کالم

صرف ایک سوال؟

نذر حافی
آپ اپنی دونوں آنکھیں کھلی رکھیں اور ایک ہی وقت میں ایک آنکھ سے تصویر کا پہلا رخ اور دوسری آنکھ سے تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کی کوششش کریں ۔تصویر کاپہلا رخ یہ ہے کہ ہمیشہ وقفے کی گھنٹی بجتے ہی ایک سکول کے سارے استاداکٹھے ہوکر پرنسپل صاحب کے خلاف اس طرح کی چہ میگوئیاں شروع کر دیتے ہیں۔
الف۔یار کوئی تو اس ظالم سے بات کرئے،اس نے اب کی بار بھی میری تنخواہ سے ۵۰۰ روپے کاٹ لیئے ہیں۔
ب۔اوہو!یہ تو پکا منافق ہے،اسے کون منھ لگائے،میں تو اسے سلام بھی نہیں کرتا۔
ج۔چھوڑو یار!یہ تو پچاس ہزار ماہانہ آن دی ریکارڈ بٹورتا ہے اور ہماری کٹوتی پر کٹوتی کرتا چلا جاتا ہے۔
د۔تم کیوں اس سے حسد کرتے ہو،اس کا اپنا سکول ہے،آن دی ریکارڈ لے یا آف دی ریکارڈ۔
ر۔بات حسد کی نہیں ہے۔خود سوچنا چاہیے کہ آج کے دور میں تین ہزار روپے کی تنخواہ سے کیا بنتا ہےاور وہ اس میں سے بھی حیلے بہانوں کے ساتھ کٹوتیاں کرتا ہے۔
س۔گزشتہ مہینے میں نے تنخواہ کٹنے پر اعتراض کیا تو بولا کہ جہاں زیادہ ملتی ہے وہاں چلے جاو۔
یہ تو تھا تصویر کاپہلا رُخ اب تصویر کا دوسرا رُخ ملاحظہ فرمائیں۔
دوسری طرف پرنسپل صاحب انتہائی نیک ،مخلص ،بااخلاق اور ملنسار انسان ہیں۔ہمیشہ صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں،اول وقت میں صبح سکول آتے ہیں،نورانی داڑھی اور سر پر سفید ٹوپی ان کی شناحت ہے۔عمر یہی کوئی ۴۰ یا ۴۵ سال کے لگ بھگ ہو گی۔
جب بھی بات کرتے ہیں ،اللہ کی بات بھی کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہمیشہ اللہ کے لیے کام کرو ،صرف اور صرف اللہ کے لیے ہی کام کرو،ہر وقت کام کرو ،ڈٹ کر کام کرو،لوگوں میں انقلاب لاو،صرف اور صرف اسلامی انقلاب۔۔۔اور ہاں یاد آیا کہ وہ اللہ سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ اللہ کو خدا بھی نہیں کہنے دیتے۔کہتے ہیں کہ اللہ کو صرف اور صرف اللہ کے نام سے پکارو ورنہ شرک ہو جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ وہ لوگوں میں” اللہ والے” حاجی صاحب کے نام سے مشہور ہیں۔
البتہ ہر ادارے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو نہ تصویر کاپہلا رخ ہوتے ہیں اور نہ دوسرا ۔یہ بیکار پر بیگار کو ترجیح دیتے ہیں۔ہروقت کام کرتے رہتے ہیں لیکن انہیں کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ یہ کس کے لیے کام کر رہے ہیں۔اللہ کے لیے یا اپنے پیٹ کے لیے۔اِس طرح کے کچھ حضرات اس سکول میں بھی موجود ہیں جو تصویر کا تیسرا رُخ ہیں۔نہ تو اللہ کے لیے کام کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے پیٹ کے لیے ۔کچھ پتہ نہیں چلتا کہ یہ کس کےلیے کام کر رہے ہیں۔اگر پیسوں کے لیے کام کر رہے ہیں تو اتنےتھوڑےپیسوں سے تو کسی کا پیٹ نہیں بھرتا اور اگر یہ اللہ کے لیے کام کر رہے ہیں تو پھر صرف حاجی صاحب کے سکول میں ہی کیوں کرتے ہیں۔
یہ ہمیشہ استادوں کو تسلی دیتے ہیں کہ گھبراو نہیں۔ہم آج ہی حاجی صاحب سے آپ کی تنخواہ میں اضافے کی بات کریں گےاور جب حاجی صاحب کے پاس جاتے ہیں تووہاں اللہ اللہ کرنے لگتے ہیں۔
