کالم

وقت۔۔۔۔۔۔۔۔وقت

حمیرا نقوی
یہ عجیب شور مچا ہوا ہے وقت کا۔۔۔۔۔۔۔وقت نہیں ہے میرے پاس۔۔۔۔،وقت کی کمی کے باعث ملاقات نہ ہوسکی۔۔۔،وقت پر بارات نہ آئی۔۔۔۔،وقت پر دفتر نہ پہنچ سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
یہ وقت ہے کیا آخر؟کوئی چیز ہے تو زمین و آسمان کے درمیان کہیں تو مل جاتی،وہ ہم کو کیوں نہیں ملتا،یا ہم اس کو کیوں نہیں مل پاتے۔گزشتہ چند برسوں میں وقت کی clockبازگشت اس قدر سنائ ی دی جا رہی ہے کہ اس نے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آخر وقت کیا ہے؟کیا دیوار پر لگی گھڑیوں کی سوئیوں میں پھنسا ہوا ہے یا کلائیوں میں سجی گھڑیوں میں رہتا ہے؟
پہلے وقتوں میں وقت کی بازگشت اس قدر سنائی دی گئ جتنی جدید دور میں سنائی دی جا رہی ہے۔گھڑیاں تو جدید دور کی ایجاد مانی جاتی ہیں تو پرانے وقتوں میں لوگ کیا کرتے تھے،، ان کے پاس گھڑی جیسی ایجاد بھی نہ تھی۔لیکن وہ لوگ وقت ک معاملے میں بہت امیر تھے۔اپنے لیے بھی وقت تھا،دوسروں کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کے لیے بھی وقت تھا۔وہ اس طرح وقت کے محتاج نہ تھے،جیسے ہم آج ہیں۔جبکہ آج کے دور کے انسان کے لئے سہولیات کی بھا مار ہے لیکن یس کے باوجود وقت کی تلاش میں سرکرداں ہے۔
سوال یہ ہے کہ آج ہم اتنے محتاج کیوں ہو گئے وقت کے لیے؟؟؟
بزرگ افراد سے لے کر معصوم بچوں تک کوئی یہی رونا رو رہا ہے۔وقت کا استعمال،ہر زمانے میں بیان ہوا۔لیکن اس کے باوجود وقت نہیں مل پا رہا۔ہر چھوٹا بڑا وقت کے ہاتھوں پریشان ہے۔کیا ہم کیساتھ کچھ غلط کر رہے ہیں یا وقت ہمارے ساتھ اٹھکیلیاں کھیل رہا ہے؟وقت کو لے کر ہر زمانے میں بڑے سوالات کھڑے ہوئے اور ہو رہے ہیں۔بڑے بڑے دانشوروں نے اپنے اپنے انداز میں وقت کے متعلق بات کی ہے لیکن مسئلہ پھر بھی وہیں موجود ہے۔وقت اب بھی کسی کے پاس نہیں ہے۔اگر پوچھو تو دلچسپ جوابات ملتے ہیں۔
اس صورتحال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے،کیا مزید طریقوں کا استعمال کر کے وقت کو قابو کرنا چاہیے یا وقت کے دھارے پر چلنا سیکھنا چاہیے۔اگر ہمارے بزرگ وقت کو اپنا غلام نہیں بنا سکے تو ہمارے قابو میں کس طرح آئے گا۔بہتر طریقہ تو یہ ہو گا کہ ہم اس پر توجہ دیں کہ ہمارے معمولات زندگی کیا ہیں؟؟
کسی طالب علم کے پاس یہ سوال لے کر جاو تو اس کا جواب کیا ہو گا؟؟ صبح سکول/کالج کے لیے نکلا پھر ٹیوشن پہنچا۔۔وہاں سے شام کو واپسی ہوئی۔پھر سیل فون پر دوستوں سے بات کی۔۔کپیوٹر استعمال کیا۔۔درمیان میں کھانا بھی کھایا۔۔گھر والوں کیساتھ ٹی وی بھی دیکھا۔۔۔پھر رات میں تھک کر سو گیا۔
