قلم اور کالمکالم

ایک پارس تھی کملا بھاسن

مقصودہ سولنگی
بچپن میں ہمارے گاؤں میں ہر عید پر میلہ لگتا تھا۔ہم  کزنز  میں جتنے لڑکے تھے اتنی ہی لڑکیاں تھیں مگر لڑکیاں میلہ دیکھنے نہیں جاتیں تھیں ۔ یہ بات مجھے سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ کیوں لڑکیاں نہیں جا سکتیں ، شاید دل اس چیز کو نہیں مانتا تھا کہ میں لڑکی ہوں تو میلہ نہیں دیکھ سکتی۔ اوپر سے سارا دن لائوڈ سپیکرس پر طرح طرح کے اعلانات دل  کو اور مچلادیتے ۔ ہم لڑکیوں کا سارا عید کا دن چچاؤں  اور دادا  کی منتیں کرتے گزرتا تھا، لیکن کبھی ایسا دن نہیں آیا کہ ہم لڑکیاں میلہ دیکھنے جاتیں۔
میرے والد صاحب سندھ نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے نائب صدر کی حیثیت سے ضیاء کے دور میں جیل چلے گئے تھے اور میں  نے جب ہوش سنبھالا تو ان کو گھر پر نہیں دیکھا۔ ہم بابا سے ملاقات کرنے جیل جاتے تھے تو میں ان کو دیکھ کر خاموش آنسوں سے  ہچکیاں لے لے کرزاروقطار روتی رہتی تھی۔ دل کرتا تھا کہ وہ ہمارے ساتھ گھر پر رہتے ۔ میرے لیے بابا کی رہائی کا دن بہت بڑا دن تھا ۔ بہت بڑے جلوس کی صورت میں بابا کو لینے گئے  ۔ میرے بابا کو لینے جانے کی بات پر پہلے بڑوں نے منع کر دیا لیکں چاچا کی بات پر مجھے جانے کی اجازت مل گئی۔ اس وقت میں شاید 4 برس کی تھی۔ سارا دن ہم نے سفر کیا۔ جوک در جوک لوگ جلوسوں کی شکل میں بابا کی رہائی کے نعرے لگاتےہماری گاڑیوں کے ساتھ شامل ہوتے جاتےتھے۔جبکہ میں بابا سے جیل کے باہر ملنے اور ان کو دیکھنے کے اشتیاق سے پرجوش تھی۔ ہم جب جیل پہنچے تو بابا کو  جیل سے  باہر لیکر آنے کے لیے سینکڑوں لوگ موجود تھے ۔ ہماری گاڑی سے سارے لوگ اتر کر چلے گئے ، چھوٹے دادا نے کہا وہاں بہت لوگ ہیں تم لڑکی ہو یہاں بیٹھو میں آتا ہو ں ،اورمجھے کسی نے ساتھ نہیں لیا۔ جبکہ بھائی کو  چچا نے کندھے پر اٹھا لیا اور یو ں وہ  اول صف میں پہنچ گیا نہ فقط یہ بلکہ وہ  سارا راستہ ابو کی گود میں بیٹھے رہے۔ مجھے یاد ہے میں بابا کو دیکھنے کے لیے مچل رہی تھی لیکن اس لمحے میں اکیلی گاڑی میں رہ گئی۔ واپسی کا پورا راستہ ابو کو دیکھ نہیں سکی اور گھر میں اندھیرے میں ابو کو  رہائی کے بعد گھر میں دیکھا ۔جب میں یہ سوال کرتی کہ مجھے کیوں نہیں ابو کے ساتھ بٹھایا گیا تب تب مجھے جوب ملا کیوں کہ میں لڑکی ہوں اس لیے۔  حد یہ تھی کہ ابو کی روشن خیالی بھی مجھے اس امتیازی سلوک سے نہ بچا سکی  کیونکہ ابو ہمارے ساتھ نہیں رہتے تھے اور سیاست کی وجہ سے اکثر مہینوں بعد آتے تھے۔جنسی بنیاد پر کیا جانے والا یہ امتیازی سلوک میں آج تک نہیں بھولی۔
