بلاگ

وہ میرا بیج میٹ تھا

راوی۔۔غلام مرتضی
تحریر۔۔بابرشیراز
محکمے میں آتے ہی ہم دوست بن گئے تھے۔ٹریننگ پوری ہوئی تو میرا تبادلہ خفیہ برانچ میں بطورِ کمپیوٹر آپریٹر ہوگیا اور وہ کسی دوسرے سٹیشن پر , جنرل ڈیوٹی پر ,متعین کر دیا گیا۔۔۔۔۔
کچھ عرصہ تک ہم دونوں اپنے اپنے مدار میں سرگرداں رہے مگر رابطے میں رہے۔۔۔۔۔
وہ اپنی تعیناتی سے خوش نہیں تھا , جب ملاقات ہوتی یہی رونا رویا جاتا کہ کسی سکون والی جگہ نوکری لگ جائے تو کتنا اچھا ہو۔۔۔۔۔۔
اُس وقت کمپیوٹر اور کمپیوٹر آپریٹر کم ہی ہوتے تھے اس لئے ہر دو کی عزت بھی کیجاتی تھی سو میں نے کوشش کر کے اُس کا تبادلہ برانچ میں کروا لیا۔۔۔پہلے پہل تو اُس کی مختلف نوکریاں لگائی گئیں مگر وہ پارہ صفت کسی جگہ مطمئن ہی نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔۔
برانچ کے مین گیٹ سے باہر سنتری پوسٹ بنی ہوئی تھی۔۔۔جہاں پر موجود سنتری بارہ گھنٹے نوکری سرانجام دیتا ۔۔۔۔وہ کہنے لگا ” میں سنتری کی نوکری کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔تم محرر سے کہہ کر میری صبح کی نوکری لگوا دو”
میں نے محرر کی منت کر کے اُس کی منشا کے مطابق نوکری لگوا دی۔۔۔۔۔۔ صبح سات سے شام سات تک نوکری ہوتی۔۔۔۔۔میں شام کے وقت اپنی نوکری ختم کر کے اُس کے پاس بیٹھ جاتا۔۔۔ہم گپیں لگاتے سگریٹ پیتے , کبھی کبھی وہ سڑک کے پار بنے ڈھابے سے شاپر میں چائے لے آتا تو ہماری بیٹھک کچھ دیر مزید لمبی ہو جاتی۔۔۔۔
اسی صبح شام میں تقریباً دو سال گزر گئے۔۔۔۔۔۔وہ اُسی پوائنٹ پر نوکری کرتا رہا اور کبھی غیر حاضر نہ ہوا۔۔۔۔۔
اُس کی کچھ عادات جو پہلے دن سے تھیں اب بھی برقرار رہیں مثلاً اُس کی ایک عادت یہ تھی کہ دورانِ نوکری وہ کبھی کرسی پر نہیں بیٹھتا تھا۔۔۔۔۔پوسٹ میں چار کرسیاں رکھی ہوئی تھیں مگر مجال ہے کہ کسی ایک کو بھی اُسے بٹھانے کا شرف حاصل ہوا ہو۔۔۔۔۔میں اُسے کہتا بھی کہ بیٹھ جایا کرو یار بارہ گھنٹے بہت ہوتے ہیں ۔۔۔۔اُس کا جواب ہمیشہ ایک ہی ہوتا ” آرڈر نہیں ہے”
اُس کی ایک اور عادت کے اثرات مجھ پر بھی پڑتے۔۔۔۔وہ یہ کہ ہر دو ماہ پورے ہونے کے بعد وہ کسی دن خوب تیار ہو کے پشاوری چپل کو لشکا کر , کاندھے پر پرنا رکھے محرر کے دفتر میں داخل ہوتا اور باآوازِ بلند سلام کے بعد صرف اطلاع دیتا کہ ” میں گھر جا رہا ہوں” ۔۔۔۔۔
محرر , لائن آفیسر چیختے چلاتے رہتے مگر وہ شانِ بے نیازی سے روانہ ہو جاتا اور ہمیشہ خود ہی بتائے ہوئے دن اور وقت پر واپس نوکری پر حاضر ہو جاتا۔۔۔۔۔
اُس کے جانے کے بعد محرر اور لائن آفیسر میری کلاس لیتے کیوں کہ سب جانتے تھے کہ میں ہی اُسے برانچ میں لایا ہوں۔۔۔۔میں سب کی باتیں سُنتا اور پی جاتا ۔ جب وہ واپس آتا تو میں جمع شدہ زہر اُس کے سامنے اُگل دیتا جسے وہ ہوا میں اُڑا دیتا۔
مارچ کا مہینہ تھا اور اُس کے دو ماہ پورے ہوچکے تھے اُس نے حسبِ سابق تیاری کی اور محرران کا دل جلاتے ہوئے گھر روانگی کا نعرہ بلند کرتا ہوا برانچ کے مین گیٹ سے نکل گیا مگر اس مرتبہ وہ واپسی کے مقررہ دن واپس نہیں آیا اور پہلی بار غیر حاضر ہو گیا۔۔۔۔۔
محرر نوکریوں والا چٹھہ لے کرمیرے سر ہوا کہ تمہارا دوست ہے اب یا اُس کی غیرحاضری کرنی پڑے گی یا اُس کی جگہ تم نوکری کرو”
میں نے آمین کہا اور لگاتار تین دن اپنی نوکری کے ساتھ ساتھ اُس کی نوکری بھی کرتا رہا۔۔۔۔۔۔چوتھے دن میں واش روم کی طرف جا رہا تھا کہ وہ اپنی رہائشی بیرک سے باہر نکلتا دکھائی دیا۔۔۔۔۔۔میری جانب بڑھتے ہوئے دُور ہی سے کہنے لگا ” مجھے سب پتا چل گیا ہے ۔۔۔۔فکر نہ کر میں تیرے لئے خالص گُڑ لایا ہوں”
