تھرڈ آپشن صرف اور صرف تھرڈ آپشن
علامتی ادب
نذر حافی
[email protected]
یہ کیسی منافقت ہے؟
یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنے بچوں کو مارتے ہیں اورسانپ کے بچوں کو دودھ پلاتے ہیں؟
سانپ کے بچے۔۔۔ جی ہاں یہ کالے انگریز جو پید امشرق میں ہوتے ہیں اور نوکری مغرب کی کرتے ہیں۔
جنہیں انگریزوں کی تہذیب و ثقافت سے محبت ہے اور اپنی ملت و ملک سے نفرت۔
یہ پاکستان میں پلنے اور انگریزی میں منہ بسور بسور کر گالیاں دینےوالے
بوڑھا اسٹیشن ماسٹر گزشتہ کئی سالوں سے کرسی پر بیٹھے بیٹھے یہی سوچ رہا ہے ۔اس کا ماتحت عملہ ہمیشہ کی طرح فرمانبرداری کے ساتھ آٹومیٹک طریقے سے اپنا کام کر رہا ہے۔ لیکن اس نے کئی سالوں سے کو ئی فرمان اور کوئی حکم جاری ہی نہیں کیا۔
ٹرینیں آتی ہیں گزر جاتی ہیں،اسٹاف اپنا کام کرتا رہتا ہے۔ اسٹیشن ماسٹر صبح ۷ بجے سے لے کر شام ۵ بجے تک کرسی پر بیٹھے بیٹھے صرف سوچتا رہتا ہے۔
وہ خودکسی کا ٹیلی فون بھی نہیں سنتا،کسی سرکاری یا غیر سرکاری لیٹر کا جواب بھی نہیں دیتا۔
چائے پیتا ہے،اخبار پڑھتا ہے اور ریڈیو کی خبر یں سنتا ہے۔
ہمیشہ کی طرح آج پھر ٹرینیں آئیں رکیں اور گیئں۔اس نے ریڈیو آن کیا،خبریں سنیں اور پھر اخبار پڑھا۔
ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی رہی۔ایک ملازم آیا اس نے بات چیت کی اور پھر شام کے پانچ بج گئے وہ بغیر کسی سے خدا حافظی کئے اور ادھر اُدھر دیکھے اپنی کرسی سے اُٹھا اور گھر کی طرف چل دیا۔
چلتے چلتے سوچنے لگا
یہ کیسی منافقت ہے؟ یہ کیا ہو رہا ہے؟
یہ بنگالیوں کے بچے کس کے بچے ہیں؟
ہمیں کوئی دوسرا نہیں مار رہاہم خود ہی اپنے آپ کو مار رہے ہیں!
اپنے بچوں کو مار رہے ہیں؟
وہ یہ سوچتے سوچتے گھر میں داخل ہو گیا اور اس کی سوچ گھر کی دہلیز کے نزدیک کہیں بھٹک گئی!
اس نے گھر میں کئی مرتبہ سوچا کہ وہ آتے ہوئے کیا سوچ رہا تھا،اسے کچھ یاد نہیں آیا! وہ ان چندسالوں میں کئی مرتبہ یہ بھولا کہ وہ کیا سوچ رہا تھا۔۔۔
نماز ِمغرب کے بعد بیوی نے اس کے لیے دستر خوان بچھایا،کھانا لگایا لیکن اس نے گزشتہ دس سالوں کی طرح بغیر کوئی لفظ ادا کئے چپ چاپ دو تین لقمے کھائے ۔
لیمپ آف کر کے اندھیرے میں کر سی پر بیٹھ گیا،یوں باقی رات اس نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے گزار دی۔
ہمیشہ کی طرح آج رات بھی اس کی بھٹکی ہوئی سوچ واپس نہیں آئی اور وہ ساری رات یہ سوچتارہاکہ بنگال ،بنگلہ دیش کیسے بنا تھا؟
پاکستان بنانے والی اکثریت پاکستان سے کیوں روٹھ گئی تھی؟
روٹھ گئی تھی یا سمجھدار ہوگئی تھی؟
بچے جب سمجھدارہوجائیں تو وہ اپنا نیاگھر بنا لیتے ہیں۔
توپھر پرانے گھر میں یہ کس کے بچے قابض ہیں؟
بچے قابض ہیں!!!نہیں بچے تو قبضہ نہیں کرتے یہ کوئی قبضہ گروپ ہوگا۔
قبضہ گروپ،جیسے چھراگروپ،ہتھوڑا گروپ اسی طرح۔۔۔
کچھ دیر بعد اس نے ایک جمائی لی اور پھر۔۔۔پھر اس نے سوچا کہ یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے بنگال کی تاریخ کو پاکستان کی تاریخ سے جدا کر دیا؟
نصاب ِتعلیم میں بنگال کے لیے کوئی آنسو کیوں نہیں؟
ہماری نئی نسل بنگلہ دیش کو بھول کیوں گئی ہے؟
کیا بنگال کسی کے باپ کی جاگیرتھا جسے یوں جدا کیا گیا اور یوں بھلا دیا گیا؟
بنگال کھو گیا۔۔۔باقی کیا رہ گیا ۔۔۔
ٹائیگروں کا پاکستان! ٹائیگروں کا پاکستان!