مجھے ایسے  ہزارہا واقعات یاد ہیں جن میں میرے ساتھ کھلی زیادتی ہوتی رہی ، صرف اس لیے کہ میں ایک لڑکی تھی۔  پتہ چلا کہ اس امتیازی سلوک  کو درست کرنے کی کوئی گنجائش نہیں یہ ایسا ہی ہے اور ایسا ہی رہے گا۔ میں اپنے دل میں یہ خلش لیے بڑی ہوتی رہی اور یہ خلش میری شخصیت کے خدوخال میں شامل ہو گئی۔ میں بگڑی ہوئی لڑکی کے نام سے مشہور تھی۔ انکار کرنے والی اور بدزبان، بھائیوں اور کزنز سے حسد کرنا میری خصلتوں میں شمار کیا گیا لیکن اس کی وجہ کو کسی نے  سچ نہیں سمجھا۔ میں نے اس معاملے پر بحث مباحثے کیے اور  اسی وجہ سے بدترین تشدد کا سامنہ کرنا پڑا، درحقیقت میرے اندر کے سوالات کےجوابات کسی کے پاس نہیں تھے اور میں باغی قرار پائی ۔بابا رہا ہوئے ہم لوگ گاؤں سے شہر آگئے۔ اور میری ملاقاتیں بابا کے توسط سے بڑے بڑے روشن خیال لوگوں سے ہوتی رہی۔ جن میں سب سے اہم  سندھ کے مشہور ادیبوں، شاعروں ، دانشوروں اور سیاستدانوں سے  ہوئی۔ میں انٹر کے بعد نوکریاں کرنے لگ گئی اور اسی دوران ہوا کے تازہ جھونکوں کی کھڑکیاں مجھ پر کھلتی اور بند ہوتی رہی۔ مجھے یاد ہے کہ میں پاکستان فشر فوک فورم کی جانب سے ایک جینڈر کی ٹریننگ لے رہی تھی تب اس  سوال پر کہ کیا مرد بچوں کا خیال رکھ سکتا ہے کہ نہیں میں کبھی ہاں کے گروپ میں کبھی ناں کے گروپ میں ڈولتی رہی تھی۔ سوال یہ تھا کہ خواہش کی بات ہو رہی ہے، حقیقت کی یا انتہا کی بات ہو رہی تھی۔ عورت فائونڈیشن میں نوکری کے سالوں میں مجھے موقعہ ملا کہ میں اپنے اندر کے تمام سوالات کے جوابات پائوں ۔ لیکن ایک تشنگی باقی تھی ۔
انھی حالات میں میری ملاقات کملا بھاسین سے 2015 میں  اسلام آباد میں ہوئی۔  کملا کا جب پہلا خطاب سنا تو مجھے لگا کہ جیسے صحرا میں بارش کی پہلی بوند گری ہو۔ گھر جا کر میں نے لگاتار بیسیوں لیکچرس اور ان کی شاعری پڑھی ۔ کملا  کے لیکچر میں انہوں نے کہا کہ عورت دنیا کی معیشت کی سب سے بڑی حصیدار ہے۔ وہ گھر کی رشتہ داروں کی دن کے 24 گھنٹے ملازمہ ہے۔ یہ فوائد صرف تب ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں جب عورت رشتے اور ناتوں  کے دائرے میں  خوشی خوشی رہے ۔ پھر وہ اپنی مرضی سے وہ تمام کام کرتی ہے کہ جس سے معیشت مضبوط ہوتی ہے۔ کیسے؟ میاں آٹا لاتا ہے تو بچے اور خاندان آٹا تو نہیں کھاتے۔ آٹے اور ترکاری کو کھانا عورت بناتی ہے۔میاں کو دفتر عورت بھیجتی ہے اور ملک کے مستقبل کو عورت ممتا کی گرمی دے کر پالتی ہے۔ اگر دفتر کے تمام کام بخوبی سرانجام پاتے ہیں تو اس کمال کا بیج عورت رات کے کچھ پہر سو نے کے بعد اٹھ کر ہر روزبوتی ہے۔ تشدد کی بنیادی وجوہات پر ان کی رائے سن کر میں دنگ رہ گئی۔  دنیا بھر میں میان بیوی  کے رشتے  کا نام ہی آقا اور غلام کا ہے یعنی انگریزی میں ہسبنڈ کا مطلب ہے مالک ، ہندی میں پتی (جیسے  کروڑ پتی یعنی کروڑوں کا مالک )اسی طرح شوہر، سائیں ،  تو دلیل یہ کہتی ہے کہ اگر دونوں میں سے ایک مالک ہوا تو دوسرا  تو غلام ہی بنا۔ تو آقا  کچھ بھی کرے اگلا تو اس کا غلام ہے ۔  