کالم

محترمہ نصرت بھٹو: جمہوری جدوجہد اور جرات و استقلال کی علامت

محترمہ فرزانہ راجہ
وفاقی وزیر و چیئرپرسن بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی)
محترمہ نصرت بھٹو کی اچانک اور رنجیدہ کر دینے والی رحلت سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک درخشاں باب بند ہو گیا- محترمہ نصرت بھٹو پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ اور دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی والدہ ہی نہیں بلکہ ان کا نام استبداد کے خلاف اور پاکستان کے عوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے بحالی جمہوریت کی جدوجہد کی علامت کے طور پر یاد رکھا جائے گا-شہید ذوالفقار علی بھٹو کے بعد انہوں نے پاکستان کے عوام کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتے ہوئے ماں کا سایہ دیا اور قوم و جمہوریت کے مستقبل کے لئے Èمر وقت کا مقابلہ کیا-
پاکستان کی خاتون ائول ہونے کے ناطے وہ ملک کے غریب اور نادار عوام کی خدمت کے لئے ہمیشہ پیش پیش رہیں- اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت کے دوران اختیار کی گئی لاتعداد غریب دوست پالیسیوں کے پیچھے قوت محرکہ بیگم صاحبہ کی ذات تھی-ایک فوجی آمر کی جانب سے قائد عوام کی جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹے جانے کے بعد محترمہ نصرت بھٹو نے ہر طرح کے مصائب اور تکالیف کا مقابلہ افسانوی جرات، بہادری سے کیا-ایک جانب وہ اپنے عظیم خاوند کی زندگی بچانے کی جدوجہد کر رہی تھیں تو دوسری طرف انہیں مارشل لاءکی وحشت کا مقابلہ کرنا پڑ رہا تھا-
اس سے قبل شہید ذوالفقار علی بھٹو کے جمہوری دور حکومت میں یہ محترمہ نصرت بھٹو کی بابصیرت شخصیت ہی تھی جنہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شعبہ خواتین تشکیل دیاجو ایک مفید سیاسی قوت ہی نہیں بلکہ خواتین کی آواز بن کر سامنے آیا- بہت کم لوگ آگاہ ہیں کہ1974 ءکو لاہور میں منعقدہ اسلامی سربراہی کانفرنس میں انہوں نے انتہائی متحرک اور فعال کردار ادا کیا- مارشل لاءعہد میں ان کی برداشت اور ہمت توڑنے کے لئے ہر طرح کے حربے استعمال کئے جانے کے باوجود انہوں نے متحرک سیاست سے کنارہ کشی اختیار نہ کی- قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی1979 ء شہادت کے بعد محترمہ نصرت بھٹو نے پارٹی کارکنوں کی ہمت بندھائی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن کے طور پر قیادت کا گراں بار اٹھائے رکھا-
یہ وہ ستمگر عہد تھا جب فوجی حکمران ضیاءالحق شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو صفحہ ہستی سے ہٹانے پر تلا بیٹھا تھا مگر محترمہ نصرت بھٹو اس کے ارادوں کی راہ میں آہنی چٹان بن گئیں- انہوں نے بحالی جمہوریت کی غیر معمولی جدوجہد شروع کی- تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کے قیام اور اسے چلانے میں نمایاں ترین کردار ادا کیا- مارشل لاءحکومت کی جانب سے اختیار کئے گئے ظلم و ستم کی قبل ازیں کوئی مثال نہیں ملتی-غالب حکمران محترمہ نصرت بھٹو کی ذات کو اپنے لئے بڑا خطرہ تعبیر کرتے تھے جس پر جمہوریت کے لئے ان کی جدوجہد کو روکنے کی خاطر انہیں پابند سلاسل کر دیا گیا-
یہ وہ کٹھن دور تھا جب پاکستان پیپلزپارٹی کے کئی مخلص کارکنوں کو کوڑوں کی سزا سنائی گئی اور بعض کو سرعام پھانسیاں تک دی گئیں- ان کڑی سزائوں اور کوڑوں کو دیکھتے ہوئے بعض نام نہاد بڑے رہنمائوں نے بیرون ملک پناہ لینے میں عافیت جانی- یہ وہ وقت تھا کہ فوجی حکمران پاکستان پیپلز پارٹی کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے اگر محترمہ نصرت بھٹو جمہوریت کا علم سربلند نہ رکھتیں-
اس جمہوری جدوجہد کے دوران لاہور میں لاٹھی چارج کے دوران محترمہ نصرت بھٹو کے سر پر شدید چوٹیں آئیں- 1982 ءمیں انہیں کینسر کی تشخیص کی گئی مگر شدید بیماری کے باوجود ان کا حوصلہ نہ ٹوٹا اور انہوں نے بیرون ملک سے بحالی جمہوریت کی جدوجہد جاری رکھی اور اپنی بیٹی شہید بینظیر بھٹو کو ہر طرح کی معاونت اوررہنمائی بہم پہنچائی-
بحالی جمہوریت اور مارشل لاءکے خاتمہ کے لئے اس عظیم جدوجہد کے دوران محترمہ نصرت بھٹو نے نا صرف جیل کاٹی بلکہ انہیں غاصب حکمرانوں کے غنڈوں کی جانب سے تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا مگر اس کے باوجود انہوں نے اپنی عظیم بیٹی شہید بینظیر بھٹو کے ہمراہ یہ تاریخی جدوجہد جاری رکھی-1985 ءمیں انہوں نے جنرل ضیاءالحق کی جانب سے انتخابات کے ڈرامہ کا بائیکاٹ کیا اور ملک کی دوسری اہم سیاسی قوتوں کو بھی اس پر آمادہ کیا جس کے نتیجے میں انتخابات کے ڈھونگ کی کوئی ساکھ باقی نہ رہی-
اپنے عظیم خاوند کی شہادت کے بعد بھی بیگم صاحبہ کو کئی بڑے صدمات سے دوچار ہونا پڑا- مارشل لاءحکومت کے خلاف جدوجہد کے دوران جب وہ کینسر سے لڑ رہی تھیں انہیں اپنے لاڈلے صاحبزادے شاہنواز بھٹو کی موت کی خبر سننا پڑی- انہوں نے قید اور جلاوطنی برداشت کی مگر بحالی جمہوریت کی جدوجہد میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کا ساتھ نہ چھوڑا- بعد میں انہیں اپنے دوسرے بیٹے میر مرتضیٰ بھٹو کو قتل کرنے کی روح فرسا خبر بھی سننا پڑی اور ان پر گرنے والے غموں کے کوہ گراں کا اندازہ یقینا کوئی دوسرا نہیں کر سکتا تھا- مرتضیٰ بھٹو کی موت کے بعد ان کی صحت تیزی سے گرنے لگی جو 23 اکتوبر 2011 ءکو خالق حقیقی سے جا ملنے تک دوبارہ بحال نہ ہو سکی-
آج محترمہ نصرت بھٹو جسمانی طور پر ہم میں نہیں رہیں تاہم وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے لئے ہمیشہ ایک قابل تقلید مثال رہیں گی خصوصاً پاکستان اور پاکستان پیپلز پارٹی کےلئے ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا- محترمہ نصرت بھٹو انتہائی مشکل دور میں اپنی لازوال جمہوری جدوجہد اور جمہوریت اور ملک کے لئے عظیم قربانیوں کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی-
بیگم نصرت بھٹو کی رحلت پر لکھا گیا خصوصی مضمون

Leave a Reply

Back to top button