پھر اذانِ صبح ہوئی۔
نماز صبح کے بعد وہ مصلّح پر بیٹھ کر سوچنے لگا
یہ کالے انگریز
یہ لارڈ میکانے کے گودپالے انگریز
یہ مشرق کے نام پر دھبّہ
یہ پاکستان کے نظریاتی دشمن
یہ پپَا ،ممی اور ڈیڈی کی پیداوار
یہ کیا جانیں
جہاد کیا ہے؟
صبح سا ت بجے گھر سے نکلا تو راستے میں اس کی کھوئی ہوئی یاد نے اُسے گلے لگا لیا،اسکی بھٹکی ہوئی سوچ پھر اسے مل گئی اور سوچنے لگا۔۔۔
یہ بچے جنہیں بنگال میں مارا گیایا جنہیں وزیرستان میں مارا جا رہاہے یا جنہیں جہاد کے نام پر ٹریننگ دی گئی یا جن سے خود کش حملے کروائے جاتے ہیں۔۔۔
یہ بچے کس کے ہیں۔۔۔
یہ کالے انگریز یہ پاکستان میں پلنے اور انگریزی میں گالیاں دینےوالے ان بچوں کی قدروقیمت کیا جانیں۔۔۔ یہ لارڈ میکالے کے ٹٹو
انہیں کیا پتہ کسی دیہات کی غریب ماں اپنے بچوں کی لاشوں پر یہ بین کیسےکرتی تھی کہ
لےکے رہیں گے پاکستان بن کے رہے گا پاکستان
آج اسی ماں کے بچے اسی پاکستان میں لارڈمیکالے کے میرٹ پر پورا نہ اُترنے کے باعث سی ایس ایس کے امتحان میں رہ جاتے ہیں۔
وہ یہ سوچتے سوچتے اسٹیشن پر پہنچ کیا۔
اس نے اپنی کرسی کے سامنے دیوار پر آج بھی پاکستان کا نقشہ ،پورے پاکستان کا نقشہ لگایا ہوا ہے،جسے کچھ دیر غور سے دیکھتا ہے۔پھر ساتھ ہی لگی ہوئی قائداعظم کی تصویر کو دیکھتا ہےاور پھر پورا دن اسی تصویر اور نقشے کے سامنے بیٹھ کر گزار دیتا ہے۔
اس کے سامنے گزشتہ کئی سالوں کے اخبارات پڑھے ہوئے ہیں۔
جن پر نگاہ ڈالتے ہی اس کے دل و دماغ میں دردناک خبریں رینگنے لگتی ہیں۔
اس نے ۱۹۷۱میں یہ سوچا تھاکہ ریڈیو ،ٹیلی ویژن اور اخبارات پر پابندی لگ جانی چاہیے۔۔۔
تاکہ لوگوں تک کوئی بری خبر نہ پہنچے۔
پھر اس نے سوچا کہ کیا خبریں بند کرنے سے ظلم بند ہو جائیگا۔۔۔
اسے کوئی جواب نہیں ملا ۔۔۔وہ آج بھی اپنے آپ میں اس سوال کاجواب ڈھونڈتارہتاہے۔
دن کے دس بجے ملازم نے چائے لائی تو اس کے قدموں کی آہٹ سے اسٹیشن ماسٹر کی سوچ بدک کر تھوڑی دیر کے لیے کہیں گم ہو گئی۔
اس نے کافی دیر تک اپنی یادداشت کو ٹٹولالیکن کچھ یاد نہیں آیا کہ وہ کیا سوچ رہا تھا۔۔۔چنانچہ اس نے خودکلامی شروع کر دی ۔۔۔
اللہ کے نام پر بابا۔۔۔خدا تیرا بھلا کرے۔۔۔اللہ تجھے خوش رکھے۔۔۔
یہ اللہ کا نام لینے والے کہاں سے آئے؟یہ نئے بہروپیے! یہ نئےتوحید پرست !جو اپنے سوا سب کا خون بہانا جائز سمجھتے ہیں ،یہ قائد اعظم کو کا فرِاعظم کہنے والے!یہ پاکستان کو کافرستان کہنے والے !آج کس طرح پاکستان پر قابض ہو گئے ہیں۔۔۔!؟
کیا ان کے باپ کا پاکستان ہے کہ یہ جسے چا ہیں قتل کر دیں،جسے چاہیں زندہ چھوڑ دیں یہ دین کے ٹھیکیدار!یہ بری امامؒ اور عبداللہ شاہ غازی ؒسمیت ہر ولی خدا کے دشمن۔۔۔
اتنے میں کہیں سے شہد کی مکھی بھنبھناتی ہوئی آئی اور قائداعظم کی تصویر پر بیٹھ گئی۔۔۔
