کالم

نظریاتی محاذ………. اور…….. دہشت گرد ٹولے

نذرحافی
مسئلہ فلسطین اس وقت بین الاقوامی سطح پر ابھر ا جب ١٩٤٧ ء میں برطانیہ نے فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کو قانونی رنگ دینے کے لئے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کو اجلاس منعقد کرنے کے لئے خط لکھا۔ اقوام متحدہ نے آسٹریلیا، کنیڈا، یوگو سلاویہ، ہند، ہالینڈ اور ایران سمیت چند دیگر ریاستوں کے نمائند وں پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیا،اس کمیشن کے قیا م کا مقصد یہ تھا کہ سر زمین فلسطین کا دورہ کرکے وہاں کے مقیم یہودیوں اور فلسطینیوں کا موقف سنے نیز نزدیک سے فلسطین کی صورتحال کا جائزہ لیکر اقوام متحدہ کو اپنی رپوٹ پیش کرے۔
فلسطین کا دورہ کرنے کے بعد یہ کمیشن کسی مشترکہ نتیجے تک نہ پہنچ سکا اور یوں دو دھڑوں میں بٹ گیا۔ ایک دھڑے کی رائے یہ تھی کہ فلسطین کو داخلی طور پر عربی اور یہودی دو حکومتوں میں تقسیم کیا جائے جبکہ مرکزی حکومت، بیت المقدس میں متمرکز ہو کر کام کرے۔ دوسرے دھڑ ے کی رائے یہ تھی کہ فلسطین کو مستقل طور پر یہودی اور عربی نامی دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ یہودیوں نے دوسرے دھڑے کی رائے کو سراہا اور ایک مستقل یہودی ریاست کے قیام کے لئے کھل کر میدان سیاست و میدان جنگ میں اتر آئے۔
اقوام متحدہ نے بھی یہودیوں کو مایو س نہیں کیا اور تقسیم فلسطین کے فارمولے کو منظور کر لیا۔ اسی سال بر طانیہ نے فلسطین سے نکلتے ہوئے اپنا تمامتر جنگی ساز وسامان یہودیوں کے حوالہ کر دیا۔ یہ ہتھیار یہودیوں کے ہاتھوں میں پہنچنے کی دیر تھی کہ انہوں نے مسلمانوں پر شب خون مارنا شروع کر دیا اور پے در پے مسلمانوں کی املاک پر قابض ہوتے چلے گئے اس شب خون اور قتل و غارت کے نمایاں نمونے دیر یاسین، اور ناصرالدین نامی علاقے ہیں۔
اسی لمحہ کہ جب برطانیہ نے یہودیوں سے ملی بھگت کر کے فلسطین سے باہر قدم رکھا تو یہودیوں نے بھی ْاسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا۔ اِدھر اسرائیل کے قیام کا اعلا ن ہو نا تھا اُدھر اُس وقت کے امریکی صدر "ٹرومن” نے سرکاری طور پر اسرائیل کو تسلیم بھی کرلیا۔
برطانیہ، امریکہ، اور یہودیوں کے گٹھ جوڑ کے مقابلے کے لئے اسی سال مصر، اردن، لبنان، عراق، اور شام پر مشتمل عرب افواج کے دستوں نے فلسطین میں اپنے قدم رکھے اور لمحہ بہ لمحہ جیسے جیسے جنگ کے شعلے بھڑکتے گئے مسئلہ فلسطین عالمی برادری کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کرتا گیا۔
سامراج نے سب سے پہلے تو اسے فلسطین کا مقامی اور داخلی مسئلہ قرار دینے کی کوشش کی لیکن اپنی اس کوشش میں ناکامی کے بعد اس مسئلہ کو عرب ممالک کا مسئلہ بنا کر اقوام عالم کے سامنے پیش کیا۔
ایک طرف تو اس مسئلہ کو عربوں کا مسئلہ کہا گیا اور دوسری طرف عرب حکمرانوں کے درمیا ن پھوٹ ڈالنے اور عربوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لانے کیلئے سازش شروع کر دی گئی۔
سامراج کی سازشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرب حکمراں تحریک آزادی فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کو فراموش کرکے اپنی اپنی سلطنت کے استحکام اور جاہ و حشمت کے پیچھے لگ گئے یوں سامراج نے عربوں کے ذریعے ہی اسرائیل کو عربوں کے درمیان وجود، استحکا م اور تحفظ بخشا۔