باوجود دنیا میں سب سے زیادہ محنت کرنے کے  غلامی کے اس تصور پر بنیاد رکھے اس رشتے نے عورت کو پوری دنیا میں دوسرے درجے کا شہری بنائے رکھا ہےاور پھر  عورت کو بری عورت کے تصور سے ڈرایا جاتا ہے؟ اچھی عورت کے کرشمے  کے طلسم سے عورت کو مبہوت کیا جاتا رہا کیوں کہ امتیازی سلوک کا فائدہ اٹھانے ولے مرد یا عورت، کیپٹلسٹ ہوں یا مذہبی ٹولے یا دنیا کا ہوئی بھی نظام  اچھی طرح سمجھتے  ہیں کہ  اس کے فوائد کیا ہیں اور وہ سب سے زیادہ فائدہ کون اٹھاتا ہے؟  اور یہ کہ اگر عورت وہ فوائد دینے سے انکار کرے تو اس کا اس دنیا میں کس پر زیادہ اثر ہوگا؟
فینزم  پر شدید تنقید میں سے ایک یہ بھی ہے کہ فیمنسٹ مرد اور  عورتیں اگر پدشاہی کی مخالفت کرتیں ہیں تو اس کا مطلب وہ مدرشاہی کی ہامی ہیں۔ کملا کہتیں تھیں کہ اگر پدرشاہی بری ہے تو مدرشاہی بھی بری ہے۔ پدرشاہی کا ضد مدرشاہی نہیں بلکہ برابری ہے۔ بہرحال مختصر یہ کہ مجھے اپنے تمام سوالات کا جواب مل گیا ۔ اور جیسے ایک مردہ جسم میں جان آگئی ۔ کملا کی باتوں نے مجھ میں جوش اور ولولہ پیدا کر دیا ۔ انہوں نے مجھے اس قدر متاثر کیا کہ  کملا کی دی ہوئی انگریزی کتاب(پدرشاہی کیا ہے ؟)  کو سندھی میں ترجمہ کرنا شروع کیا ۔ اور یہ ترجمہ سندھی کے ایک سنڈے میگزین میں چھپتا رہا۔ مجھے بہت شوق تھا کہ میں  نیپال جاکر سنگت کی تربیت کا حصہ بنوں اور کملا کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاروں ۔ اسی دوران 2018 میں پتہ چلا کہ سنگت نے یہی کورس پاکستان میں روزن اور کچھ پارٹنرز کے تعاون سے شروع کر رہا ہے۔ میں نے پوری محنت سے اس کورس کی درخواست تیار کی مجھے پکا یقین تھا کہ کملا وہاں ضرور آئیں گی لیکن مجھے سلیکٹ نہیں کیا گیا۔ اس دوران میری کملا  سے ای میل پر بات ہوتی رہی اور انہونے میرے کالم کی اشاعت پر مجھے  بہت شاباس دی  اور سراہا ۔ میری خوشی کی انتہا نہ تھی ۔
سال 2019 میں مجھے روزن سے کال آئی کہ آپ  کو اس سال سنگت کورس کے لیے چنا گیا ہے۔ لیکن میں اس وقت گاؤں میں تھی اور خیرپور میں ایک تنظیم کو ابھی ابھی جوائن کیا تھا۔ میں نے وہاں کی مینجمنٹ کو بتایا اور انہوں نے مجھے جانے کی اجازت دے دی۔ بد قسمتی سے کملا کو پاکستان ویزا نہ مل سکا اور وہ شریک نہ ہو سکیں لیکن تربیت کے دوسرے دن کملا کے ساتھ  ہماری سکائیپ میٹنگ رکھی گئی ۔ ہم لوگ 30 سے 32 خواتین تھیں اور ایک کمرے میں کیمرے کے زریعے کملا ہم سب کو دیکھ رہی تھیں۔ انہونے مجھے پہچان لیا۔ اور کہا مقصودہ ہم نے یہ کورس سندھی میں کروانا ہے ۔ کملا میرے لیے استاد سے زیادہ تھیں اور ان کے الفاظ پتھر پر لکیر۔ میں نے جذباتی ہو کر نعرہ لگایا اور کملا سے وعدہ کیا۔ یہ اپریل 2019 تھا۔ میں واپس جا کر دن رات اس کام میں لگ گئی سب سے پہلے تمام مٹریل کواردو اور انگریزی سے سندھی میں ترجمہ کرنا شروع کیا۔ اور سندھ کی ایسی تمام تنظیموں سے رابطے کیے جن سے مجھے مدد کی امید تھی اور کملا کو لکھا کہ میں نے کام شروع کر دیا ہے ۔ اس ضمن میں سیوا ڈولپمنٹ ٹرسٹ اور خادم ڈاہوٹ  صاحب نے ہماری بھرپور مدد کی ۔ کملا نے انیس ہارون سمیت تمام دوستوں کو لکھا کہ ہماری مدد کریں کئی مہینوں تک ہمیں نہ فنڈز کا پتہ تھا نہ جگہ کا نہ ٹرینرس کی کمٹمنٹ کا ۔  میں واپس اسلام آباد آگئی، ایک دن کملا کا واٹس ایپ میسیج آیا کہ ہمیں ایک انٹرنیشنل این جی او سے فنڈز کی منظوری مل گئی ہے ۔تب تک یہ تو طئے ہو چکا تھا کہ ٹریننگ کراچی میں اور پائلر کے تربیتی گھر میں ہوگی۔ ہمارے فنڈز پھر بھی کم تھے میں نے  اسلام آباد میں کیمپین شروع کی اور اسلام آبا کی تنظیموں انٹرنیشنل اداروں یو این اور شخصیتوں کو لکھا  اور ان سے جا کرملی ۔میں نے عورت فاؤنڈیشن میں نعیم مرزا صاحب سے رابطہ کیا ۔ انہوں نے عورت فاؤنڈیشن کے برے حالات کے باوجود بھرپور مدد کی ۔ میں خود کو اپنے کیریئر کے عروج پر محسوس کرنے لگی ۔  مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سب میں کر رہی ہوں ۔میں اتنی پرجوش تھی مجھے احساس تک نہ تھا کہ میری زندگی کتنے کٹھن دنوں سے گذر رہی ہے۔میرے جیون ساتھی دن بھر ابر اور کریم میں گاڑی چلاتے، پھر میرا فون وہ لیکر جاتے اور صبح ہوتے ہی میں کیفے پہنچ جاتی۔ دس لوگوں کا کام میں اکیلی کررہی تھی دن اور رات کا ہوش نہیں رہتا تھا۔  گھر میں شدید مالی مشکلات کا سامنا تھا۔ لیپ ٹاپ اور  کمپیوٹر  ان دنوں خراب تھے۔ فون کی اسکرین بری طرح ٹوٹی ہوئی تھی۔ انٹرنیٹ نہیں تھا۔ مگر میں انٹرنیٹ کیفے جاکر دو سے تین گھنٹے کام کرتی رہی۔ درخواستوں کی چھان بین سے لیکر لوگوں سے کوآرڈینیشن تک ۔ فنانس سے لیکر تربیتی کورس کو حتمی شکل دینے اور ٹرینرس کی شارٹ لسٹنگ تک کا کام انٹرنیٹ کیفے سے کر رہی تھی۔
کملا بھاسن نے مجھے، میری زندگی کی ترجیحات کو یکسر بدل کر رکھ دیا تھا۔ یہ ان کی بڑی کرامات میں سے ایک ہے کہ سندھ میں پہلی دفعہ باضابطہ طور پر ہم نے وہی کورس جو نیپال میں ایک مہینے کا ہوتا ہے دسمبر  2019  میں پہلا سندھی سنگت تربیتی کورس کے نام سے پندرہ دن کی رہائش کے ساتھ منعقد کیا۔  اس طرح  میری زندگی کے دو بڑے کام ایک کتاب کا ترجمہ جو اشاعت کے مراحل میں ہے اور ایک انتہائی اہمیت کے حامل تربیتی کورس کا انعقاد میں نے کملا بھاسن کے عشق میں کیا۔
وہ کہتی تھیں میں سندھ کی بیٹی ہوں، میں پنجاب کی بیٹی ہوں ،میں پاکستانی ہوں ، میں نیپالی بھی ہوں، میں بنگالی بھی ہوں اور میں ہندوستانی بھی ہوں ۔ میری کئی دفعہ ان سے بات ہوئی اور کئی دفعہ میرے لیے وہ پریشان رہی اور اس پریشانی کا ذکر انہوں نے کئی اور دوستوں جن میں انیس ہارون شامل ہیں سے کیا۔ جن دنوں کملا دیدی کو کینسر کی تشخیص ہوئی انہی دنوں میری چوتھی سرجری ہوئی اور جس دن کملا کے درد اور تکلیف کا خاتمہ ہواان کی  تمام حدود اور سرحدوں سےآزادی کے دن تک میرا زخم ٹھیک نہیں ہوسکاہے۔