وہ کا فی دیر تک اس مکھی کو دیکھتا رہا۔۔۔
ابھی تک جو کچھ ہو رہا تھاسب معمول کے مطابق تھا۔وہ مقررہ وقت پر مقررہ بات ہی سوچتا تھا اور مقررہ وقت پر ہی اس کی سوچ بھٹک جاتی تھی لیکن آج خلافِ معمول شہد کی مکھی اس کی سوچ پرآکر بیٹھ گئی اور اس کے دماغ میں بھنبھنانے لگی۔
وہ مکھی کے آنے پر بہت سٹپٹایا کہ یہ جلد از جلد دفع ہو جائے اور وہ اپنی سوچ کو وہیں سے جاری رکھے جہاں پر اس کی سوچ کا دھاگہ ٹوٹا تھا۔۔۔
اس نے انتظار کیا،انتظار کیا،انتظار کیا۔۔۔
لیکن مکھی نہیں اُڑی۔
بالاخر وہ خلافِ معمول زور سے چیخا،اس نے اپنا مُکّا فضا میں لہرا کر مکھی پر زور دار حملہ کیا۔۔۔
مکّاتصویر پر لگا اورشیشے کا فریم ٹوٹ گیا،مکھی اُڑ گئی اور اس کا ہاتھ زخمی ہو گیا اور قائدِ اعظم کی تصویر پر اس کے ہاتھ سے نکلے ہوئے خون کے چند قطرے دمکنے لگے۔
اس نے اپنے ہاتھ کو سہلاتے ہوئے مڑ کر دیکھا تو پورا سٹاف ایک صف میں کھڑا مسکرا رہا تھا،سب خوش تھے کہ اسٹیشن ماسٹر صاحب کا سکتہ ٹوٹ گیا۔
اس نے سالو ں کے بعد آج ایک فرمان جاری کیااور وہ یہی تھا کہ سب لوگ کمرے سے باہر چلے جائیں اور مجھے پہلے کی طرح تنہا چھوڑ دیں۔
اگلے روز یہ خبر اخباروں میں شہ سرخی کے ساتھ چھپی کہ اسٹیشن ماسٹر کا سکتہ ٹوٹ گیاہے اور اس سے اگلے روز اسٹیشن ماسٹر کو جبری ریٹائر منٹ کی چٹھی مل گئی۔
اسے اپنی برطرفی کی سمجھ نہیں آرہی تھی۔۔۔
وہ برطرف کیوں ہوا۔۔۔
کئی سال خاموش رہنے کی بناء پر یا سالوں کے بعد ایک حکم جاری کرنے کی بناء پر بہر حال اب وہ یہ سوچنے لگاکہ اسے ریٹائرمنٹ کے بعد کیا کرنا چاہیے۔۔۔
وہ اپنے آپ سے زیر لب باتیں کرتا رہتا ۔۔۔
اس نے سوچا کہ مجھے مسجد بنوانی چاہیے۔۔۔لیکن مسجد تو ہے۔۔۔
اچھا پھر مُلک بنانا چاہیے یہ بھی ثواب کا کام ہے لیکن وہ تو قائد اعظم نے بنا دیا۔۔۔
اچھا پھر مُلک توڑنا چاہیے ممکن ہے یہ بھی ثواب کا کام ہو لیکن۔۔۔ وہ بھی توڑا جا چکا ہے!اچھا پھر کیا کیا جائے؟
اچھا تو پھر غریبوں کے بچوں کو تعلیم دلوانی چاہیے۔لیکن کون سی تعلیم۔لارڈمیکالے والی ۔نہیں،نہیں۔۔۔دینی تعلیم ،خالص دینی تعلیم۔۔۔
بس یہی کچھ سوچتے سوچتے ایک دن وہ چند بچوں کو لے کر مسجد کے مولوی صاحب کے پا س چلا گیا۔۔۔
مولوی صاحب میں اِن بچوں کو بڑا آدمی بنانا چاہتا ہوں۔۔۔
ماشا اللہ:بہت اچھا ارادہ ہے۔۔۔
مولوی صاحب انہیں قرآن پڑھائیں تاکہ یہ بڑے آدمی بن جائیں۔۔۔
جی جی انشااللہ۔۔۔
مولوی صاحب انہیں ایسا آدمی بنائیں کہ ان کا خون خاک کا رزق نہ بنے ۔
اِن کا خون بھی اخباروں میں چمکے،اِن کے قتل کو بھی عدالتی قتل کہا جائے،ان کے نام کے بھی اشتہار چھپیں،ان کے بیانات کو بھی میڈیا کوریج دے،ان کے بچے بھی سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوں،ان کے گھوڑے بھی مربے کھائیں،ان کے محلات بھی سوئزرلینڈ ،میں ہوں،ان کی گرفتاریوں پر بھی جلوس نکلیں،یہ بھی منرل واٹر سے غسل کریں۔
