کالم

ہمارے گاؤں کا لوہار اب درانتیاں بنا کے بیچتا نہیں

علی عادل اعوان
Ali Adilیہ ابھی دو ہزار پانچ کی بات ہے جب گاؤں کی اکثریت گندم کی فصل درانتیوں سے کاٹا کرتی تھی اور بہت بڑے جاگیر داروں اور زمینداروں کے یہاں ہی ٹریکٹر کے آگے بلیڈ لگا کر گندم کاٹی جاتی تھی اور وہ بھی اس کے بعد دنوں تک زمین پر بچھی کندم اٹھا اٹھا کر گٹھیاں بناتے رہتے تھے جو کہ گندم کاٹنے جیسا ہی کام تھا۔
اسی اخیر جان جوکھم والے دور کی بات ہے جب میں بھی گندم کی کٹائی کے دنوں میں گاؤں گیا ہوا تھا۔ میرا کام اس وقت اپنے ماموں زاد چھوٹے بھائی حامد کو اٹھا کر دن بھر کھلانا اسکو گندم کے کھیت سے گھر اور گھر سے گندم کے کھیت ماں کا دیدار کروانے کی ڈیوٹی نبھانا تھا۔ یہ کام تو میں دن میں کئی بار کرتا تھا اس طرح دو طرفہ قریباً ایک کلومیٹر کی واک بہت بار ہو جاتی تھی اس پر گندم کٹنے کے دوران ہونے والی مامؤوں مامیوں اور کزنوں کی بحثیں بہت خوب تڑکہ لگاتی تھیں۔۔۔ بڑے اُس وقت بتاتے تھے کہ انکے بچپن میں گندم ڈھول ہی تھاپ پر کٹتی تھی اور ہم اُس وقت کو سوچ کر مزے لیا کرتے تھے۔۔۔ دوسرے تیسرے دن مجھے بھی گندم کاٹنے کا شوق ہوا تو نانا مرحوم نے اپنی الٹے ہاتھ کی درانتی مجھے تھمائی کہ میں بھی انکی طرح الٹے ہاتھ کا کھلاڑی تھا۔ اس شوق سے پوری رات نہ سویا اور درانتی کو سرہانے رکھا اور صبح مامؤوں اور کزنوں کے ساتھ سفید صافہ سر پر باندھ کر کھیت میں اترا۔۔۔ کچھ نوجوانی کا جوش تھا اور کچھ کزنوں کے ساتھ مقابلے کا ولولہ تھا کہ دن کی روٹی کے وقت تک گندم کاٹتا رہا۔۔۔ اس کے بعد تھک بھی گیا کہ شہری بابو تھا اور گرمی بھی کام دکھا گئی تو وہیں کھیت کنارے کیکر کی چھاؤں میں تندور کی روٹیاں چٹنی اورلسی سے پیٹ بھر کر پڑ رہا۔۔۔ اب شام کو نانا نے چَھنّے میں دیسی گھی ڈلوایا اور روٹی کی چُوری بنا کر کہا کہ اگر کل گندم کاٹنی ہے تو یہ کھاؤ۔۔۔ ہم برگر بچوں کو دیسی گھی کی مہک سے ابکائی آتی تھی سو نہ کھا پائے۔۔۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اگلی صبح سورج نے جوبن دکھانا شروع کیا تھا کہ چکرا کر کھیت میں الٹے ہو گئے۔۔۔ اُس شام دیسی گھی کے ایف سی کے برگر سے زیادہ لزیز تھا۔۔۔
میاں اب زمانے نے کروٹ لی ہے تو اکثر لوگ زمینیں بیچ کر شہر اقتدار یا تو منتقل ہو گئے ہیں یا ادھر کوٹھیاں بنا کر رینٹ پر ڈال دی ہیں اور بیٹھ کر کھاتے ہیں۔۔۔ صحیح کرتے ہیں بھائی انکا بھی آرام کا حق ہے کہ نسلوں نے پسینے بہائے ہیں۔۔۔
بیٹھ کر کھانے سے توندیں نکلی جاتی ہیں اور گوڈے گٹے جواب دیئے جاتے ہیں کہ "میاں ہم سے نہ ہو پائے گا”۔۔۔ اب جب ہائے ہائے کرتے ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہیں تو چہل قدمی اور ورزشوں کے مشورے پاتے ہیں۔۔۔ جم میں داخلے لیتے ہیں، پسینے بہاتے ہیں اور برگروں سے پرہیز کر کر کے ہائی جینک خوراکوں پر آتے ہیں اور بران بریڈ کھاتے ہیں جب کہیں 118 کلو سے کم ہو کر 104 پر آتے ہیں تو سٹیٹس لگا لگا کر دنیا کو اپنے کارنامے سنا کر خبروں میں جگہ پاتے ہیں۔۔۔
اور ہاں بقول علی اکبر ناطق
"ہمارے گاؤں کا لوہار اب درانتیاں بنا کے بیچتا نہیں”

یہ بھی پڑھیے

محرم الحرام کی سبیل اور میری انگوٹھی والی انگلی

تارا ری ری رُوووو را

ایک تبصرہ

  1. عادل بھائی
    کیا سنہری دور یاد کروادیا، میرے جس گاؤں سے تعلق ہے وہاں پر اب بھی گندم ہاتھ سے کاٹی جاتی ہے، ہاں بڑے زمیندار شاید اب مشین استعمال کرتے ہونگے، تھریشر بھی ہمارے زمانے میں آیا۔
    درانتی سے یاد آیا کہ ایک دور بار درانتی کو میں نے خود تیز کیا تھا، میرے والد لوہار تھے اب بھی وہ کام کرتے ہیں مگر بہت کم۔
    میں بچپن میں خود بھی درانتی سے گند کاٹتا تھا، تھوڑا سا کام چور تھا سو اکثر جب مقابلہ ہوتا تو میں پیچھے رہ جاتا اور چھوٹے بھائیوں سے سبقی کا سامنہ کرنا پڑتا، اسی طرح دھان اور جوار کی فصل بھی درانتی سے کاٹی ہے۔
    گندم کی کٹائی کے وقت ریڈیو میرے ساتھ ہوتا تھا۔ آپ نے شاندار ماضی یاد کروادیا، گاؤں کی زندگی اب بھی خوبصورت ہے۔

Leave a Reply

Back to top button