صوفی اسحاق
1931 میں الہ آباد میں پیدا ہونے والے جناب نثار عثمانی نے ابتدائی تعلیم ہندوستان میں حاصل کی۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہندوستان سے ہجرت کرکے نثار عثمانی ریاست بہاولپور کے شہر بہاولنگر آئے اور بطور اسکول ٹیچر عملی زندگی میں قدم رکھا۔ انکے اندر بلاشبہ ایک قلمکار موجود تھا جس نے انھیں لکھنے کی جانب مجبور کیا وہ ملازمت کے ساتھ پاکستان کے دور افتادہ علاقہ میں بیٹھ کر بھی مظلوم طبقات کی آواز بنتے رہے بعد ازاں وہ لاہور شفٹ ہو گئے، پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا، اور دیال سنگھ کالج میں بطور استاد پڑھانا شروع کیا۔ انہوں نے 1953 میں روزنامہ ڈان میں بطور سٹرنگر شمولیت اختیار کی اور جب ڈان نے لاہور میں اپنا مکمل بیورو قائم کیا تو پہلے بیورو چیف بن گئے۔ وہ 1991 میں ریٹائر ہوئے لیکن اخبار سے بطور خصوصی نامہ نگار وابستہ رہے۔
مسٹر عثمانی 1960 کی دہائی کے ایوب دور میں ایک سیدھے ترقی پسند صحافی اور ٹریڈ یونینسٹ کے طور پر ابھرے۔ وہ پنجاب یونین آف جرنلسٹس اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر سمیت مختلف عہدوں پر منتخب ہوئے۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کے بانی رکن تھے، اس کے وائس چیئرمین رہے چکے ہیں اور اس کی کونسل میں شامل تھے۔ اس وقت کی حکومتوں پر ان کی بے خوف تنقید کی وجہ سے صحافت کے علمبردار قلم کی حرمت کے امین مسٹر عثمانی کو کئی بار سلاخوں کے پیچھے بھیجا گیا۔ پاکستان کی موجودہ تاریخ کے تین الگ الگ ادوار، ایوب دور، ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت اور پھر جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاء کے عشرے میں، مسٹر عثمانی کی سٹینٹورین آواز اخبارات کے کالموں اور حکمرانوں کے پریس کے ساتھ مقابلوں میں دوسروں کے مقابلے میں گونجتی رہی۔ وہ منتخب حکومتوں سے بھی بے نیاز تھا کہ ان میں ان کی بروقت نصیحتوں پر عمل کرنے کا شعور ہے یا نہیں۔ وہ پوری طرح سے ایک مخلص جمہوریت پسند اور بے باک نڈر صحافی تھا۔ انہوں نے ایک مقامی ہسپتال میں آخری سانس لی جہاں وہ 3 ستمبر کو دل کے عارضے میں مبتلا ہونے کے بعد داخل ہوئے صحافت میں ایک درسگاہ کی حیثیت کے حامل نثار عثمانی صاحب 4 ستمبر کو وفات پاگئے مرحوم کی آخری آرام گاہ میانی صاحب قبرستان لاہور میں ہے