سول حکومت کاقبلہ درست ہونے کی اشدضرورت ہے۔
البتہ امریکامیں سیاسی دانشوروںکا ایک طبقہ قصرسفیدکویہ مشورہ بھی دے رہاہے کہ ماضی میں پاکستان نے ہمیشہ امریکاکے ساتھ دوستی نبھائی ہے جبکہ بھارت ہمیشہ امریکاکے خلاف سرد جنگ میں روس کاہمنوارہا۔جونہی روس کوافغانستان میں شکست ہوئی اوراس کے ٹکڑے ہوگئے توبھارت نے فوری طورپرامریکاکوچین کوہوادکھاکراپنے مفادات کی خاطراپنی وفاداریاں امریکاکے ساتھ منسلک کرلیں ہیں۔ انہوں نے امریکی پالیسی سازاداروں کوبڑاصائب مشورہ دیاہے کہ امریکاکے معاشی مستقبل کےلئے بہترین راستہ پاکستان سے گزرکرجاتاہے جس کی مددسے پہلی مرتبہ چین اورامریکاکے درمیان تعاون کاراستہ کھلاتھا۔چین سے دشمنی کی بجائے دوستی امریکاکے مفادمیں ہے ۔اس لئے مناسب یہی ہے کہ پاکستان کے کلیدی کردارکوتسلیم کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون کیاجائے ۔
بروزمنگل4 شعبان 1432ھ 5جولائی 2011ء لندن

Leave a Reply

Back to top button