ہیں ، ہیں ۔۔۔یہ آپ نے کیا کہا ۔۔۔میں تو انہیں بس اتنا پڑھا سکتا ہوں کہ یہ تراویح پڑھا لیں،جنازہ اور نکاح پڑھا لیں،نماز پنجگانہ پڑھا لیں اور اس طرح اپنا پیٹ بھر لیں۔۔۔
نہیں ،نہیں مولوی صاحب ،پیٹ سے آگے کی سوچیں۔۔۔
جی نہیں میں سوچنے میں بھی سلفِ صالحین کی تقلید کرتا ہوں۔
صرف اور صرف پیٹ کی سوچتا ہوں۔اگر ڈالر سے میرا پیٹ بھر جائے تو میں جہاد کا اعلان کر دیتا ہوں اور اگر ریّال سے میرا پیٹ بھر جائے تو میں کفر کا فتویٰ جاری کر دیتا ہوں۔۔۔
نہیں مولوی صاحب !جو علم دین کے نام پر شروع ہو۔فتوےمیں ڈھل کر پیٹ بھرے اور پیٹ پر آکر ختم ہو جائے اس علم میں اور لارڈ میکالے کے علم میں کیا فرق ہے؟
دونوں ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ایک دنیا کے نام پر فراڈ اور دوسرا دین کے نام پر سفید جھوٹ۔۔۔
دونوں کی سوچیں بادلوں کی طرح ٹکرائیں اور دونوں بجلی کی طرح کڑکے۔ اسٹیشن ماسٹرنے بچوں کو اپنی سوچ میں لپیٹ کر واپس لانا چاہا۔
لیکن وہ واپس کہاں لے جاتا ۔۔۔اس نے یو ٹرن لیا اور اب اس عظیم پاکستان میں اس کے پاس تیسرا کوئی آپشن ہی نہیں تھا ،بچوں کو یا تو کالے انگریز بناویا سلف صالحین کے مقلّد۔۔۔اس نے سوچا بہت سوچا۔۔۔جب اسے کچھ سمجھ نہیں آیا تو اس نے اپنے آپ سے الٹی سیدھی باتیں کرنی شروع کردیں۔۔۔
یہ کیسی منافقت ہے؟
یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنے بچوں کو مارتے ہیں اورسانپ کے بچوں کو دودھ پلاتے ہیں؟
سانپ کے بھی بچے ہوتے ہیں؟
جی ہاں ہوتے ہیں!
سانپ اپنے بچوں سے محبت کرتاہے؟
جی ہاں کرتاہے!
اچھاپھر تو یہ سانپوں سے بھی بدترہیں!!!
سانپوں سے بھی بد تر کوئی مخلوق ہو سکتی ہے؟
جی ہاں!
یہ انتہاپسند۔۔۔!یہ کالے انگریز اور یہ سفید جھوٹ کے علمبردار!
یہی کچھ کرتے کرتے وہ بچوں کے ساتھ واپس اپنے گھر پہنچ گیا۔دہلیزکے نزدیک ہمیشہ کی طرح آج پھر اس کی سوچ کہیں کھو گئی اور وہ بھول گیاکہ وہ بچوں کو کہاں لے گیاتھا اور یہ بچے کون ہیں۔
بالاخر گستاخ بچوں نے خود ہی اس کی سوچ کو ٹھکانے پر لگاناشروع کردیا۔۔۔وہ چیخ چیخ کر اس سے پوچھ رہے تھے ۔۔۔ہم کیاکریں؟ہم کہاں جائیں؟
وہ ایک مرتبہ پھر جوش میں آیا،اس نے فضا میں مکّا لہرایا اور گرجدار آواز میں بولا!
اے دو انتہاوں کے درمیان روندےہوئے میرے بچو!اے کالے انگریزوں اور سفید جھوٹ میں پسے ہوئے میرے بچو! تھرڈ آپشن پر غور کرو۔۔۔تھرڈ آپشن پر ۔۔۔ صرف تھرڈ آپشن پر۔۔۔
ایسا تھرڈ آپشن جو تمہیں کالے انگریزسے بھی اور سفید جھوٹ سے بھی نجات دلائے۔
اوروہ تھرڈ آپشن ” خمینیؒ "ہے
صرف "خمینیؒ”