شاہد افراز خان ،بیجنگ
اس وقت مشرقی چین کے صوبہ آنہوئی کے شہر تونشی میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کا تیسرا اجلاس چین کی میزبانی میں منعقد ہو رہا ہے۔
اس اجلاس کی خاص بات چین سمیت پاکستان، ایران، روس، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ یا ان کے نمائندوں کی شرکت ہے۔ مبصرین کے نزدیک اس اجلاس سے امور افغانستان کے حوالے سے ہمسایہ ممالک کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے میں مدد ملے گی، ملک میں استحکام کو فروغ دینے اور افغان عوام کی حمایت کے بارے میں مثبت بات چیت ممکن ہو سکے گی۔یہ بات قابل زکر ہے کہ پاکستان نے افغان طالبان کی جانب سے کابل میں عبوری حکومت کے قیام کے اعلان کے ایک دن بعد 8 ستمبر 2021 کو افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کے پہلے اجلاس کی صدارت کی تھی ۔ دوسرا اجلاس 27 اکتوبر 2021 کو ایران کے دارالحکومت تہران میں منعقد ہوا تھا۔
چین میں جاری حالیہ تیسرے اجلاس کے دوران چینی وزیر خارجہ وانگ ای ، متعلقہ وزرائے خارجہ اور افغان عبوری حکومت کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کے درمیان مذاکرات کی میزبانی بھی کر رہے ہیں جس میں انڈونیشیا اور قطر کے وزرائے خارجہ کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ چین کی جانب سےان کوششوں کا مقصد یہی ہے کہ افغان فریق کو ایک کھلے اور جامع سیاسی ڈھانچے کی تعمیر، ایک اعتدال پسند اور مستحکم ملکی اور خارجہ پالیسی کو آگے بڑھانے اور دہشت گردی کے خلاف مؤثر اقدامات میں مدد ملے۔چین نے بین الاقوامی برادری سے بھی یہ توقع ظاہر کی ہے کہ وہ افغانستان کو زیادہ سے زیادہ مدد فراہم کرے اور امریکہ پر بھی ہمیشہ زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں اقتصادی تعمیر نو کی بنیادی ذمہ داری مؤثر طریقے سے ادا کرے۔
چینی وزیر خارجہ نے ابھی حال ہی میں افغانستان کا دورہ بھی کیا ہے جو افغان عبوری حکومت کے قیام کے بعد سے کسی اعلیٰ سطحی چینی عہدیدار کا پہلا دورہ بھی ہے۔انہوں نے کابل میں افغان عبوری حکومت کے قائم مقام نائب وزیراعظم ملا برادر اور قائم مقام وزیرخارجہ امیر خان متقی سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور چین کے موقف کا اظہار کیا۔ چین نے ہمیشہ یہ موقف اپنایا ہے کہ چین اور افغانستان دوست ممالک ہیں۔چین ،افغانستان کی آزادی ، قومی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے، افغان عوام کے آزاد انتخاب کے حق اور افغانستان میں مذہبی وقومی رسوم و رواج کا احترام کرتا ہے۔ چین نے کبھی افغانستان کے داخلی امور میں مداخلت نہیں کی، کبھی ذاتی مفادات کو سامنے نہیں رکھا اور نہ ہی کسی قسم کے نام نہاد "اثر و رسوخ کا دائرہ” قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ چین چاہتا ہے کہ پرامن بقائے باہمی کے پانچ اصولوں کی بنیاد پر افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیں اور حقیقی آزادی اور آزادانہ ترقیاتی عمل کے لیےافغانستان کی مدد کی جائے ۔
اس ضمن میں چین کے عملی اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ افغانستان کی پرامن تعمیر نو کے لیے فعال طور پر کام کر رہا ہے اور پر امید ہے کہ جنگ زدہ ملک جلد از جلد بہتر ہو جائے گا۔ چین نے اس سے قبل بھی افغانستان کی پرامن تعمیر نو کے لیے اپنی استعداد کے مطابق ہمیشہ کردار ادا کیا ہے۔ گزشتہ سال، چین کے اعلیٰ رہنماؤں نے افغانستان کے بارے میں ایس سی او اورسی ایس ٹی او کے رکن ممالک کے رہنماؤں کے مشترکہ سربراہی اجلاس میں شرکت کی ، چین نے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بھی دو مرتبہ شرکت کی ہے اور افغان عبوری حکومت کے سربراہ سے چین کے شہر تھیان جن اور قطری دارالحکومت دوحہ میں ملاقاتیں کی ہیں۔اسی طرح افغانستان کو 50 ملین ڈالرز سے زائد مالیت کی خوراک، ادویات، موسم سرما کا سامان اور دیگر امداد فراہم کرنے سے لے کر افغان چلغوزے کی درآمد کے لیے 36 چارٹرڈ پروازوں کے انتظامات تک جس سےافغانستان کو 22 ملین ڈالر سے زائد کی آمدن ہوئی، چین عملی اقدامات کے تحت افغان عوام کی ہر ممکن مدد کر رہا ہے۔
افغان شہری اکثر یہ جملہ کہتے ہیں کہ "چین واحد بڑا ملک ہے جس نے افغانستان کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا” یہ جذبات چین اور افغانستان کے درمیان طویل المدتی دوستی کی حقیقی منظر کشی ہیں۔ ایک قریبی پڑوسی ہونے کے ناطے، چین کا موقف ہے کہ افغانوں کا مستقبل خود اُن کے اپنے ہاتھوں میں ہونا چاہیے ، اور کسی بھی بیرونی طاقت کو افغانستان کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کا چین میں منعقد ہونے والا تیسرا اجلاس ایک بار پھر گواہی دے گا کہ چین ایک مخلص دوست ہے جو افغانستان میں بہتر ی کی امید رکھتا ہے، اور چین ہمیشہ عالمی امن کو برقرار رکھنے کی ایک طاقتور قوت ہے۔چین کی ہر ممکن کوشش ہے کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کے تیسرے اجلاس سے ایک مثبت پیغام دیا جا ئے، مزید اتفاق رائے کا حصول ممکن ہو سکے اور علاقائی ممالک اور بین الاقوامی برادری کو افغانستان کی پرامن تعمیر نو کے لیے تعاون بڑھانے کی ترغیب دی جا سکے، ان کوششوں میں پاکستان بھی چین کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور افغان عوام کی فلاح و بہبود کے مقصد کے تحت دونوں ملک تعمیری کردار ادا کر رہے ہیں۔