جب نوکری پیشہ افراد سے پوچھا گیا تو جناب صبح صبح دفتر جاتا ہوں،شام میں دفتر کے بعد کہیں آنے جانے کی ہمت نہیں رہتی یس لیے بستر میں گھس کر ٹی وی دیکھا اور آرام کیا۔
خواتین سے دریافت کیا گیا تو بس جی! گھر کے کاموں اور بچوں میں ہی وقت گزر جاتا ہے۔
یوں ہر شخص اپنی ایک کہانی بیان کرے گا اور وقت کی کمی کے جواز دے گا۔دیکھا جاے تو یہ سب افراد اپنی اپنی جگہ صیحح بھی ہوں گے۔یہ غوروفکر وقت کے معاملے کو مزیدد الجھاتا چلا جاتا ہے۔۔
لیکن یہاں ہم سے یہ غلطی ہو گی کہ ہم نے فطرت کو یکسر فراموش کر دیا۔بحیشیت مسلمان، قدرت کے سب شاہکار،چرند پرند ہم کو وقت کے استعمال کا خوبصورت درس دیتے ہیں۔اللہ تعالی نے نمازوں کی صورت میں وقت کی پابندی سکھای ہے،لیکن ہم ان پر توجہ دینے ک بجائے ان کو مسلسل نظرانداز کیے جا رہے ہیں۔سورج کی پہلی کرن ساری کاینات کو بیدار کرتی ہے اور ڈوبتا سورج دن کے اختتام کا اعلان کرتا ہوا چلا جاتا ہے۔
ہم نے کیا کیا؟سورج کے طلوع و غروب کو یکسر نظرانداز کر دیا۔اور جاگتی راتیں ،سوتے دن اپنا معمول بنا لیا۔جس کی بدولت ہم کہاں سے کہاں پنہچ گے۔وہ وقت جس کو ہماری ضرورت ہونی چاہیے تھی،آج ہم اسی کی تلاش میں دربدر بھٹک رہے ہیں
ہمارے پاس اپنے عزیز و اقارب کیلے وقت نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔حد تو یہ ہے کہ ہمارے پاس اپنے لیے وقت نہیں بچا۔ہم نے نمازیں پڑھنی تو سیکھ لیں مگر ان سے ملتا سبق ہم سے کہیں بہت پیچھے چھوٹ گیا۔وقت پر گرفت کیلے مختلف طریقے دریافت کر لیے مگر قرآن پاک سے ملنے والی رہنمای کو یکسر فراموش کر دیا۔
دور حاضر میں بجلی بچانے کیلے جو گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کر کے توانائی بچای جا رہی ہے،اگر اس کے لیے ہم صرف کائناتی گھڑیال کا استعمال کریں تو گھڑیوں کے محتاج ہی نہ رہیں۔نماز فجر اور قرآن پاک کی تلاوت سے دن کا آغاز کریں اور نماز ظہر تک دن بھر کی مصروفیات سے فارغ ہو کر واپس آیں۔دن کا کھانا،نماز کے بعد قیلولہ کر کے نماز عصر کی ادایگی کریں۔پھر بچے اپنے اپنے سکول کے کام نمٹاے اور باقی افراد دن کی روشنی میں باقی کاموں کو سمیٹ لیں۔نماز مغرب کے بعد رات کا کھانا کھایں اور ایک دوسرے کو وقت دیں،اپنے اپنے دن کی روداد سنایں۔عشا کی نماز میں اللہ تعالی کا شکر ادا کر تے ہوے اپنے دن کا اختتام کریں۔
یہ سادہ سا لیکن مکمل ٹایم ٹیبل ہم کو ہمارے پیارے نبی نے کتنے برس پہلے مہیا کر دیا تھا مگر ہماری بے توجہی کے سبب آج ہم وقت کے غلام بن گے ہیں۔ہم نے وقت کو نظرانداز کر دیا جس کے نتیجے میں وقت نے ہم کو بھلا دیا۔
اس سے پہلے کہ اور وق

Back to top button