ادبیاتکالم

طوفانی بارش اور ایک آہنی خاتون کی داستان

بابرشیراز
فال آف سنگاپور کے وقت دادا مرحوم بھی کرنل پریم سہگل کے زیرِ کمان 10 بلوچ رجمنٹ کا حصہ تھے۔۔۔۔۔
گھر چھوڑے ہوئے تین سال بیت چکے تھے۔۔۔انگریزی فوج کا حصہ ہونے کی پاداش میں جاپانیوں کی قید بھی کاٹ چکے تھے۔۔۔۔۔۔کیپٹن موہن سنگھ کی ترتیب دی ہوئی آزاد ہند فوج میں شامل ہونے والے دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی باغی تھے۔۔۔۔۔۔۔
ستمبر 1944-45 میں جنگ کے علاوہ بارشوں نے بھی خوب تباہی مچائی۔۔۔۔۔
دادا حضور سنگاپور کے کسی انجان محاذ پر دادِ شجاعت دے رہے تھے جب ہمارا آبائی گھر مسلسل بارشوں کی وجہ سے گر گیا۔۔۔۔۔
دادی پانچ بچوں سمیت کُھلے آسمان کے نیچے آ گئیں۔۔۔۔۔بڑے تایا کی عمر باتیں یاد رکھنے کے قابل تھی جبکہ ابا مرحوم (شیراز) دو تین سال کے تھے۔۔۔۔۔۔دادی اُس وقت کو یاد کر کے ہمیشہ آبدیدہ ہو جایا کرتی تھیں۔۔۔۔۔
اُس رات بارش نے زور پکڑا تو رسوئی کی ایک دیوار نے مزید ساتھ نبھانے سے انکار کر دیا ۔۔۔۔
برستی بارش میں چھت کے گرنے کی آواز بہت بھیانک تھی۔۔۔۔۔چار کمروں کا کھلے ویہڑے والا گھر بارش کا بوجھ سہنے سے انکاری ہو رہا تھا۔۔۔۔۔
دادی بتاتی تھیں کہ ” جب رسوئی کی چھت گری تو میں فوری طور پر بچوں کو لیکر ویہڑے میں لگے بیری کے درخت کے نیچے آ گئی۔۔۔۔۔بیری کا درخت اتنا بڑا تھا کہ ایک قدآور جواں مرد کے کلاوے میں نہیں آسکتا تھا۔۔۔۔۔
بچوں کو بان کی چارپائی پر بٹھا کر میں نے لرزتے ہوئے گھر کو دیکھا اور بھاگ بھاگ کر ضروری چیزیں نکالنے لگی۔۔۔۔۔سب سے پہلے تو بارش سے بچاؤ کے لئے پرانی بوریاں ڈھونڈیں اور بیری کے درخت کی جھکی ہوئی شاخوں پر ڈال کر چھپر سا بنایا کہ کچھ تو آسرا ہو۔۔۔۔۔۔
دو کنال کے ویہڑے میں بیری ایک سرے پر جبکہ گھر ، مکان دوسرے سِرے پر تھے۔۔۔۔
جب تک بوڑھی دیواروں نے ساتھ دیا میں بیری اور کمروں کےمابین چکر لگاتی ہی رہی، ڈر بھی لگتا تھا کہ کسی کمرے کی چھت اچانک بیٹھ گئی تو میرے بچوں کا کیا ہو گا۔۔۔۔
شاید آٹھواں پھیرا ہو گا جب میں کالا فوجی کمبل لیکر بیری کے نیچے پہنچی تو خوفناک دھماکہ ہوا ۔۔۔۔۔میرا دل بیٹھ گیا بچے بھی رونے لگے۔۔۔۔بچوں کو روتا دیکھ کر میں بھی رونے لگی۔۔۔۔۔دل میں عجیب خیالات آ رہے تھے۔۔۔۔۔
میکہ گاؤں یہاں سے تین میل کی دُوری پر تھا۔۔۔۔جہاں تھی ، وہاں کوئی اپنا نہیں تھا۔۔۔
خود روتے ہوئے ، بچوں کو چپ کراتے ہوئے میں نے فوری فیصلہ یہی کیا کہ میکے کی طرف ہجرت کی جائے ۔۔۔۔
بارش نے اللہ جانے کب رکنا تھا۔۔۔سر پر لٹکی بوریاں بھی ٹپکنا شروع ہو چکی تھیں۔۔۔۔۔۔
جو سامان کمروں کے اندر سے نکال کر حفاظت کی غرض سے بیری کے نیچے رکھا تھا اسے حسرت بھری نگاہ سے دیکھا اور سب سے چھوٹے بیٹے شیراز کو اٹھا کر باقی بچوں کو آگاہ کیا کہ ہم نانا کے گھر جا رہے ہیں۔۔۔۔۔
طوفانی بارش میں بچوں کو ساتھ لئے میں اجڑے گھر سے چل پڑی۔۔۔۔۔
تین میل کا فاصلہ ، رات کا وقت اور ناراض آسمان سب کے سب راہ روک رہے تھے لیکن رکنا بھی موت تھی۔۔۔
دو میل کے بعد میرے ابا یعنی بچوں کے نانا کے گاؤں کی حدود شروع ہوجاتی ، درمیان میں ایک قدیم نالہ گزرتا جسے پار کرنا عام دنوں میں بلکل بھی مشکل نہ تھا۔۔۔