اسرائیل دن بدن عرب ریاستوں کو اپنی طاقت و وحشت سے خوف وہراس میں مبتلا کرتا رہا او رفلسطین کے خون سے ہولی کھیلتا رہا یہاں تک کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے سورج نے طلوع کیا۔
Hafi 3جیسا کہ ہم جانتے ہیں کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لئے بصیرت، نظریئے، اور خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ تحریک آزادی فلسطین کے سلسلے میں ١٩٧٩ء تک فرزندان توحید خون کی قربانیاں تو پیش کر رہے تھے لیکن بصیرت اور نظریئے کے اعتبار سے کسی مسیحا کے منتظر تھے۔ حضرت امام خمیني نے جہاں پورے عالم اسلام کے دکھوں کا مداوا کیا، وہیں فلسطینیوں کے دردوں کی مسیحائی بھی کی آپ نے اپنے جد نامدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے پوری ملت اسلامیہ کو تمام تر علاقائی وابستگی اور فرقہ وارانہ کشیدگیوں سے بالا تر ہوکر متحد ہونے کا درس دیا۔
آپ کی مدبرانہ قیادت اور دینی بصیرت نے نہ صرف یہ کہ ایران کے اندر انقلاب بر پا کیا بلکہ آپ نے پورے جہان کے اندر تبدیلی اور بیداری کی لہر پھونک دی۔
آپ نے جہاں پر ایران میں اسلامی انقلاب کو کامیاب بنایا وہیں پر دنیائے اسلام پر مسلط عرب حکمرانوں کی نا اہلیوں اور خیانتوں سے بھی عالمی اسلامی برادری کو آگاہ کیا آپ کے بابصیرت افکار بادنسیم کی طرح ایک ملک سے دوسرے ملک میں منتقل ہو رہے تھے۔ ددست حیران اور دشمن سب ششدر تھے۔
آپ کے عظیم کارناموں میں سے ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے بیت المقدس کو جغرافیائی اکائی اور عربوں کی چودھراہٹ سے نکال کر ایک اسلامی مسئلہ بنایا۔آپ نے ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعۃ المبارک کو یوم القدس قرار دیکر دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس روز بین الاقوامی سامراج کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا پیغام دیا۔حضرت امام خمینی کی اس آواز پر لبیک کہنے کے لئے ہر سال بلا تفریق رنگ و نسل اور مذہب و مسلک، لاکھو ں مسلمان سڑکوں پر آکر جلوس کی شکل میں قدس کی آزادی کے لئے آواز بلند کرتے ہیں۔
یوم قدس جہاں پر فلسطینیوں کی حوصلہ افزائی کا باعث ہے وہیں پر بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں میں بیداری اور یکجہتی کا ذریعہ بھی ہے۔
چنانچہ گذشتہ کئی سالوں سے اغیار کے نمک خوار یوم القدس کے انعقاد کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں گذشتہ سال کوئٹہ میں یوم القدس کی ریلی میں خود کش دھماکہ بھی انھیں سازشوں کا حصہ تھا پاکستان میں سر گرم اسرائیلی ایجنٹوں کا خیا ل ہے کہ وہ دہشت گردانہ کاروائیوں اور خود کش حملوں کے ذریعے یوم القدس کے جلوسوں کو بند کرا دیں گے اور یوں دنیا میں بیداری اسلامی کی لہر دم توڑ دے گی لیکن دشمن یہ بھول رہا ہے کہ حضرت امام خمینی نے جس انقلاب کا پرچم بلند کیا ہے و ہ تلوار پر خون کی فتح سے عبارت ہے۔