میں نے سلام دعا کی اور ہم اپنی اپنی نوکری میں مشغول ہو گئے۔۔۔۔۔
23 مارچ 2009 کی اُس بھیانک شام کو میں اپنی نوکری ختم کر کے اُس کے پاس پہنچا تو پہلے تو میں نے اپنی بھڑاس نکالی جسے وہ سر جھکائے سُنتا رہا۔۔۔۔۔جب میں ہانپ چکا تو وہ گویا ہوا۔۔۔۔۔” یارا چھوٹا بھائی باہر کے ملک جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔اُسے وقت دینا ضروری تھا, اس لئے غیر حاضر ہو گیا , چل یہ گُڑ کھا”۔۔۔۔۔۔
اُس نے جیب میں سے گڑ کا ایک ڈِلا نکال کر مجھے دیا۔۔۔۔۔ہم نے گُڑ کھایا پھر سگریٹ سلگا لئے۔۔۔آدھا گھنٹہ اُس کے پاس بیٹھ کر میں نے اجازت چاہی اور اُس سے آخری بار ہاتھ ملا کر سنتری پوسٹ سے نکل آیا۔۔۔۔۔۔ابھی سڑک سے دُور ہی تھا کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ مجھے چکر آرہا ہے۔۔۔۔مسلسل تین دن اپنی اور اُس کی نوکری نے اثر دکھانا شروع کر دیا تھا۔۔۔میں نے مناسب یہی سمجھا کہ کچھ دیر دفتر میں بیٹھتا ہوں جب طبیعت سنبھل جائے گی تو چلا جاؤں گا۔۔۔۔۔۔یہی سوچتے ہوئے میں واپس پلٹا اور محرر کے کمرے میں رکھی کرسی پر نیم دراز ہو گیا۔۔۔۔۔
محرر نے حیرت کا اظہار کیا ” گھر کیوں نہیں جاتے؟”
میں نے بتایا کہ چکر آرہے تھے اس لئے ادھر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔محرر کہنے لگا "جا کر کسی کی چارپائی پر کچھ دیر لیٹ جاؤ” ۔۔۔۔۔۔
مجھے یہ مشورہ اچھا لگا ۔۔۔۔رہائشی بیرک میں پہنچ کر میں نے سوچا اُسی کی چارپائی پر لیٹتا ہوں وہ تو ویسے بھی نوکری پر ہے”
اُس کی چارپائی پر لیٹے ہوئے چند منٹ ہی گزرے تھے زور دار دھماکے کی آواز آئی اور میں چارپائی سمیت زمیں سے اوپر اُٹھ گیا۔۔۔۔۔۔دوڑ کر دروزہ کھولا تو دھوئیں اور گردو غبار کا ایک بادل کمرے میں داخل ہو گیا۔۔۔۔باہر چیخ وپکار مچی ہوئی تھی۔۔۔۔۔
میں نے بمشکل دیکھا کہ ہماری برانچ کا ایک اہلکار خون آلود چہرہ لئے میری طرف آ رہا تھا۔۔۔۔
جب وہ میرے پاس آیا تو ہذیانی کیفیت میں یہی دہرا رہا تھا ” شاہ فیصل شہید ہو گیا , شاہ فیصل شہید ہو گیا۔۔۔۔۔۔
ہر طرف دھواں اور جلے ہوئے انسانی گوشت کی بُو پھیلی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ایمبولینس اور دیگر گاڑیوں اور انسانوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔۔۔۔۔
سنتری پوسٹ کی طرف بڑھتے ہوئے میں نے ناشپاتی کے درخت کے نیچے زمین پر پڑے ہوئے شاہ فیصل کے جسم کو لوگوں کی ٹانگوں کے درمیان میں سے دیکھا۔۔۔۔۔
یوں لگتا تھا جیسے کسی نے فُٹا رکھ کر اُس کے چہرے کو بلکل درمیان میں سے کاٹ دیا ہو۔۔۔۔۔۔اُس کے جسم کی ایک سائیڈ مکمل طور پر بوٹیوں میں تبدیل ہو چکی تھی۔۔۔۔۔۔
یہ نظارہ میری برداشت سے شاید باہر تھا , مجھے کچھ ہونے لگا۔۔۔۔میں تھوڑا پیچھے ہٹا اور دیوار کا سہارا لیکر کھڑا ہوگیا مگر مجھے ابکائی سی آنے لگی ۔۔۔۔۔میں نے خود پر قابو پانے کی کوشش کی ۔۔کچھ لمحات بعد جب طبیعت سنبھلی تو میں پھر آگے بڑھا مگر اب افسران اور دیگر لوگوں کا رش اتنا بڑھ چکا تھا کہ میں آگے نہ جا سکا ۔۔۔۔شاید میں آگے جانا ہی نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔
اس ساری واردات میں بمشکل سترہ اٹھارہ منٹ لگے مگر میرا جیتا جاگتا شاہ فیصل۔۔۔۔۔ چند خوفناک لمحات کے بعد ۔۔۔۔۔شہادت کے رُتبے پر فائز ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Back to top button