کالم

عظیم لوگ

مقصودہ سولنگی

زندگی کی تیزی میں ہم اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ کبھی کبھی آس پاس غیر معمولی چیزوں پر بھی توجہ نہیں دے پاتے خاص طور پر جب وہ آپ کی معمولات زندگی میں شامل ہو۔لیکن فطرت آپ کو اس کا احساس دلاکر ہی رہتی ہے۔ کچھ ایسا ہی میرے ساتھ بھی ہوا۔ میں اسی اسکول میں جاب کرتی ہوں جہاں میری دو بیٹیاں پڑھتی ہیں۔ (ہمارا اسکول ایک بے حد غیر معمولی جگہ ہے۔ جس کے بارے میں تفصیل کے ساتھ بات اگلے بلاگ میں)۔
اس دن اسلام آباد میں بلا کی گرمی تھی اور میری گاڑی کا اے سی کام نہیں کر رہا تھا، اس لیے کوشش تھی کہ جلد از جلد جہنم بنی گاڑی سے نکلیں۔ میرا گھراور اسکول مشکل سے ۱۰ منٹ کی ڈرائیو کی دوری پر ہیں۔ مگر گرمی کی شدت اوپر سے گھر پر مہمانوں کی آمد تھی،اسلیے میں جلدی میں تھی۔ جیسے ہی میں اور میرے بچے گاڑی میں بیٹھے ہمیں بلی کی آواز آنے لگی۔ میائوں میائوں۔۔۔۔۔۔

دن کے پونے ۳ بجے کا وقت تھا گاڑی دھوپ میں گھڑی رہنے کی وجہ سے بے حد گرم ہو چکی تھی بحرحال میں نے پاس کھڑے ہمارے گارڈ فرید بھائی کو کہا کہ آپ اس کو باہر نکالیں ایسا نہ ہو وہ ٹائر کے نیچے آجائے۔ میں بتاتی چلوں کہ فرید بھائی اور ان کی بیگم ہمارے اسکول اور بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اوراس وقت ان کی چھٹی ہو چکی تھی۔ (یہ خاندان ہمارے اسکول کی عمارت میں ہی رہائش پذیر ہے۔ جس وقت یہ واقعہ پیش آیا ان کی بیگم دوپہرکا کھانا گرم کرکے ان کوکھانے پر بلا رہی تھی۔) ادھرفرید بھائی نے کہا وہ گاڑی کے اندر ہے اور بلی کا چھوٹا بچہ ہے۔ جیسے ہی انہونے ہاتھ بڑھا کراس کو پکڑنا چاہا وہ معصوم ڈرکے مارے گاڑی کے ٹوٹے ہوئے بورڈ سے اور اندرچلا گیا۔ میں نے بچوں کو واپس اسکول کے اندر بھیج دیا۔ ہم نے گاڑی کا اگلا بانیٹ کھولا وہ ٹھیک گاڑی کے ٹائر کے ایکسل پر بیٹھا ہوا تھا۔ جیسے ہی گاڑی کا پہیا ہلتا وہ معصوم کچلا جاتا۔
اب ہم پریشان ہو گئے۔ میں نے فرید بھائی سے کہا آپ جاکر کھانا کھا لیں۔ انہونے کہا میں اس کو ایسے کیسے چھوڑ دوں یہ مر جائے گا۔ وہ اپنی گاڑی سے جاکرسامان لے آئے انہونے گاڑی کو جیک پر اوپر اٹھایا۔ اتنے میں ان کی بیگم بھی آگئی۔ فرید بھائی کو جھجھا دیکھ انہونے خود ہاتھ اندر ڈال کرنکالنے کی کوشش کی لیکن بلی تک ان کا ہاتھ بھی نہ جا سکا۔ فرید بھائی نے اندر جھانک کردیکھا۔اب یہ عالم تھا کہ ٹھیک سے نظر بھی نہیں آ رہا تھا۔ کبھی ان کی بیگم سامنے سے پکڑنے کی کوشش کرتی کبھی فرید بھائی ہر طرح سے کوشش کرکے دیکھ لی لیکن وہ نکلتا کیا اسے تو اور ڈر لگ رہا تھا۔ اس کوشش میں ہمیں ادھا گھنٹا لگ گیا لیکن ہم کامیاب نہ ہو سکے۔ مجھے کہا گیا کہ کوئی باریک اسٹک لیکرآئیں۔ میں اندر گئی جب تک سٹک ملی اسی اثنا میں پتہ چلا کہ فرید بھائی گاڑی کے اندر جا کربلی کے بچے کونکال کر لے آئے تھے۔ اس طرح یہ جوڑا اس چھوٹے سے بلی کے بچے کی جان بچانے میں کامیاب ہوگیا۔
میں سوچتی ہوں کیا تھا اگر فرید بھائی کھانا کھانے چلے جاتے؟ کیا تھا اگران کی بیگم ناراض ہو جاتیں کہ وہ کھانا چھوڑ کر فرید بھائی کولینے آئی تھیں۔ ایک بلی کا چھوٹا سا بچہ ہی تو تھا! ہمارے ہاں لوگوں کی جان سستی ہو گئی ہے اور یہ تو گلی کی ایک بلی تھی۔ لیکن یہ وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے بیشمار لوگوں کی زندگیوں میں سکون ہے اور ایسے لوگ پرواہ کرتے ہیں۔ چاہے پھر بلی کا بچہ ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے لوگ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہیں، اگر آپ کی زندگی میں بھی ایسے بے لوس لوگ ہیں تو ان کی قدر کریں۔ جن کی وجہ سے آپ بے حد محفوظ ہیں۔ کیونکہ ایسے لوگ نہ فقط جانیں بچاتے ہیں بلکہ مجھے تو ایک گناہ سے بھی بچا لیا تھا۔
فرید بھائی اوران کی بیگم اسکول میں ہروقت ہمارے سامنے مصروف عمل رہتے ہیں لیکن ان کی موجودگی سے ہماری زندگیاں کتنی آسان ہیں اس بات کے ادراک کے لیے فطرت نے مجھے یہ واقعہ دکھایا۔

