اسلام آباد

سینیٹر ز و حمیداللہ جان آفریدی نے بائلی علاقے کو صوبے میں ضم کرنے کی قرار داد کو رد کردیا

اسلام آباد: سینٹ و قومی اسمبلی میں فاٹا جوائنٹ پارلیمانی گروپ کے سربراہ خیبر ایجنسی فاٹا سے رکن قومی اسمبلی و سابق وفاقی وزیر ماحولیات حمید اللہ جان آفریدی اور گروپ میں شامل سینٹرزو اراکین قومی اسمبلی نے خیبرپختونخواہ کی صوبائی اسمبلی کی طرف سے قبائلی علاقے کو صوبے میں ضم کرنے کی قرار داد کو رد کرتے ہوئے اس قرارداد کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ قبائلی عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے ، صوبائی اسمبلی کو اس بات کا کوئی حق اور اختیار حاصل نہیں کہ وہ قبائیلیوں کی منشاء کے بغیر ان کے بارے میں کسی قسم کی کوئی قرار د اد منظور یا مسترد کرے۔ انہوں نے فاٹا جوائنٹ پارلیمانی گروپ کے سینیٹرزحاجی خان آفریدی، ہلال الرحمن، انجینئر ملک رشید احمداراکین قومی اسمبلی ظفر بیگ بھٹنی،بلال رحمن اور محمد کامران خان کے ہمراہ میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت ہزارہ صوبے کے قیام، کالا باغ ڈیم کی تعمیر ، بنوں جیل توڑنے اور اپنی حکومت کی گذشتہ چار برسوں سے جاری کرپشن کے خلاف ، دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متاثرہ دربدر پھرنے والے قبائلیوں کی بحالی ،قبائلیوں کوورسک ڈیم منصوبے کی رائلٹی کے حقوق دلانے کی قرار دادیں منظور کرے۔حمید اللہ جان آفریدی نے کہاکہ خیبرپختونخواہ کی حکومت نے اپنے دور اقتدار میں کوئی ایسا کا م نہیں کیا جس پر پختون قوم فخر کر سکے ۔ انہوں نے قبائیلی علاقے کو صوبے میں شامل کئے جانے کی تحریک کی حمایت کرنے والی د یگر سیاسی جماعتوں کے رویئے پر بھی کڑی تنقید کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کا کردار پر بھی تعجب کا اظہار کیا اور کہاکہ ایک طرف پیپلز پارٹی کے دور میں ایف سی آر میں ترامیم کا تحفہ دے کر حکو مت نے قبائیلوں کا دیرینہ مطالبہ پورا کیاگیا اور دوسری طرف قبائیلوں کو صوبہ میں ضم کرنے کی قرار داد کی حمایت کی گئی جوکہ کھلا تضاد ہے ۔انہوں نے کہاکہ قبائلیوں کو معلوم ہے کہ ان کے خون کے سودے کس نے کیا ان پر جو ظلم و تشدد اور آپریشن جاری ہے اس کے خلاف اے این پی نے کبھی ایک لفظ نہیں کیا بلکہ الٹا اس کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ صوبائی اسمبلی کا ریکارڈ گواہ ہے کہ آج جو فاٹا کو صوبے میں شامل کرنے کے در پے ہیں انہوں نے ماضی میں یہ ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم بدبودار قبائلیوں کو اپنے ساتھ نہیں بیٹھنے دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ صوبے میں اے این پی کے ووٹوں کا تناسب صرف 4 فیصد ہے اور ایک معدوم سی اقلیت کیسے اکثریت کے مستقبل کا فیصلہ کرسکتی ہے۔ لوگوں نے پہلے بھی اقلیتی ٹولے کے فیصلوں کو رد کیا ہے اور آئندہ بھی اس قسم کے فیصلوں کو کسی خاطر میں نہیں لائیں گے۔ حمید اللہ جان آفریدی نے کہاکہ عوامی نیشنل پارٹی اب قبائیلیوں کومزید بے وقوف نہیں بنا سکتی اور نہ ہی ان کی اس قسم کی قرارد اد سے کوئی فرق پڑے گا۔ انہوں نے کہاکہ فاٹا کے ایک کروڑ قبائیل اپنا تشخص قائم رکھیں گے اور فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کی مطالبے سے ہرگز پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انہوں نے کہاکہ قبائیلی عوام اپنے علاقے کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ باہمی مشاورت اور قبائل کی مشاورت سے کریں گے اور کسی اور اس بات کا ہرگز اختیار نہیں دیں گے کہ وہ ان کی مرضی کے بغیر اپنا کوئی بھی فیصلہ ان پر مسلط کرے۔حمید اللہ جان آفریدی نے کہاکہ صوبائی اسمبلی میں قبائلی علاقے کو صوبے میں ضم کرنے کی قراردا د منظور کرنے سے تمام قبائیل میں شدید اضطراب اور بے چینی پھیل گئی ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت صوبے کے عوام کو آپس میں دست و گریبان کرنے کے لئے اس قسم کے حربے اور ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں جن کی جس قدر بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ فاٹا جوائنٹ پارلیمانی گروپ کے ممبران نے کہا جو لوگ فاٹا کو صوبے کا حصہ بنانے کا سوچ رہے ہیں وہ جنوبی صوبہ پختونخواہ اور مالا کنڈ کوصوبہ بنانے کی قراردادیں بھی منظور کریں جس کا دیر اور مالا کنڈ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی کھلے عام مطالبہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے صوبے سے ملحقہ علاقوں میں کوئی ترقیاتی کام نہیں کئے جسے وہ صوبے کا حصہ بنانے کی قراردادیں منظور کر رہے ہیں ۔

Leave a Reply

Back to top button