کالم

گاؤں وڈا چھچھرکی وزیراں چھچھر کے قتل کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ

اٹھائیس جون دو ہزار بیس کو سفاکانہ انداز سے قتل کی گئی جامشورو/سیہون کے قریب گاؤں وڈا چھچھر کی رہائشی وزیراں چھچھر کے قتل کے سلسلے میں وومین ایکشن فورم کی آن لائن میٹگ میں دی گئی فیکٹ فائنڈنگ کی تجویزپر حقوق خواتین پر کام کرنے والی چھ تنظیموں کی دس رکنی فیکٹ فائینڈگ کمیٹی تشکیل دی گئی۔
فیکٹ فائنڈنگ ٹیم مورخہ دس جولائی کو بشمول سیہون شریف کی تعلقہ ہسپتال سید عبداللہ شاہ میڈیکل انسٹیٹیوٹ کے ایم ایس، مقتولہ وزیراں چھچھر کے گاؤں وڈا چھچھر میں مقتولہ کے والدین، سسرال، سہیلیوں، صحافیوں اور مقامی باشندوں ملاقاتیں کی۔ بعد ازاں جامشورو میں پولیس کی جانب سے مقرر تفتیشی افسر اے ایس پی علینہ راجپر سے بھی تفصیلی ملاقات کرکے وزیراں قتل کیس کے متعلق حقائق کو جاننے کی کوشش کی ۔
فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں مذکورہ قتل کے حوالے مندرجہ ذیل باتیں مشاہدے میں آئیں۔
1۔ وزیراں چھچھر کے قتل کیس کی ایف آئی آر اس کے والدین کے مدعیت میں درج کی گئی ہے جس قتل سے متعلقہ جرم کی نوعیت اور نسبت سے کے مطابق سیکشن کا اندراج نہیں ہے۔
2۔ وزیراں قتل کیس کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے یہ ایف آئی آر والدین کے بجائے سرکاری مدعیت میں درج ہونی چاہیئے تھی۔
3۔ کیس کے حوالے سے پولیس کی ابتدائی کاروائی اور کارکردگی زیادہ تسلی بخش نہیں۔ مثال کے طور پر مقتولہ کے قتل کے وقت پہنے ہوئے کپڑے اور دوسری متعلقہ چیزیں بروقت فرانزک رپورٹ کیلئے نہیں بھیجی گئیں۔
4۔ پولیس کی کاروائی کا دائرہ محدود ہے۔ مثلاً وزیراں سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں سے تسلی بخش تحقیقات نہیں کر سکی ہے۔
5۔ روایتی تفتیشی طریقہ کار کی وجہ سے پولیس ابھی تک آلہ قتل برآمد کرنے میں ناکام ہے۔
6۔ قتل کیس کی ابتدائی تفتیش میں پولیس کی غیرسنجیدہ کاروائی کے ساتھ پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی ادھوری اور غیر تسلی بخش ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ دانستہ/غیردانستہ یا کسی بیرونی دباؤ کی وجہ سے مکمل نہیں ہے
7۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں جنسی زیادتی ہونے/نا ہونے کا کوئی ذکر نہیں جب کہ پولیس کی جاری کردہ رپورٹ میں واضع طور پہ بیان کیا گیا ہے کہ "عورت کے کولہے ننگے تھے اور کولہوں کی جگہ سے شلوار ٹوٹی ہوئی تھی” ان واضع الفاظ کے باوجود پوسٹ مارٹم رپورٹ میں جنسی زیادتی کا ذکر نہ ہونا ، ویجائنل سواب، اور ڈی این اے ٹیسٹ کے لیئے اجزا نہ لینے والا عمل اس پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کو اور ڈاکٹر کی غیر جانبداری کو مشکوک بناتا ہے۔
8۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں عورت کے مخصوص تولیدی عضو کو چیرنے ، کاٹنے، زخمی یا مسخ ہونے کا کوئی ذکر نہیں۔ جبکہ غسل دینے والی خاتون اور گھر کی دیگر عورتوں کے بقول اس کا مخصوص عضو بھی زخمی تھا اور اس نچلے دھڑ کا سامنے والا حصہ کا بھی مسلا ہوا تھا۔ جبکہ پوسٹ مارٹم میں صرف کولہوں کے زخمی ہونے کا ذکر ملتا ہے۔
9۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں مقتولا عورت کے جسم پر ظاہر زخموں کی تفصیل نہیں دی گئی جب کہ ان عورتوں کا کہنا تھا کہ اس کے جسم کے مختلف حصوں میں تیز دھار سے لگائے گئے زخموں کے نشان تھے۔
بائیں بازو سے کندھے سے کہنی تک گوشت کا حصہ نکلا ہوا اور دائیں جانب سے lower abdomen میں تیز دھار سے آلے یا چاقوخنجر یا لوہی سلاخ سے دیئے گئے زخم تھے۔ ہاتھوں کے ناخنوں میں مٹی بھری تھی، جس سے لگتا تھا کہ اس نے مرنے سے مزاحمت کرتے ہوئے زمین پہ ہاتھ گاڑنے کی کوشش کی ہو۔ عورتوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ غسل دیتے وقت رات والا کھانا منہ سے نکلا تھا جیسے اس کے پیٹ کے بل گرا کر اوپر چڑھا گیا ہو اس دبائو سے رات کو کھایا گیا کھانا اس کے منہ میں آیا ہو۔ اس کے علاؤہ وزیراں کے پیٹ،پیٹھ اور ٹانگوں پہ بھی کھرچنے کے نشانات تھے۔
10۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں دانستہ/غیر دانستہ طور پرکچھہ اور اہم چیزوں کا ذکر غائب ہے مثلاً
+تولیدی عضو کامعائنہ
+ویجائنل سواب
+جسم پر لگے نشانوں کی فرانزک رپورٹ جیسے بال، ناخن، منہ کا حصہ، گلا وغیرہ
دیگر گھر کے افردا، والدین، اور دوسرے واقفکاروں سے بات چیت کے دوران مندرجہ ذیل چیزیں عام مشاہدے میں آئیں۔
1.شمالی سندھ کے برعکس گاؤں وڈا چھچھر میں عام طور پہ پدرشاہی کہ سفاکانہ غیرت کا تصور کم ہے۔ عورت کی نقل و حمل پر زیادہ پابندی نہیں ہے۔
2۔ عورتیں کم پڑھی لکھی/انپڑھ ہونے کے باوجود بھی کسی حد تک خودمختار ہیں۔ اور اپنے سینے پرونے کے اور دوسرے چھوٹے موٹے کاروبار اور بچت کامیٹیاں رکھنے میں آزاد نظر آئیں۔
3.اس گاؤں میں مردوں کی طرف سے دوشادیوں والا رجحان عام نہیں تھا اور نہ ہی اس کو اچھا سمجھا جاتا ہے
4.وزیراں کی شادی خاندان میں تھی۔ اور یہ ان کی اور انکے شوہر پسند کی شادی تھی۔ اس بات کو لیکر عموماً باپ بیٹی کو طعنے دیتا تھا ۔
5.گاؤں کے لوگوں کے مطابق وزیراں اپنے شوہر کی لاڈلی تھی۔ جس کی تصدیق اس کے والدین کے گھر والوں نے اور ماں نے بھی کی تھی لیکن رواجی طرح ان کا کہنا تھا کہ اس کے سسرالیوں کی وزیراں سے نہیں بنتی تھی جس کی وجہ سے وہ الگ تھلگ کمرے میں رہتی تھی۔ اس گھر میں صرف شوہر اور اس کی ساس رہتے تھے
6.وزیراں کا گھر اس کے میکے کی بنسبت خوشحال صاف ستھرا اور سلیقے والا کے رہا تھا۔ گاؤں والوں کا کہنا تھا کہ اس کے ہاتھہ میں اپنا پیسہ تھا گھر کی چیزیں جس میں الماریاں اور دیگر چیزیں اس بات کی گواہی دے رہی تھیں
7.سسرال کے بقول وزیراں پر والد تشدد کرتا تھا اور بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتا اسے اپنے گھر لے جاتا تھا مگر وہ وہاں رہنے کے بجائے اپنے ماموں کے گھر جاتی تھی جہاں پر اس کا شوہر بھی اس کے ساتھ رہنے کیلئے جاتا تھا
8.میکے کے مطابق وزیراں کا دیور، شوہر، نند، اس کے قتل میں ملوث ہیں کیونکہ کہ انہوں نےوٹہ سٹہ میں رشتہ دینے سے بچنے کیلئے اس کا قتل کرایا جبکہ اسکے شوہر اور دیور نے دھمکیاں بھی دی تھیں کہ ہم تمہیں دیکھہ کے رہیں گے۔
