چینکالم

گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو کی عالمی حمایت

شاہد افراز خان ،بیجنگ

چین کی جانب سے گزشتہ ستمبر میں پیش کیے جانے کے بعد سے گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو (جی ڈی آئی) کو اقوام متحدہ اور تقریباً 100 ممالک کی جانب سے فوری مثبت ردعمل اور حمایت حاصل ہوئی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہی ہے کہ چونکہ کووڈ۔19کے باعث عالمی ترقی کے عمل کو شدید دھچکا لگا ہے، ایسے میں چین بین الاقوامی برادری کی رہنمائی کا فریضہ سر انجام دے رہا ہے تاکہ دنیا ترقی پر توجہ مرکوز کر سکے اور ترقیاتی عمل کو دوبارہ فروغ دیا جا سکے۔

گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو ساتھ ہی چین دنیا سے بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر سے یکساں طور پر آگے بڑھنے کا مطالبہ کر رہا ہے تاکہ دنیا کا کوئی بھی ملک ،خطہ یا عوام عالمگیریت کے اس دور میں ترقی کے سفر میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ اس اہم تاریخی موڑ پر یہ چین کی جانب سے ایک بڑے ملک کی ذمہ داری کا احساس ہے۔جی ڈی آئی کا وسیع اور فوری ردعمل اس حقیقت کا غماز  ہے کہ یہ بین الاقوامی برادری اور دنیا بھر کے لوگوں کے مشترکہ توقعات کی عمدہ ترجمانی کرتا ہے کہ خود کو جدید دور کے ترقیاتی تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے  اجتماعیت کی بات کی جائے ،مشرکہ ترقی کو پروان چڑھایا جائے اور ایک ساتھ مل کر ایک خوبصورت اور ترقی یافتہ دنیا کی تشکیل کی جائے.

یہ امر تشویشناک ہے کہ کووڈ۔19 میں آنے والے تغیرات کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور ایسا  30 سالوں میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ انسانی ترقیاتی انڈیکس میں گراوٹ آئی ہے۔ وبائی صورتحال کے نتیجے میں، تقریباً 100 ملین اضافی لوگ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں اور 800 ملین سے زیادہ بھوک کا شکار ہیں۔ایسے میں عالمی ترقی مزید غیر مساوی اور غیر متوازن ہوتی جا رہی ہے، جس کے لیے بین الاقوامی برادری کی جانب سے ترقیاتی خلیج کو کم کرنے کی خاطر فوری اقدام کی ضرورت ہے۔

چینی صدر شی جن پھنگ کی جانب سے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے بعد تجویز کردہ ایک اور بڑے اقدام کے طور پر، گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو عالمی ترقیاتی تعاون کے لیے دنیا کو "دوبارہ متحرک” کر رہا ہے اور انسانی حقوق کے لیے عوام پر مبنی نقطہ نظر کی "دوبارہ تصدیق” کا علمبردار ہے۔یہ اقدام شمال۔جنوب خلیج اور ترقی کے عدم توازن کو دور کرنے میں انتہائی معاون ہے جس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے پائیدار ترقی کے 2030 ایجنڈے کی تکمیل میں بھی نمایاں مدد ملے گی۔چین کے کامیاب تجربات اور کرشماتی ترقی کی وجہ سے دنیا کی دلچسپی بھی جی ڈی آئی میں مزید  بڑھتی چلی جا ہے۔دنیا نے دیکھا ہے کہ کیسے چین نے 1978 میں اصلاحات اور کھلے پن کا آغاز کیا، اس کے بعد سے اقتصادی ترقی کو ہمیشہ ایک اہم محرک کے طور پر لیا گیا ہے اور قابل ذکر ترقی حاصل کی گئی ہے۔چین کی اعلیٰ قیادت عوام پر مبنی ترقی کے فلسفے پر عمل پیرا ہے اور چینی عوام کے خوشی، اطمینان اور تحفظ کے احساس کو مسلسل بڑھا رہی ہے۔ اعلیٰ معیار کی اقتصادی ترقی کی پیروی کرتے ہوئے اس وقت چین ایک نئے ترقیاتی تصور پر عمل پیرا  ہے جس میں اختراعی، مربوط، سبز، کھلی اور مشترکہ ترقی کو نمایاں اہمیت حاصل ہے۔چین نے غربت کا مکمل خاتمہ کیا ہے اور  مقررہ اہداف کے مطابق ایک جامع معتدل خوشحال معاشرہ تشکیل دیا ہے جس نے اسے باقی دنیا کے لیے ایک کامیاب مثال بنا دیا ہے۔انہی کامیابیوں کی روشنی میں ترقی کو ترجیح دیتے ہوئے اور عوام پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو جامع اور جدت پر مبنی ترقی، انسانیت اور فطرت کی ہم آہنگ بقائے باہمی، اور ٹھوس نتائج پر مبنی اقدامات کے لیے پرعزم ہے۔ اسے مخصوص چینی خصوصیات کا حامل ایک ایسا قابل تقلید نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے جو دنیا کے سامنے ایک جانب جہاں چین کے ایک معتدل خوشحال معاشرے کی تعمیر کے کامیاب تجربے کی وضاحت کرتا ہے وہاں دوسری جانب عالمی ترقی کو مزید جامع اور متوازن بنائے گا۔

چین ہمیشہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ حقیقی ترقی وہی ہے جو سب کی دسترس میں ہو ، اور تمام ممالک کو عالمی ترقی میں شمولیت سے اپنا حصہ ڈالتے ہوئے  اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ترقیاتی ثمرات کو محض چند  ممالک یا خطے تک محدود نہیں ہونا چاہیے ، یہی وجہ ہے کہ جب سے گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو تجویز کیا گیا ہے اُس وقت سے اسے ایک عوامی پروڈکٹ کا درجہ حاصل ہے جو دنیا کے لیے کھلا ہے۔ اس کا مقصد اقوام متحدہ کے 2030 کے پائیدار ترقی کے ایجنڈے کے نفاذ کو تیز کرنا، دنیا کی مشترکہ ترقی کو آگے بڑھانا اور عالمی ترقی کو مزید متوازن، مربوط اور جامع بنانا ہے ، یہی وہ سوچ ہے جس میں آج دنیا کو درپیش مسائل کا حل پنہاں ہے .

Leave a Reply

Back to top button