کالم

دماغ خوری ایک بین الاقوامی مسئلہ

ساجدعبداللہ
جس طرح کسی انسان کے بیمار ہو نے پرڈاکٹر اس کے مرض کو تشخیص دیتا ہے۔اسی طرح کسی معاشرے میں اگرکوئی مرض پھوٹ پڑے تو اس مرض کی تشخیص ادیب لوگوں کا مشغلہ ہے۔ادیب لوگ اشارے کنائے ،شعرو نثر،استعارے و تشبیہ،ناول و افسانے،کالم و اداریے،فلم و ڈرامے ،فیچر ورپورٹ ،انشاء ومضمون کے ذریعے معاشرتی امراض کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں،ایسے میں بعض کلاسک ادب اور بعض علامتی ادب کا سہارا لیتے ہیں اور جو حضرات ان ساری چیزوں سے ناآشنا ہوتے ہیں وہ پہلے تو علمی و قلمی شخصیات پر نکتہ چینی کر کے قلمی دنیا میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے علمی دیوالیہ پن کی بنیاد پر جب ایسا نہیں کرپاتے تو پھر دوسروں کی تحریروں کی نقالی شروع کر دیتے ہیں۔اس طرح کے لوگ چونکہ علمی اسالیب اور فنّی اصولوں سے ناواقف ہوتے ہیں چنانچہ یہ نہ صرف نثر میں شاعری کی طرح تخیّل پردازی شروع کرتے ہیں بلکہ گلی کوچے کے موضوعات کو آفاقی اور اپنے ذاتی مشاہدات کو معاشرتی کہنے لگتے ہیں۔ان کا سارا زور بات کا بتنگڑ بنانے پر اور ان کاساراذوق دوسروں کی تحریروں کے چربے تیار کرنے میں صرف ہوتاہے۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جو معاشرے کو لاحق نہیں بلکہ اپنے آپ کو معاشرتی طبیب اور حکیم الامت کہنے والوں کو لاحق ہے ۔چنانچہ یہ مرض ناسور کی طرح اندر ہی اندراپنا کام دکھارہاہے۔آپ نے یو ں تو ایسی بہت سی اصطلاحیں سن رکھی ہونگی جن کے ساتھ "خور”کا لاحقہ لگتاہے۔جیسے سود خور،حرام خور،رشوت خو ر اور آدم خور ۔۔۔وغیرہ لیکن آج میں جس مرض کو زیر بحث لایا ہوںوہ ایک ایسامرض ہے جس کو ہم نہ جانتے ہوے بھی جانتے ہیں۔ہماری روز مرہ کی زندگی میں ہمارا میل جول چندایسے افراد سے ہوتا رہتاہے جو نہ تو رشوت خور ہوتے ہیں نہ ہی سود خور اور نہ ہی آدم خور بلکہ وہ تو سیدھے سادھے شریف آدمی ہوتے ہیں۔ممکن ہے پانچ وقت کے نمازی بھی ہوں ہوں،ہمیشہ سچ بولنے کا دعوی بھی کرتے ہوں اور معاشرہ کی اصلاح کا دم بھی بھرتے ہوں لیکن فضول اور زیادہ باتیںکرنے کی عادت میں مبتلا ہوں۔ایسے لوگ دماغ خور ی کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔دماغ خوری سے مراد فضول باتیں کر کے دوسروں کا دماغ چاٹناہے،دماغ خور ایسے کاموں میں مشورے دیتاہے جن کا اسے خود بھی کچھ پتانہیں ہوتا۔یعنی خالی خولی گفتگوکر کے اپنا اوردوسروں کا وقت اور آرام تباہ کرنے والے کو دماغ خور کہا جاتاہے۔ہم یہاں پر یہ اضافہ کرناچاہتے ہیں کہ دماغ خوری صرف باتوں سے نہیں کی جاتی بلکہ تحریر سے بھی کی جاتی ہے،غیرمعیاری اور گھسی پٹی باتوں کی طرح،غیرمعیاری اور گھسی پٹی تحریریں بھی انسانی وقت اور زندگی کے زیاں کا باعث بنتی ہیں اور دماغ خوری کاکام انجام دیتی ہیں۔بے تُکی باتوں کی طرح بودی تحریریں بھی لکھنے اور پڑھنے والے دونوں کودماغی اور وقتی لحاظ سے ضرر پہنچاتی ہیں۔عجیب بات ہے کہ ہم آدم خورکو تو درندہ کہتے ہیں لیکن دماغ خور کو کچھ نہیں کہتے۔ رشوت خوروں اور سود خوروں کے برعکس دماغ خور ہر طرح کے خوف سے آزاد ہیں انکے لیے کوئی قید اور پابندی نہیں،اس لئے دماغ خور اپنا کام انجام دینے میں دن رات مصروف ہیں۔
اگر خدانخواستہ اب کبھی آپ کا پالادماغ خور سے پڑھ جائے تو گھبرانے کی کوئی بات نہیں ،میرے مشورے پر عمل کریں تو دماغ خور کے دماغی حملے سے آپ فوراً نجات پالیں گے۔سب سے پہلے اپنے آپ کو چیک کریں کہ کہیں آپ خود بھی دماغ خور تو نہیں ہیں اورآپ ایسے کاموں کے سلسلے میں دوسروں کومشورے تو نہیں دیتے جن کا آپ کو خود بھی کچھ پتہ نہیں۔خیر اگر آپ خود دماغ خور نہیں ہیں توپھردماغ خور کی باتوں پربلکل توجہ نہ دیںاور اپنے کام میں مگن رہیں۔اپنے مطالعے کی میز کے ساتھ ہی ایک ردّی کی ٹوکری بھی رکھ لیں جس میں دل کھول کر غیرمعیاری تحریریں پھینکتے رہیں اور گر کوئی آپ سے یہ کہے کہ امریکہ ہمارا دشمن ہے اور وہ ہمیں ترقّی نہیں کرنے دیتا تو آپ اسے فوری طور پر سمجھائیں کہ ہمارے ساتھ دشمنی میں دماغ خور بھی امریکہ سے کم نہیں،دماغ خوروںکے دماغی حملے بھی امریکی ڈرون حملوں کی طرح ہماری سلامتی کے لئے سخت خطرہ ہیں،امریکہ ہماری سر زمین کادشمن ہے اور دماغ خور ہمارے دماغوں اور وقت کا دشمن ہے۔آپ خود بتائیں کہ اگرامریکہ مردہ باد ہے تو دماغ خور کیوں زندہ باد ہے،چلئے اب میں بھی اپنے قلم کو اس ڈر سے روکتاہوںکہ کہیں میرا شمار بھی دماغ خوروں میں نہ ہو جائے۔

Leave a Reply

Back to top button