شاہد افراز خان ،بیجنگ
چین کی اعلیٰ مقننہ "قومی عوامی کانگریس” اور سیاسی مشاورتی ادارے "چینی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس” کے رواں ہفتے سے شروع ہونے والے سالانہ اجلاسوں کو چینی قوم کی عظیم نشاتہ الثانیہ کی جانب نئے سفر کے ایک اہم سال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
13ویں قومی عوامی کانگریس (این پی سی) کا پانچواں اجلاس ہفتہ کو شروع ہو رہا ہے جبکہ چینی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس (سی پی پی سی سی) کی 13ویں قومی کمیٹی کا پانچواں اجلاس جمعہ سے شروع ہو چکا ہے۔عوامی جمہوریہ چین کی سیاسی تاریخ میں ان ” دو اجلاسوں” کے انعقاد کو ہمیشہ مرکزی اہمیت حاصل رہی ہے۔
ان اجلاسوں میں گزشتہ ایک برس کے دوران حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ کمیو نسٹ پارٹی آف چائنا کی قیادت میں حاصل کردہ کامیابیوں کے جائزے سمیت مستقبل کے اہم اہداف کا تعین کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ عالمی و علاقائی صورتحال کے تناظر میں ملکی ترقی کے حوالے سےنمایاں ترجیحات کا تعین کیا جاتا ہے۔
دونوں اجلاسوں کے دوران چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم نظام کے تحت معاشی ، سیاسی ، ثقافتی ، سماجی اور ماحولیاتی ترقی کے عمل کو جاری رکھنے کا عزم بھی دوہرایا جاتا ہے۔اگرچہ سالانہ اجلاسوں کے دوران فیصلے تو چین سے متعلق کیے جاتے ہیں ، قانون سازی چین کے لیے کی جاتی ہے ، پالیسیاں چینی عوام کی فلاح کے لیے ترتیب دی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود دنیا چین کے سالانہ اجلاسوں میں گہری دلچسپی لیتی ہے جس کی کئی وجوہات ہیں.
ان دو اجلاسوں کے ایجنڈے کی بات کی جائے تو کچھ ایسے موضوعات شامل ہیں جن پر زیادہ توجہ مرکوز کی جائے گی, ان میں سرفہرست موضوع "اقتصادی اہداف” ہیں. ہر سال "دو اجلاسوں” میں، دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے سالانہ اقتصادی ترقیاتی اہداف عالمی سطح پر سب سے زیادہ دیکھے جانے والے موضوعات میں شامل ہیں۔
رواں سال 2022 کے ترقیاتی اہداف ہفتہ کو حکومتی ورک رپورٹ میں سامنے آئیں گے، جس میں عام طور پر ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی نمو، افراط زر، روزگار، کھپت اور بیرونی تجارت کے اہداف شامل ہوتے ہیں۔
گزشتہ سال، چین کی معیشت نے دنیا میں وبا کی مختلف لہروں کے باعث ایک پیچیدہ بیرونی ماحول کے باوجود ایک مضبوط بحالی دیکھی اور اس کی جی ڈی پی 8.1 فیصد اضافے سے بڑھ کر 114.37 ٹریلین یوآن (تقریباً 18 ٹریلین امریکی ڈالر) تک پہنچ چکی ہے۔یہی وجہ ہے کہ انہی معاشی کامیابیوں کے ثمرات کو آگے بڑھاتے ہوئے حکومتی ورک رپورٹ میں رواں سال کے لیے اعلٰی معیار کی ترقی کو فروغ دینے، اعلیٰ سطح کے کھلے پن کو آگے بڑھانے، دیہی زندگی کو فروغ دینے اور لوگوں کی فلاح و بہبود کو بہتر بنانے کے کلیدی امور کا خاکہ پیش کرنے کی توقع ہے۔ملک کی مالیاتی اور مانیٹری پالیسیاں بھی ایجنڈے میں نمایاں ہوں گی، کیونکہ بڑی عالمی تنظیموں نے اس سال کی عالمی نمو کے لیے پیش گوئیوں کو گھٹا دیا ہے اور مہنگائی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے خبردار کیا ہے۔
