بیٹی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نذر حافی
"قُّلہ کوہ”پر ایک شخص کے ہاتھوں میں دو چراغ جل رہیں ہیں اور بہت سارے لوگ ان چراغوں کو گل کرنے کے لیے "اجماع” کئے بیٹھے ہیں۔انہیں خطرہ ہے کہ اگر رات کی تاریکی میں یہ دو چراغ جل اُٹھے تو اندھیرے کی عادی ان کی آنکھیں چندھیا جائیں گی اور اندھیرے میں چھپے ہوئے ان کےکرتوت عیاں ہو جائیں گے۔
مختلف ٹولیوں میں بٹے ہوئے ان لوگوں نے ایک بلند و بالا پہاڑ کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ان میں سے کسی کے ہاتھ میں تلوار ہے ،کسی کے پاس نیزہ ہے،کسی نے پتھر اُٹھایا ہوا ہے اور کوئی دشنام طرازی میں مصروف ہے۔
انہوں نے ان چراغوں کو گل کرنے کا حلف اُٹھایا اور مشعل بردار کو تہہ تیغ کرنے کی قسم کھائی۔گویا اکثریت نے اقلیت کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔مشعل بردار اور اس کے مٹھی بر حامیوں نے اپنے ارد گرد غصے سے ہانپتے ہوئےانسان نماجانوروں کو روشنی اور نور کے ان گنت فوائد بتائےلیکن وہ تہذیب و تمدن سے عاری مخلوق کسی کی بات کہاں سمجھتی تھی،وہ جو صحراوں میں اونٹوں کی مہار کھینچتے کھینچتے اپنی زندگیاں گزار دیتے تھے،جن کے پیٹ شراب اور مردار سے بھرتے تھے،جو کسی جوہڑ کے گندے پانی پر صدیوں تک لڑتے رہتے تھے،جب ان کے درمیان تلوار کھنچ جاتی تھی تو آن واحد میں کشتوں کے پشتے لگا دیتے تھے،جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی ولادت کی خبر دی جاتی تھی تو اس کے چہرے کا رنگ سیاہ پڑ جاتا تھا،ان میں سے بعض اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کردیتے اور بعض شرم کے مارے کسی کے منہ نہیں لگتے تھے۔۔۔یہ عقل و منطق سے بے بہرہ،یہ جاہل اجڈ اور گنوار،یہ وحشی،سنگدل اور مکّے کےبدو کیا جانتے کہ نور اور روشنی کسے کہتے ہیں!انہیں کیا پتا کہ دین و مذہب، تجزیہ و تحلیل اور تبصرہ کیا ہوتا ہے۔یہ اپنے ہی خول میں جینے والی مخلوق جو اپنے آپ کو عقل ِ کل سمجھتی تھی اسے کیا معلوم کہ کوہِ حرا کی بلندی مکے کی پستیوں سے کیا کہہ رہی ہے!؟
جب یہ نہیں سمجھے اور بالکل نہیں سمجھے تو ایک شب مکے کی خون آشام گلیوں کے درمیان "نور اور روشنی”کی صدا دینے والا "مشعل بردار” اچانک غائب ہو گیا اور اگلے ہی چند دنوں میں اس نے یثرب کی وادی سے خورشید کی مانند طلوع کیا۔
لوگ اطر اف عالم سے جوق در جوق اس کی بزم میں آنے لگے اور اس کے دونوں چراغوں سے اپنے اپنے چراغ جلا کر لے جانے لگے۔یوں دنیا بھر میں چراغ تقسیم ہونے لگے اور روشنی پھیلنےلگی۔پھر دنوں پر دن اور سالوں پر سال گزرنے لگے۔
میں نے چودہ سو سال بعد آنکھ کھولی اور لوگوں سے پوچھاکہ اس مشعل برادر کے ہاتھوں میں وہ دو چراغ کونسے تھے۔مجھے مغرب کے مستشرق ،مشرق کے مومن ،یمن کے مقداد ؓ،فارس کے سلمانؓ ،مدینے کے ایوب انصاریؓ ،قرن کے اویس ؓ اورحبش کے بلالؓ نے یہی جواب دیا کہ وہ دو چراغ ثقلِ اکبر اور ثقل ِ اصغر تھے۔میں نے پوچھا ثقلِ اکبر اور ثقل اصغر کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ثقل ِ اکبر سے مراد قرآن ہے اور ثقل اصغر سے مراد آلِ پیغمبر ؐ ہے۔
میں نے پوچھا یہ دونوں چراغ آندھیوں کی زد میں کیوں ہیں؟ انہوں نے جواب دیا : اس لیے کہ ایک چراغ یعنی ثقلِ اکبر کو صفین میں نیزوں پر جبکہ دوسرے چراغ یعنی ثقلِ اصغر کو کربلا میں نیزوں پراچھالاگیاتھا ۔۔۔
میں نے پوچھا اب کیاہوگا،انہوں نے کہا اب یہ دونوں چراغ میدانِ محشر میں فریاد کریں گے۔
میں نے کہالوگوں نے ایسا کیوں کیا ؟ مجھےجواب ملا کہ یہ مکے کے بدو ،یہ شراب اور مردار کے رسیا،یہ تہذیب و تمدن سے عاری مخلوق کیا جانے ثقل اکبر کیا ہے اور ثقل اصغر کیا ہے!؟۔میں نے جنتِ البقیع میں کسی مزار پر جب کوئی شمع جلتی ہوئی نہ دیکھی تو آخری رسولؐ کی اکلوتی بیٹی "فاطمہؑ” کی ویران قبر کی مشتِ خاک کو چوم کر کہا بی بی! آپ کے بابا نے ان وحشیوں کے درمیان آپ کی پرورش کی۔آپ کے بابا آپ کے احترام میں اُٹھ کر کھڑے ہو جایا کرتے تھے،آپ کے بارے میں کہا کرتے تھے،میری بیٹی ،یہ میری فاطمہؑ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔۔۔لیکن عرب کے یہ ظالم نہ اپنی بیٹیوں کے تقدس کو سمجھےاور ناں ہی انہوں نےاللہ کے رسولؐ کی بیٹی کا مزار گرانے سے کچھ شرم کی۔مکے کے یہ بدو کیا جانیں !!!بیٹی کیا ہے۔۔۔جگر کا ٹکڑا کیا ہے۔۔۔؟ [email protected]