9. وٹے سٹے کے رشتے پہ جھگڑے کی وجہ سے وزیراں کے بھائی نے وزیراں کے شوہر پر کلہاڑی کا وار بھی کیا تھا جو چوک گیا تھا مگر تھانے پر این سی کٹانے کی وجہ سے وہ کچھہ دن پولیس تحویل میں بھی رہا۔ وٹے سٹے کے طور پر رشتہ دینے کا فیصلہ گاؤں کے بڑے الیاس چھچھر نے کیا تھا جس پر دونوں فریقن رضامند ہوئے تھے ۔
10.وٹے سٹے کا رشتہ وزیراں کی نند رشیداں کی بیٹی کی طئے ہوا تھا مگر اس نے نکاح کیلئے انکار کا سبب یہ بتایا تھا کہ اس کی بیٹی ابھی چھوٹی اور نابالغ ہے جبکہ لڑکا بھی ابھی کم عمر 12/13 سال کا ہوگا جبکہ رشیداں کے مطابق لڑکا شرابی بھی تھا شراب پی کر گلیوں میں گرتا پھرتا تھا مگر پھر بھی اس نے رشتہ دینے سے انکار نہیں کیا تھا مگر شرط رکھی تھی کہ لڑکی بڑی ہو اور لڑکا بھی سدھر جائے ۔
11. وزیران قتل کیس معاملے کی تحقیقات اور بیانات میں گاوں کے بڑے الیاس چھچھڑ کا بار بار ذکر ہوا اس لئے گمان کیا جا سکتا ہے کہ اس کو اس قتل کے بارے میں کچھہ معلوم ہو گا جبکہ وزیراں کے والدین اس کے شوہر دیور اور نند کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں
12۔جس سفاکی سے وزیراں کا قتل ہوا ہے وہ اس شک کو مزید پختہ کر رہا ہے کہ قتل ایک معمولی رشتہ داری کے تنازعے کے بجائے یا کسی ایک شخص کی کاروائی کے بجائے قتل میں خاندان سے باہر کسی کی انتقامی کاروائی ، انتہائی نفرت اور غصے کا عنصر شامل ہوسکتا ہے جبکہ خاندانی جھگڑے میں اس حد تک بات نظر نہیں آئی کہ ایک رشتہ نہ دینے کی وجہ سے وزیراں کو اس طرح بیرحمی سے قتل کیا جائے۔ البتہ اس شک کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ دونوں خاندانوں کا کوئی فرد ان قاتلوں کا سہولتکار بنا ہو۔
13۔بکریاں بیچنے خریدنے کے سلسلے میں وزیراں کو مقامی شہروں آمری، سن یا سیہون لے جانا والا کام اس کے ماموں کا بیٹا تقی کرتا تھا۔ ممکن ہے وہ بھی قتل کے اصل اسباب سے واقف ہو۔
14.گاوں میں وزیراں کی ایک سہیلی تھی جس کے پاس اس کا بہت آنا جانا تھا۔ ممکن ہے اسے کچھہ باتوں کا علم ہو جو قتل کا سبب بنی ہو ں۔
15وزیراں کے سسرال کے گھر کے سب افراد کے بیان کے مطابق وزیراں محنتی، سلجھی ہوئی اور ہنس مجھہ خاتون تھی، اس بات کی تصدیق اس کی سہیلی اور اس کے گھر کے افراد نے بھی کی
وزیراں چھچھڑ قتل کیس میں مجموعی طور پر پولیس کا کردار۔
1۔ کیس کی جے آئی ٹی بنانے سے صاف ظاہر ہے کہ پولیس اس کیس کو حل کرنے میں دلچسپی ہے لیکن اس کے باوجود اس وقت تک کیس میں کوئی نمایاں پیش رفت نظر نہ ہونا ایک سوالیہ نشان ہے ۔
2۔ہو سکتا ہے کہ پولیس سیاسی سماجی یا کسی اور دباؤ کا شکار ہو کیوں کہ سب منسلک افراد کے موبائل کو اپنی کسٹڈی میں لینے اور ڈیٹا کے ذریعے مشتبہ افراد کے ذریعے ابھی تک قاتلوں کا پتہ لگانے میں ناکام رہی ہے ۔
3۔ ایس ایس پی جامشورو امجد شیخ نے عدالت کو خط لکھ کر مقتولہ کی چھ ہفتوں کے حمل کی ڈی این اے کروانے کیلئے قبرکشائی کی اجازت لینا قاتل کو پکڑنے کے بجائے قتل کا رخ مقتولہ کے کردار کی طرف کر کے قتل کا رخ موڑنے کی کوشش سمجھی جا سکتی ہے
4۔ کچھ عورتوں نے جو وزیراں کے غسل کے وقت موجود تھیں یہ شک ظاہر کیا کہ مخصوص اعضاء کا تیز دھار والی چیز سے چیرا ہوا ہونا شک میں مبتلا کرتا ہے کہ وزیراں کو گینگ ریپ کے بعد قتل کیا گیا ہو
