میرے ملک کو ایتھوپیا نہ بنائو از ڈاکٹر مرتضیٰ مغل
ڈاکٹر مرتضیٰ مغل
پچکے گال‘پھولے پیٹ‘ زرد آنکھیں۔حدنگاہ تک پھیلی افلاس زدہ بستیاں‘مٹھی بھر سوکھے چاولوں کیلئے قطاروں میں لگے ننگے‘پیلے اور کالے انسان۔ پوری دنیا ایتھوپیا کے بھوکوں کا پیٹ بھرنے کی دعویدار لیکن بھوک ہر روز پھیلتی جارہی ہے۔قحط الرجال بھی قحط سالی بھی۔آنکھوں میں سہانے سپنوں کی جگہ ڈرائونے خواب۔سال ہا سال گزر جاتے ہیں پیٹ بھر کر کھانے کو معدے ترس گئے۔ہجرتوں کے مارے حسرتوں کے ستائے یہ استخوانی ڈھانچے ایڑیاں رگڑتے‘روزجیتے اور روزمرتے ہیں۔ ان کی حالت بدلی ہے نہ بدلے گی کہ ان کے اندر تبدیلی کے ہر خواہش مار دی گئی ہے۔ ان کے کرپٹ رہبروں اور رہنمائوں نے کرپشن کے سوا اس ملک کو کچھ دیا ہی نہیں ہے۔ خانہ جنگیاں اور خانہ بدوشیاں جب سیاسی ایجنڈا ٹھہریں تو پھر آسمان مہربان کیوں ہو؟
رپورٹ چھپی ہے کہ عالمی ادارے نے خوشحالی کا جو تازہ انڈیکس تیار کیا ہے اس میں پاکستان کو ایتھوپیا بننے کیلئے صرف ایک نمبر نیچے گرنا ہے۔اس وقت غربت کے عالمی معیار کے مطابق ایتھوپیا غریب ترین ممالک میں چھٹے نمبر پر ہے اور پاکستان ساتویں نمبر پر۔ عالمی ادارے نے کوئی جھوٹ نہیں بولا‘مبالغہ آمیزی بھی دکھائی نہیں دیتی۔
آج سندھ کی صورتحال دیکھ لیں۔ایک کروڑ کے لگ بھگ لوگ جو پہلے ہی غربت اور تنگدستی کی چکی میں پس رہے تھے‘سیلابی بارشوں نے ان کی رہی سہی سکت بھی ختم کردی ہے۔ سندھ کے سیاسی رہنمائوں نے ایک ماہ تک اس علاقے کا رخ ہی نہیں کیا اور جب حکمرانوں کو احتجاجی آہ و بکا نے گہری نیند سے جگایا تو یہ لوگ اپنی بڑی بڑی اورمہنگی گاڑیوں میں بیٹھے‘ناک پر رومال رکھے دور سے ان تعفن زدہ بستیوں کو دیکھنے چلے گئے۔ سوائے اخباری بیانات اور رنگیں تصویروں کے ان امراءنے کچھ نہیں کیا۔کیا ممتاز بھٹو کی دولت میں کوئی کمی آئی‘کیا جناب آصف علی زرداری نے اپنے ملکی اور غیر ملکی خزانوں سے کوئی رقم دی‘کیا غنویٰ بھٹو نے خیرات نکالی؟ نہ پیرآف پگاڑا ‘نہ مخدوم امین فہیم‘کسی وڈیرے کسی مخدوم ‘کسی جتوئی نے نہیں کہا کہ ان کی ”رعایا“ بھوک سے مر رہی ہے‘ بیماریوں سے نڈھال ہورہی ہے‘ ان کو ایک وقت کا کھانا ہی دے دیں۔ حکومت نے غیر ملکی امداد کی اپیلوں پر زور رکھا‘مخالفین نے حکومت پر تنقید کرنے کو ہی مسئلے کا حل سمجھا۔نمائشی ٹرک پہنچتے رہے‘بھوکوں کے ریوڑ ان پر ٹوٹتے رہے‘پولیس لاٹھی چارج کرتی رہی‘یہ ”پاکستانی ایتھوپین “زخمی ہو کر گرتے رہے۔آج وہاں پچکے ہوئے گالوں والے‘زرد زردآنکھوں والے ہزاروں نہیں لاکھوں بچے‘عورتیں اور بوڑھے ‘دھیرے دھیرے موت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔سندھ ایتھوپیا کی دوسری تصویر بن چکا ہے۔
پنجاب خصوصاً جنوبی پنجاب‘بلوچستان‘ صوبہ خیبرپختونخواہ‘گلگت بلتستان۔ آپ کبھی اس پاکستا ن کی سیر کو نکلیں‘شہروں سے دور‘کاروںکوٹھیوں سے ذرا فاصلے پر جا کردیکھیں قدم قدم پر ایتھوپا نظر آئے گا‘دولت ہوگی‘بلکہ دولت کے انبار ہوں گے لیکن ایتھوپین سیاستدانوں کی طرح چند گھرانوں کے مقفل خانوں میں بند ہے۔کروڑوں انسان جنہیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں وہ ایک لاکھ امراءکے رحم و کرم پرآگئے ہیں۔ امیران شہر کی ہوس کہ وہ غرباءکے منہ کا آخری نوالہ بھی چھین لینا چاہتے ہیں۔
پاکستان کو ایتھوپیا بنانے کیلئے بڑے پاپڑ بیلے گئے ہیں۔ اس زرعی ملک کو بھوک سے مارنے کے لئے مسلسل منصوبہ بندی کی گئی ہے۔پاکستان کے کم و بیش ہر دولت مند گھرانے نے دولت یہاں سے کمائی اور جب خوب کما لی تو اسے بیرون ملک اپنے بینک اکائونٹس میں جمع کرا دیا۔ سینیٹر محمد علی درانی کی ایک درخواست پر سپریم کورٹ ایک کیس کی سماعت کر رہی ہے۔اڑھائی تین سو ارب ڈالرز وہ دولت ہے جو بیرون ملک بھجوائی گئی ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان کیا کرسکتے ہیں۔دولت مندوں کی حکمرانی ہے۔اگر دولت واپس لانے کا فیصلہ صادر بھی کردیا جائے تو اس دولت کو واپس کون لائے گا۔ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں کرپشن کی دولت پڑی ہے وہ تو واپس نہیں آسکی‘”جائز“طریقے سے باہر رکھی گئی دولت واپس کیسےآئے گی۔
پاکستانیوں کے حصے کی دولت چوری چھپے گزشتہ پچاس برسوں سے باہر بھجوائی جارہی ہے اور پاکستان میں غربت پھیلتی جارہی ہے۔ملک ایتھوپیا بن گیا ہے۔جب تک یہ دولت باہر ہے‘غربت یہاں رہے گی۔کاش کہ نظام بدلے اور امراءکے بیوی بچوں کو اس وقت تک جیلوں میں ڈال دیا جائے جب تک وہ دولت واپس نہیں لاتے۔ عوام التجا ہی کرسکتے ہیں۔امیرو رحم کھائو۔میرے ملک کو ایتھوپیا نہ بنائو!!