اسی طرح ملک کے اعلیٰ ترین طاقتور ادارے کے طور پر، این پی سی مختلف افعال اور اختیارات کا استعمال کرتی ہے جس میں قوانین کا نفاز اور ان میں ترامیم وغیرہ بھی شامل ہیں۔اس اجلاس کے دوران قانون ساز مقامی عوامی کانگریسوں اور مقامی عوامی حکومتوں کے نامیاتی قانون میں ترمیم کے مسودے کا جائزہ لیں گے۔1979 میں اپنایا گیا یہ قانون اپنی چھٹی ترمیم سے گزرے گا، جس میں عوام پر مبنی ترقی کے فلسفے اور ہمہ گیر عوامی جمہوری عمل کو اجاگر کیا گیا ہے۔
اسی طرح یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ قانون ساز اور سیاسی مشیر ، بالخصوص سائنس و ٹیکنالوجی سے وابستہ شخصیات "سائنس ٹیک” کے شعبے میں چین کی طاقت اور اس کی اختراعی صلاحیت کو تقویت دینے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کریں گے، جو ملک کی اعلیٰ معیار کی ترقی میں معاون ثابت ہوں گے۔چین کی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے مطابق، 2021 میں ملک میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی مجموعی سرمایہ کاری 2.79 ٹریلین یوآن تک پہنچ چکی ہے جس میں سالانہ بنیادوں پر اضافے کا تناسب 14.2 فیصد ہے۔دریں اثنا، چین کی مجموعی اختراعی صلاحیت عالمی درجہ بندی میں 12ویں نمبر پر آ چکی ہے، جس نے 14ویں پانچ سالہ منصوبہ (2021-2025) کے لیے بہترین آغاز فراہم کیا ہے۔
مذکورہ دو سالانہ اجلاس اس لحاظ سے بھی اہم ہیں کہ چین نے2030 سے قبل کاربن پیک اور اور 2060 سے قبل کاربن نیو ٹرل کے اہداف طے کیے ہیں لہذا اس اہم سیاسی سرگرمی کے دوران ایسے اقدامات کا تعین متوقع ہے جن کی بدولت ترقی اور تخفیف کاربن کے درمیان ربط سے مناسب طور پر نمٹا جائے گا۔تخفیف کاربن کو یقینی بناتے ہوئے توانائی کا تحفظ، صنعتی اور سپلائی چین کی حفاظت اور فوڈ سیکیورٹی کے ساتھ ساتھ لوگوں کی معمول کی زندگی کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں کی جائیں گی۔چین ویسے بھی کوشاں ہے کہ ہائی ٹیک سیکٹر کو وسعت دینے اور صنعت کی ڈیجیٹل اور سمارٹ تبدیلی کو فروغ دیتے ہوئے اعلیٰ معیار کی ترقی کی جانب بڑھا جائے۔
دو اجلاسوں کے دوران یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ چین رواں سال فیسوں اور ٹیکسوں میں کمی کے لیے مزید درست اور پائیدار اقدامات کرے گا تاکہ مارکیٹ اداروں کی مدد کی جا سکے اور کاروباری ماحول کو بہتر بنایا جا سکے۔ چین نے اپنے 13ویں پانچ سالہ منصوبے (2016-2020) کے دوران 7.6 ٹریلین یوآن ٹیکس اور فیس میں کٹوتیوں کی بنیاد پر، 2021 میں ٹیکسوں اور فیسوں میں مزید 01 ٹریلین یوآن کی کمی کی تھی، جس سے مارکیٹ پر کووڈ۔19کے منفی اثرات کو کم کرنے میں نمایاں مدد ملی۔چین رواں سال بھی 11 ترجیحی ٹیکس اور فیس پالیسیوں پر عمل درآمد جاری رکھے گا، جن میں سائنس اور ٹیکنالوجی، روزگار اور کاروبار کے آغاز، طبی دیکھ بھال اور تعلیم وغیرہ شامل ہیں جبکہ مالیات، مالیاتی اور صنعتی پالیسیوں کے ساتھ ٹیکس اور فیس میں کمی کو مربوط کرنے پر بھی توجہ مرکوز کی جائے گی۔ دوسری جانب چین کے حالیہ دو اجلاس ایسے وقت میں منعقد ہو رہے ہیں جب دنیا کووڈ۔19 سمیت روس۔یوکرین تنازعہ اور دیگر مسائل کے سبب ایک ہنگامہ خیز تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے۔ایسے میں چین کی اس سب سے بڑی سیاسی سرگرمی کی عالمی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے اور دنیا کی توقعات بھی چین سے وابستہ ہیں۔