ہم نالے سے کچھ دور تھے لیکن پانی کی خوفناک آواز دل دہلا رہی تھی۔۔۔۔۔نالے کے پاس پہنچ کر پھلاہی کے ایک درخت کے نیچے پناہ لی اور سوچنے لگی کہ پار کیسے جایا جائے۔۔۔۔
بچے اب چُپ تھے۔۔۔۔ یا برستی بارش ۔۔۔۔یا اندھیرے کی وجہ سے میں اُن کے آنسو دیکھنے سے قاصر تھی۔۔۔۔
یہ سارا علاقہ میرا دیکھا بھالا اور اپنا تھا کہ میں انہی کھیتوں سے رزق اکھٹا کرتی رہی تھی۔۔۔۔۔ایک جگہ ایسی تھی جہاں سے نالہ کراس کیا جا سکتا تھا۔۔۔۔میں نے بچوں کو سمجھایا کہ میں رستہ دیکھنے جاتی ہوں تم لوگ ادھر ہی بیٹھو۔۔۔۔
شیراز رونے لگا کہ میں ساتھ جاؤں گا۔۔۔۔اسے روتا دیکھ کر میں بھی رونے لگی۔۔۔۔۔شیراز کو بڑی بیٹی کی بانہوں میں دیکر میں مطلوبہ مقام کی طرف بڑھی۔۔۔۔۔
پانی کی رفتار خوفزدہ کر رہی تھی لیکن کچھ تو کرنا تھا۔۔۔۔سوچی ہوئی جگہ پہنچ کر مجھے احساس ہوا کہ نالہ کراس کرنا ناممکن ہے۔۔۔۔۔۔وہاں سے پلٹ کر پُھلاہی کے درخت کے پاس پہنچی اور بچوں کو دلاسہ دیا کہ بارش کم ہو رہی ہے ابھی کچھ دیر میں یا پانی کم ہو جائے گا یا ۔۔۔۔سورج نکل آئے گا۔۔۔۔۔
شیراز چھوٹا تھا اسے یقیناً سردی تنگ کر رہی تھی ۔۔۔میں جتنا اسے چپ کرانے کی کوشش کرتی وہ اتنا بھڑک کر زور زور سے روتا۔۔۔۔۔۔اس کا رونا مجھے تکلیف دے رہا تھا۔۔۔۔۔بارش کا زور کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔۔۔۔۔میرا صبر جواب دے چکا تھا۔۔۔۔
جب بیٹی نے رونا شروع کیا تو پتا نہیں مجھے کیا ہو گیا۔۔۔میں دھاڑیں مار مار کر رونے لگی مجھے بلند آواز میں روتے دیکھ کر بچے بھی رونے لگے۔۔۔۔
اللہ جانے ہم کب تک روتے رہے۔۔۔۔۔واپسی کا خیال آ رہا تھا لیکن کہاں جاتی۔۔۔۔۔بے رحم قدرت کو ہمارے رونے کا خیال کیا آنا تھا تین گھنٹے برسنے کے بعد بارش کا زور کم ہوا لیکن نالہ ویسے ہی غرا رہا تھا۔۔۔
صبحِ کاذب نے تسلی دی کہ سچی صبح بھی قریب ہے۔۔۔۔ہلکا ہلکا اجالا ہوا تو نالے کے پار ، دُور سے کوئی آتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔۔آنے والا جب قریب آیا تو میرا دل مسرت سے بھر گیا۔۔۔۔
ابا کو دُور سے آتا دیکھ کر میں ایک لمحے کے لئے اپنے بچوں کر بھول کر خود بچی بن گئی اور دوڑتے ہوئے بچوں کی طرح ابا کو آوازیں دینے لگی۔۔۔میں بھاگ رہی تھی اور رو رہی تھی۔۔۔۔۔کنارے کے پاس پہنچی تو ابا بھی دوسرے کنارے کے پاس پہنچ چکے تھے۔۔۔۔
میری حالت دیکھ کر وہ ششدر رہ گئے۔۔۔۔ایک جگہ سے انہوں نے بمشکل نالہ کراس کیا تو میں بھاگ کر اُن کے گلے لگ گئی اور خوب روئی۔۔۔۔
بچے بھی پاس آگئے۔۔۔۔تین نسلیں مل کر رونے لگیں۔۔۔۔
میں نے گھر گرنے سے لیکر اب تک کی ساری روداد ابا کو سنائی ۔۔۔۔۔انہوں نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے ہمیں دلاسہ دیا اور ہم انکی مدد سے ایک ایک کر کے نالہ کراس کر گئے۔۔۔۔۔۔
چھ ماہ بعد جنگ ختم ہوئی تو آزاد ہند فوج بھی ختم ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔دادا بھی ایک ہارے ہوئے باغی کی حیثیت سے بارہ پتھر ہو کر واپس آ گئے۔۔۔۔گرا ہوا گھر دوبارہ بن گیا مگر وہ رات میری یاد سے کبھی محو نہ ہوسکی۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Back to top button