ان کے کہنے کے مطابق ممکن ہے کہ جس طرح اس کے زنانہ عضو کو مسخ کر کے پھر اندر مٹی ڈالی گئی ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ ممکنہ طور پہ گینگ ریپ کے ثبوت مٹانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مگر دوسری جانب پولیس اس ممکنہ جنسی زیادتی کے نکتے کو بالکل نظر انداز کر کے تفتیش میں گینگ ریپ والا زاویہ شامل تفتیش نہیں کیا ہے ۔
5۔ مقامی لوگوں کا یہ تاثر ہے کہ مقامی تھانے پر پولیس کے جو اہلکار مقرر ہیں وہ جان بوجھ کر خود کیس کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ گاؤں کے مشکوک افراد سے معمولی تفتیش کی کوشش سے قاتلوں تک پہنچا جا سکتا ہے
7۔ کیس کی تفتیش میں سست روی دراصل کیس پر دھیان ہٹانے کی شعوری کوشش محسوس کی جا رہی ہے مقامی افراد کا شک ہے کہ پولیس قاتلوں تک پہنچنے کے بجائے شواہد چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔
8۔ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حلقہ وزیر اعلی سندھ مراد علی شاھ اور ملک اسد سکندر کا ہے اس لئے ممکن ہے کہ پولیس کسی سیاسی دباؤ کے تحت کیس کی درست طریقے سے تفتیش سے ہچکچا رہی ہو ۔
9۔پولیس تفتیش قتل کی نوعیت اور اس قتل کے پیچھے اصل اسباب جاننے کے بجائے اس ایف آئی آر کی بنیاد پر ہو رہی ہے جو کہ مقامی پولیس کی رہنمائی سے وزیراں کو والد کی مدعیت میں کٹوائی گئی ہے
جس میں ممکنہ گینگ ریپ کا نکتہ جان بوجھ کر چھپایا گیا ہے ۔
10۔ پولیس کمزور ایف آئی آر کی بنیاد پر گرفتار تین افرد کو جسمانی ریماںڈ کے لئے عدالت میں پیش کیا ہے جبکہ یہ کیس بہت سے زاویوں سے تفتیش طلب ہے
فیکٹ فائینڈنگ کمیٹی کی سفارشات
مقتولہ وزیراں قتل کیس کیلئے بنائی گئی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی جو کہ چھ مختلف تنظیموں کے دس نمائندگان پہ مشتمل تھی انہوں نے پوسٹ مارٹم کے سلسلے میں ڈاکٹرز سے لیکر تفتیش کے لئے مقرر کردہ پولیس افسران، مقتولہ کے لواحقین، سہیلیوں، واقعے کی بر وقت رپورٹنگ کرنے والے مقامی صحافیوں، سے ملاقات اور قتل واقعے کا مکمل جائزہ لینے کے بعد اعلی اختیاریوں کو مندرجہ ذیل سفارشات پیش کرتی ہے ۔
1۔ وزیراں کے سفاکانہ قتل سے انصاف کیلئے ضروری ہے کہ اس کی کمزور ایف آئی آر کے بجائے ریاست کی مدعیت میں دوسری ایف آئی آر درج کی جائے۔ جس میں گینگ ریپ کے شواہد ملنے کی صورت میں اس کا ذکر کر کے اجتماعی جنسی زیادتی کے قلم لگائے جائیں ۔کسی دوسرے وارث یعنی والد کی مدعیت میں داخل کی گئی ایف آئی آر میں وزیراں کا انتہائی سنگین قتل کسی بھی جرگے یا برادری کے فیصلے کے ذریعے کمپرومائیز ہونے کا خدشہ ہے اس لئے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے ایف آئی آر پولیس کی مدعیت میں ریاست کی جانب سے دوبارہ داخل کروانا ضروری ہے ۔
2۔کسی بھی قتل کیس میں انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مگر اس کیس میں پوسٹ مارٹم رپورٹ انتہائی ناقص اور نان پروفیشنل ہے۔ اس وجہ سے ممکنہ ریپ ثابت کرنے کیلئے، اور دوسری ضروری سیمپلز لینے کیلیے قبرکشائی کے بعد دوبارہ پوسٹ مارٹم کی ضرورت پڑے تو پولیس کی اس سلسلے آگے آنا چاہیئے اس سلسلے میں فیکٹ فائنڈنگ کامیٹی دوبارہ قبر کشائی کی حمایت کرتی ہے۔
