اکیڈمیکالم

پاکستان میں online earning کا رجحان: اصل حقیت

Hasnain Ali Jamal

حسنین علی جمال
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں اس وقت %75 فیصد آبادی سولہ سے چالیس سال تک کے لوگوں کی ہے۔ جو روایتی ذریعہ معاش کے علاوہ online earning کو بھی ترجیح دیتے ہیں اور اپنا بے پناہ قیمتی وقت انٹرنیٹ پر ریسرچ کرتے ہوئے لگا دیتے ہیں کہ یہ ممکن کیسے ہوگا۔ اس میں وہ کونسے علوم ہیں یا سکلز ہیں جن کے استعمال سے وہ بھی ایک اچھی کمائی کر سکتے ہیں۔ اس میں سر فہرست سوفٹ ویر پروگرامنگ ہیں۔ اگر آپ ایک اچھے کوڈنگ expert ہیں تو آپ کے لیے آن لائن بہت سے مواقع ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں کاروبار کو ڈیجٹل کیا جارہا ہے تاکہ نفع نقصان سے متعلق اعدادوشمار فوری حاصل کیے جاسکیں۔ اس کے بعد اگر آپ ایک اچھے تخلیق کار یا گرافک ڈزانیر ہیں تو تب بھی آپ کو دنیا کے کسی بھی حصے سے کام مل سکتا ہے اور آپ ایک اچھی کمائی کر سکتے ہیں۔ کاپی رائٹنگ یہ ایک ایسا سکل ہے جس کی ضرورت ہر ایک کمپنی کو ہوتی ہے۔ کاپی رائٹر کمپنی یا اسکی کوئی بھی پروڈکٹ یا پھر اشتہار کے لیے ایسا تخلیقی مواد لکھ کر دیتا ہے جس دیکھنے یا پڑھنے والے کو اس پروڈکٹ میں مزید دلچسپی پیدا ہو۔ اس کے علاوہ بہت سے نوجوان یو ٹیوب اپنا چینل بنا کر ماہانہ ہزاروں سے لاکھوں کما رہے ہیں۔ یوٹیوب پر کام کرنے کے لیے آپ کو کسی کو ایک پیسہ نہیں دینا بلکہ روزانہ کی بنیاد پر اپنے من پسند موضوع پر کم ازکم ایک ویڈیو اپلوڈ کرنی ہے پانچ منٹ یا اس سے زیادہ کی۔ اسکے بعد آج کل خواتین اور معذور افراد فیس بک پر اپنا شاپنگ سٹور بناتے ہیں بلکل مفت اور اس پر اپنی پروڈاکٹس اپلوڈ کرتے جیسے کہ کپڑے، جوتے، ہینڈ بیگز ، جیولری، موبائل فونز، مقامی مشہور پکوان اور بہت کچھ۔ اس وقت فیس بک کی مارکیٹ پلیس بھی کافی مشہور ہے جس پر لوگ اپنی نئی اور استعمال شدہ پروڈاکٹ بیچتے ہیں۔ آنلائن ارنینگ میں ٹائپینگ، ڈیٹاکاپی، وائس اور آٹسٹ، ڈیجیٹل مارکٹنگ اور ویب سائٹ بنانا اس طرح کے کئی کام کے مواقع موجود ہیں لیکن اس کے لیے آپ کو ان کی بنیادی ٹرینگ لینا ضروری ہے۔
اس امر میں یہ بات بھی نظر میں رکھنا ضروری ہے کہ آن لائن ارنینگ کے نام پر کسی کو تب تک پیسے نہ دیں جب تک وہ خود اس فیلڈ میں اپنا لوہا نہ منوا چکا ہو۔ لوگ مختلف قسم کے کورسس بتا کر خواتین اور اور کم عمر نوجوانوں سے فیس کی آڑ میں رقم تو لے لیتے ہیں مگر کام سوائے بنیادی تعارف کے کچھ بھی نہیں سکھاتے اور اسطرح عوام الناس میں مزید بے یقینی بڑھتی ہے۔

Leave a Reply

Back to top button