کملا سے میری آخری بات ان کے جنم دن کے موقع پر ہوئی تھی جس میں انہونے وعدہ کیا تھا کہ وہ سندھ آئیں گی اور سکھر سے لیکر کراچی تک گھومیں گی۔  ان کو میرا آخری صوتی پیغام وہ مشہور نظم ہے جو نیرہ نور نے گائی تھی،اور میں نے  گا کر بھیجی ۔
اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آجائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آجائے۔
مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ کملا دیدی کیموتھراپی سے بیماری کو شکست دیں گی ۔ میں نے کبھی ان کو ان کی عمر کے حساب سے نہیں  دیکھا۔ ان کو آخری دفعہ ان کے گھر کی ایک وڈیو میں کیموتھراپی کے دنوں میں جھومتے دیکھا جس میں وہ مشہور گانے "آئے ہو میری زندگی میں تم بہار بن کہ” پر بیٹھے بیٹھے جھومتی نظر آتی ہیں۔مجھے بہٹ ہمت ملی اور یہ یقین ہو گیا کہ وہ ٹھیک ہو جائیں گی۔
کملا بھاسن وہ پارس تھیں کہ جس کو بھی ملتیں ان کو بدل کہ رکھ  دیتیں ۔وہ اس صدی کی عورتوں کی بہت بڑی قائد تھیں۔ کملا کے جانے سے برصغیر میں عورتوں کی جدوجہد می ایک بہت بڑا خلاء پیدا ہوگیا ہے جوکہ ان کے بغیر کوئی اور پورا نہیں کر سکتا۔کملا نے پوریے ایشیا میں ایسی تحریک پیدا کی کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔   اس میں کوئی شک نہیں کہ کملا پورے خطے کی بیٹی تھی اور انہونے بڑی کامیابی  سے  عورت کے  شعور میں بیداری پیدا کی اور عورت کے لیے اس خطے کو اس وقت سے بہتر بنا کر گئی جس وقت وہ پیدا ہوئیں تھیں۔  میں بھی ان کی اس کوشش کی ایک زندہ مثال ہوں ۔ میں ان کو اپنی شعوری ماں پکارتی ہوں، کہ انہونے مجھے شعور دیا۔دل میں آج بھی ایک  پکہ یقین  ہے کہ کملا دیدی اب کے پاکستان آئیں تو ہم  گاؤں گاؤں جائیں گے اورعورتوں میں یہ شعور پیدا کرنے کی کوشش کریں گے(گوکہ یہ خام خیالی ہے مگر بہت خوبصورت ہے) کہ عورت ! تم بھی انسان ہو۔ اور جینے کا حق رکھتی ہو۔ یہ بات کرنا کوئی بے شرمی نہیں ہے۔ یہی شعور میں اپنے بچوں کو منتقل کرو ں گی اور ان کو ہماری کملا سے ملواؤں گی ان کی نظمیں اور شاعری پڑھاؤں گی، ان کی طرف سےمجھے دی گئی  تعلیم اور شعور کے ذریعے ۔ تاکہ ہماری ائندہ  نسلوں کو پتا چلے کہ کملا بھاسن کیسی تھیں۔بس ایک آس ہے کہ پھر کب میں گے کمال دی۔ شیخ ایاز کہتے ہیں۔
ٽڙي پوندا ٽارئيڻ جڏھن ڳاڙھا گل
الو ميان تڏھن ملندا سين
جب  ڈالیوں پر سرخ گلاب کھلیں گے،  تب ہم پھر ملیں گے  ۔ یا پھر یہ کہ   ،
وٺي هر هر جنم وربو
مٺا مھراڻ ۾ ملبو
ہم بار بار جنم لےکر لوٹ آئیں گے ،پیاری ہم مہران (سندھ) میں ملیں گے۔تب تک الوداع اے دوست، الوداع کملا دیدی۔

Leave a Reply

Back to top button