3۔فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی ایس ایس پی کی سفارش پر وزیراں کے رحم میں موجود آٹھ ہفتوں کے بچے کی ولدیت کی شناخت کیلیے اس کے ڈی این اے کروانے والے عمل کی سخت مخالفت کرتی ہے۔ بچے کی ولدیت کی ثابتی دراصل مقتولہ کے کردار کو مشکوک کر کے قاتلوں کو فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے اس معاملے پر حیرانی کا اظہار بھی کیا کہ پولیس کو قاتل کی تلاش کرنی چاہیئے تھی جو کہ مقتولہ کے کپڑوں، بالوں یا جسم سے لئے گئے دوسرے اجزا کی کیمیکل اور فرانزک رپورٹ سے بہ آسانی قاتل تک پہنچا جا سکتا ہے اس بنیاد پر کمیٹی قبر کشائی اور دوبارہ پوسٹ مارٹم کے مطالبے سے متفق ہے۔ البتہ دوبارہ پوسٹ مارٹم کو حمل کا ڈی این اے نہ کرنے سے مشروط کیا جائے
4۔ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی سفارش پیش کرتی ہے کہ مقتولہ وزیراں کی موبائیل، کپڑوں، اور جسم کے دوسرے اجزا کی فرانزک رپورٹ کرائی جائے۔
5۔ قتل کے شواہد گاؤں سے باہر نہیں ہیں اس لئے پولیس بغیر کسی سیاسی دباؤ کے گاؤں کے بااثر افراد کی گرفتاری کرنے سےگھبرانے کے بجائے ان کو گرفتار کر کے قاتلوں تک پہنچے اور وزیراں چھچھر سے انصاف کو ممکن بنائے ۔
6۔پولیس اور عدالت اس بات کو یقینی بنائیں کہ بااثر جوابداروں یا گاؤں کے بااثر افراد یا کسی بھی بیرونی دباؤ کے باعث کیس کے مقامی یا برادری سطح پر فیصلہ یا کمپرومائیز نہیں ہونے دیا جائے گا ۔
7۔ اس واقعے کو صرف غیرت کی بنیاد پر ہونے والے قتل کی روشنی میں دیکھنے کے بجائے مختلف نقطہ نظر اور زاویوں سے سے دیکھنے کے لئے پولیس کو اپنی تفتیش کا دائرہ بڑھانے کی ضرورت ہے ۔
8۔فیکٹ فائینڈگ کمیٹی اعلی حکام کے علاوہ اس واقعے کو رپورٹ کرنے والی مقامی میڈیا نمائندگان کو بھی گذارش کرتی ہے کہ پولیس کی تفتیش پر اثر انداز ہونے، یا غیر ضروری رپورٹنگ سے اجتناب برتیں ایسا نہ ہو کہ غیر متعلقہ لوگوں کے غیر ضروری دباو کے زیر اثر وزیراں قتل کیس کسی مصلحت کا شکار نہ ہو جائے۔
اس لئے ضروری ہے کہ متعلقہ ادارے یعنی کیس کی تفتیش کرنے والی پولیس ، عدالت، وکیل۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور میڈیا سمیت معاشرے کے سب باشعور افراد نیک نیتی سے اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے اور قاتلوں کو سزا دلوانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔
وزیراں چھچھر کا انتہائی بیرحمانہ طریقے سے کیے گئے قتل کا کیس معاشرے کا ٹیسٹ کیس ہے اس لئے معاشرے کے ہرادارے کو مشترکہ طور پر اس کیس میں انصاف کی فراہمی تک اپنا متوقعہ کردار ادا کرنا چاہیئے ۔
فیکٹ فائنڈنگ ٹیم میں شامل تنظیمیں اور ان کی نمائندہ میمبران
1. وومين ايکشن فورم
امر سندھو،
نسيم جلبانی
ڈاکٹر رخسانه پريت،
ڈاکٹر حسين مسرت،
2.سندھ سہائی ستھ
ڈاکٹر عائشہ حسن دھاريجو ( سکھر )
3.وومین ڈيموکريٹک فرنٹ کامريڈ عاليه بخشل
4. آئی آر سی
فرزانه برڑو.
5. ليٹ وومين لیو
ايڈوکيٹ صنم منگی ( کوٹ ڈیجی )
6. وومين پروٹيکشن سينٹر ، حيدرآباد
ماروی اعوان

Leave a Reply

Back to top button