خدا کی کرنی دیکھیے حاجی صاحب نے انہی میں سے ایک استاد کو اپنے کمرے میں بلایا اور یوم والدین کی تقریب منعقد کرانے کا مژدہ سنایا۔استاد نے موقعے کو غنیمت جانتے ہوئےایک مرتبہ پھر اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافے کی بات چھیڑی۔
پرنسپل صاحب نے کہابرخوردار!ان لوگوں سے کہو کہ اللہ کے لیے کام کرنا سیکھیں،پیسوں کے لیے نہیں۔۔۔اور ابھی انہیں زیادہ پیسوں کی ضرورت ہی کیا ہے۔۔۔
نہ ان کی شادیاں ہوئی ہیں اور نہ ان کے بچے ہیں۔۔۔
پرنسپل صاحب کےدفترکی دیوار میں ایک کھڑکی تھی اور کھڑکی کے ساتھ کسی کے کان لگے ہوئے تھے۔یہ بات راتوں رات ،جنگل میں آگ کی مانند ہر طرف پھیل گئی۔
سب لوگوں کی زبان پر ایک ہی بات تھی کہ ان استادوں کو آخر زیادہ پیسوں کی کیا ضرورت ہے،نہ ان کی شادیاں ہوئی ہیں،نہ ان کے بچے ہیں اور ویسے بھی کام تو اللہ کے لیے کرنا چاہیے۔۔۔
کچھ دنوں بعد یومِ والدین کی تقریب منعقد ہوئی،سٹیج پر معزز شخصیات جلوہ افروز ہو ئیں،چوپال مہمانوں سے کچھاکھچ بھرگیا۔سٹیج سیکر ٹری صاحب نے جلسے کی کاروائی کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے کرایا،مہمانوں نے تقریریں کیں،بچوں نے تالیاں بجائیں،پرنسپل صاحب نے اپنی سالانہ کارکردگی پیش کی اور استادوں کی شکایات کا وہی جواب دیا جو وہ اکثر موقعوں پر دیتے تھے،مہمان خصوصی نے بھی تقریر کی اوریوں یہ جلسہ ختم ہونے کو ہی تھا کہ تصویر کے ایک ایسا استاد بغیر اجازت کے سٹیج پر چڑھ گیا جس کاتعلق تصویر کے کسی بھی رخ سے نہیں تھا اس نے سامعین سے یوں خطاب کیا۔۔۔
سامعین گرامی!میرا آپ سے ایک سوال ہے صرف ایک سوال؟
سب نے سوچا کوئی کوئزمقابلہ ہونے والا ہے۔۔۔سب نے باآواز بلند کہاپوچھیے ضرور پوچھیے۔۔۔
استاد نے اپنا گلا کھنکار ا اور کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ اِن استادوں کی شادیاں نہیں ہوئیں اور ان کے ابھی بچے نہیں ہیں لیکن ذرا یہ تو سوچیئے کہ کیا اتنے کم پیسوں میں یہ شادیاں کر کے اپنے گھر آباد کر سکتے ہیں۔۔۔کیا اِن کے ماں باپ اور بہن بھائی نہیں ہیں،کیا جس کی شادی نہ ہو اور بچے نہ ہوں اس کی تنخواہ میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔۔۔کیا اللہ کے لیے کام صرف استادوں کو کرنا چاہیے،پرنسپل کو نہیں۔۔۔
یہ استاد جو سات بجے سکول پہنچتے ہیں ،اڑھائی بجے تک ہلکان ہو جاتے ہیں،چھٹی کے وقت بچوں کی کاپیاں چیک کرنے گھر لے جاتے ہیں،رات گئے تک اگلے روز کے درسوں کی تیاری کرتے ہیں یہ تو تین ،ساڑھے تین اور چار ہزار روپے لیں اور۔۔۔
سامعین گرمی آپ خود بتائیں!
باہر سے جو تعلیمی مدد آتی ہے کہاں جاتی ہے اور اندر سے جو اتنا پیسہ ملتا ہے کہاں خرچ ہو رہا ہے۔
یہ کونسا اسلامی انقلاب ہے جس میں اللہ کو خدا کہوتو شرک ہے اور اللہ کے بندوں کی جیبیں کاٹو تو شرک نہیں۔۔۔
ابھی تقریر جاری تھی کہ کچھ لوگوں نے اُٹھ کر شور شرابا شروع کر دیا،کچھ نے تالیاں بجائیں،سٹیج سیکرٹری نے استاد کو کھینچ کر سٹیج سے نیچے اتار ا اوریوں ہمارے سمیت بہت سارے لوگوں کو کچھ پتہ نہیں چلا کہ اس استادنے یہ کام کس کےلیے کیاہے۔۔۔اللہ کے لیے یا پیٹ کے لیے ۔۔۔البتہ پرنسپل” اللہ والے” حاجی صاحب کا کہنا ہے کہ اس نے یہ کام صرف اور صرف پیٹ کے لیے کیا ہے۔۔۔ہمارا بھی آپ سے ایک سوال ہے صرف ایک سوال؟ کچھ فیصلہ آپ بھی تو کریں کہ اس نے یہ کام کیوں کیاہے؟

Leave a Reply

Back to top button