اس انقلاب کے پرچم کو دہشت گردانہ کاروایؤں کے ذریعے جھکایا نہیں جاسکتا اس لئے کہ حضرت امام خمینی نے اپنے پورے انقلابی سفر میں دہشت گردانہ کاروئیوں کو کبھی بھی خاطر میں نہیں لائے آپ نے نہ ہی تو کبھی کسی دہشت گرد ٹولے کی حمایت کی اور نہ کسی دہشت گرد گروہ کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی آپ کے افکار ہمیشہ کی طرح آج بھی امریکہ، برطانیہ، اور اسرائیل جیسے دہشت گردوں اور ان کے پالتو خود کش حملہ آوروں کے لئے زہر مہلک ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انقلاب اسلامی سے لیکر آج تک پیروان امام خمینی نہ ہی تو دہشت گردوں کے سامنے جھکے ہیں اورنہ ہی خود کش حملہ آوروں کے خوف سے دبے ہیں انشاءاللہ ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی پورے پاکستان میں اور بالخصوص کوئٹہ میں یوم القدس کا جلوس شایان شان طریقہ سے نکالا جائے گا۔
وہ طاقتیں جو نالائق اور غیر صالح افراد کے ہاتھوں میں ہتھیار تھما کر یہ سمجھتی ہیں کہ وہ اس طرح فکر امام خمینی کو دبا دیں گی وہ در اصل غلط فہمی کا شکار ہیں شاید انکا خیال ہو کہ اس طرح مسلمان ڈر کر گھروں میں بیٹھ جائیں گے اور یا پھر آپس میں ایک دوسرے کے خلاف بد گمان ہو جائیں گے انھیں معلوم ہونا چاہئیے کہ حضرت امام اپنے پیرو کاروں کو دہشت گردوں کی حقیقت سے پہلے ہی آگاہ کر چکے ہیں جیسا کہ ایک مقام پر آپ نے اس ارشاد فرمایا ہے:
اگر اسلحہ غیر صالح اور غلط لوگوں کے ہاتھ لگ جائے تو اس سے کتنی خرابیا ں پیدا ہوتی ہیں انسان ابتدا سے ہی اس مشکل کا شکار رہا ہے کہ اسلحہ غیر صالح افراد کے ہاتھوں میں ہوتا ہے لھٰذا ابتدا سے جب انسان مہذب ہوا،تو اپنے خیال کے مطابق اسلحہ غیر صالح افراد کے ہاتھوں میں تھا اور انسان کی تمام مشکلات اسی میں ہے جب تک انسان نالائق اسلحہ برداروں سے ہتھیا ر چھین نہیں لئے جاتے بشریت کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتی۔
حضرت امام خمینی کے بقول نالائق اور غیر صالح افراد کے ہاتھوں سے اسلحہ چھینے بغیر عالم بشریت کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتی بس یہ ہم سب کی دینی اجتماعی اور ملی ذمہ داری ہے کہ ہم یوم القدس کو نالائق اور غیرصالح اسلحہ برداروں کی چالوں کی نذر نہ ہونے دیں۔
اسی طرح رہبر معظم سید علی خامنہ ای کے فرمودات کی روشنی میں جو تحریک بھی عوامی ہو اسلامی ہو اور استعمارمخالف ہو ہمیں اس کی بڑھ چڑھ کر حوصلہ افزائی کرنا چاہیئے لیکن اگر طالبان اور القاعدہ کی طرح کسی تحریک کی پشت پر غیر صالح افراد بیٹھے ہوئے ہوں کسی تحریک کے قیام اور تشکیل میں سامراجی ایجنسیا ں سر گرم ہوں اور کسی تحریک کی فکری طور پر استعماری ادارے رہنمائی کر رہے ہوں تو ایسی تحریکوں سے عوام الناس کو آگاہ کرنا اور انکے خلاف مزاحمت کرنا بھی ہم سب کی دینی اور شرعی ذمہ داری ہے۔
ہماری تمام مسلمانوں سے اپیل ہے کہ بیداري اسلامی کے اس سال میں پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ چڑھ کر یوم القدس کے پروگراموں میں شرکت کرکے امریکہ و برطانیہ اور اسرائیل جیسے بین الاقوامی دہشت گردوں اور انکے ایجنٹوں سے بھر پور نفرت کا اظہار کریں۔
یاد رکھیں!! یوم القدس علاقائی یا جغرافیائی مسئلہ نہیں بلکہ ایک نظر یاتی محاذ ہے اور نظریاتی محاذ کو دہشت گردی کے خوف سے خالی چھوڑ نا فرزندان خمینی کو زیب نہیں دیتا۔

Leave a Reply

Back to top button