فرید بھائی شدید دھوپ میں گیٹ پر موجود رہتے ہیں اور ان کی بیگم اسکول، بچوں اور عمارت سمیت ہر چیز کو صاف رکھتی ہیں۔ میں نے اپنے ڈھائی سالہ اسکول کی مدت میں اسکول کی دیکھ بھال میں کبھی کوئی کمی نہیں دیکھی۔ اس کی در و دیوار ایسی کی اجلی ہے جیسی میری آمد کے پہلے دن تھی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہماری زندگیوں کی دراصل ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں ہر کام اور پیشے کو ایک خاص نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں روزانہ شدید قسم کا انتشار ہر وقت دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایسی خبروں سے اخبارات بھرے ہوئے ہیں فکر کی بات یہ ہے کہ ایسے معمولات میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔

ہمارے ملک میں بے شمار ایسے لوگ ہیں۔ جو عبدالستارایدھی کے بڑے مداح ہیں جو کہ ایک اچھی بات ہے لیکن کتنے ایسے لوگ ہیں جو ان کے کسی ایک عمل کو اپنانا چاہتے ہیں؟
وطن عزیز میں تعلیم سے لیکر روزگار اور پیشے تک کو طبقاتی خانوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ آج بھی جب ہم سینیٹری ورکرز کا اشتہار دیکھتے ہیں تواہلیت کے معیارکے لیے صاف صاف لکھا ہوا ہوتا ہے کہ صرف ہندواورکرسچن کے لیے ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ ہم میں سے کتنے لوگ اپنے بچوں کو بتاتے ہیں کہ جو گند آپ نے کیا ہے اسے صاف کرنا بھی آپ لوگوں کی اپنی ذمہ داری ہے۔ ایسی غلط روش کی وجہ سے معاشرے کا عالم یہ ہے کہ اگر کوئی انسان عام روش سے ہٹ کر کوئی ایسا عمل کرے تو اکثریت اس کی ذہنی اور شعوری نشونما پر شک کرتی نطر آتی ہے۔
میں اپنے آپ کو بے حد خوش نصیب سمجھتی ہوں کہ میرا تعلق ایسے ادارے اور لوگوں سے ہے جو دراصل انسانیت سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے اسکول میں بچوں کی تربیت کرنے والے اسٹاف میں سے ایک تھیراپسٹ ہیں۔وہ کلینیکل سائیکولوجی میں بی ایس آنرس کی ڈگری رکھتے ہیں۔ لیکن اسکول کے جتنے بھی جوان لڑکے ہیں ان کی صفائی وہ خود کرتے ہیں اور واشروم وہ خود لے کر جاتے ہیں۔ اسی طرح فرید بھائی اوران کی بیگم بے حد باشعور لوگ ہیں۔

انہی جیسے لوگ واقعی انسان دوست شخصیات ہیں۔ اوریہی لوگ ایدھی صاحب کے عملی پیروکار لگتے ہیں۔ انسان اگردرست تعلیم یافتہ ہو تو علم آپ کو انسانیت کے لیے بہت بڑی راحت بنا لیتا ہے۔
ہم نے پالیسی کی سطح سے ہی نہ جانے کب سے تعلیم کواخلاقی تربیت سے الگ کر کے رکھا ہوا ہے۔ہم میں سے اکثریت بچوں کو یہ سکھاتی ہے کہ آپ کو بڑے ہو کرکون سی نوکری کرنی ہے جس سے خوب پیسا کمایا جا سکے۔ ہم ان کو یہ نہیں بتاتے کہ آپ کو اپنی تربیت کرنی ہے اس لیے تعلیم حاصل کریں۔ ان کو یہ نہیں بتاتے کہ آپ جوکھانا کھا رہے ہیں اس میں کتنے لوگوں کی جدوجہد شامل ہے۔ جس کمرے یا گھر میں آپ رہتے ہیں، جو کپڑے آپ نے پہن کر میلے کیے ہیں، جن برتنوں میں آپ نے کھانا کھایا ہے، ان کی صفائی بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔اور یہ بھی کہ نہ فقط چیزیں بلکہ ہزاروں لوگ ہماری زندگیوں میں اللہ کی نعمتوں میں سے ایک ہیں اور یہ کہ ہم سب انسان برابر ہیں کوئی دولت اور سہولیات کی وجہ سے کسی کم دولتمند سے برتر نہیں ہے۔

ہمیں ایسے تعلیمی نظام کی اشد ضرورت ہے جس میں بچوں کی تعلیم اور تربیت ساتھ ساتھ ہو کیوں کہ اسی طرح ایک ذمہ دار معاشرے کی تشکیل عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ میری دعا ہے کہ ہماری نسلیں ایسے تعلیمی نظام سے مستفید ہوں،جانے ہمارے ہاں ایسا نظام کب رائج ہوگا؟

جاتے جاتے ان سے ملاقات کرلیں یہ ہماری گاڑی میں گس گئے تھے۔

بلی جو گاڑی میں گھس گئی تھی

ایک تبصرہ

  1. جتنا پیسہ اس ملک میں سرکاری ملازمین بھی خرچ کیا جاتا ہے، اس کا آدھا بھی اگر تعلیم و تربیت پر کیا جاتا تو آج اس ملک کی قسمت نوکروں کے ہاتھ میں نہ ہوتی۔

Leave a Reply

Back to top button