شاہد افراز خان ،بیجنگ
شنگھائی تعاون تنظیم کی بائیسویں سربراہی سمٹ 15تا 16 ستمبر کو سمرقند، ازبکستان میں منعقد ہو رہی ہے۔ موجودہ بین الاقوامی صورتحال کے تناظر میں، شنگھائی تعاون تنظیم توانائی کا عالمی بحرانوں سے نمٹنے میں اہم کردار ،رواں برس کا ایک اہم موضوع ہے۔حالیہ برسوں میں نتیجہ خیز کامیابیوں کے ساتھ، شنگھائی تعاون تنظیم دنیا کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ آبادی والے علاقے میں انتہائی تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ اس تنظیم نے بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کے تصور کی روشنی میں ایک نئی قسم کے بین الاقوامی تعلقات کا عمدہ نمونہ پیش کیا ہے اورنظریاتی اور حقیقی دونوں اعتبار سے عملی اقدامات کے تحت اپنی اہمیت کو منوایا ہے۔ چینی صدر شی جن پھنگ بھی دیگر عالمی رہنماوں کے ہمراہ اجلاس میں شرکت کریں گے اور قازقستان اور ازبکستان کے سرکاری دورے بھی کریں گے۔ 2001 میں اپنے قیام کے بعد سے ایس سی او جو ایک چینی شہر کے نام سے منسوب پہلی بین الحکومتی تنظیم ہے، نے ایک غیر معمولی سفر طے کیا ہے۔ 21 سال کے بعدیہ تنظیم، اس وقت آٹھ ارکان، چار مبصر ممالک اور متعدد مذاکراتی شراکت داروں کے ساتھ، نہ صرف عالمی امن اور ترقی کا ایک مضبوط ستون بن چکی ہے، بلکہ بین الاقوامی مساوات اور انصاف کے لیے بھی ایک بڑی طاقت بن چکی ہے۔
حقائق کے تناظر میں شنگھائی تعاون تنظیم کو مضبوط توانائی اور تعاون کی رفتار حاصل ہے۔ یقیناً، اس کا سہرا "شنگھائی روح” کے سر جاتا ہے، ایک تخلیقی وژن جس کا آغاز شنگھائی تعاون تنظیم کے ذریعے کیا گیا تھا جو کہ باہمی اعتماد، باہمی مفاد، مساوات، مشاورت، تہذیبوں کے تنوع کے احترام اور مشترکہ ترقی کے حصول کی حمایت کرتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے فریم ورک کے اندر، متعلقہ ممالک نے اپنے اپنے بنیادی مفادات اور اہم خدشات سے متعلق مسائل پر ایک دوسرے کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے مل کر دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ لڑی ہے، اور منشیات کی اسمگلنگ، سائبر کرائم اور بین الاقوامی منظم جرائم کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں۔اس دوران افرادی تبادلوں پر مبنی سرگرمیوں جیسے کہ آرٹ فیسٹیولز ، ایس سی او یونیورسٹی اور ایس سی او فورم برائے روایتی طب بھی لانچ کیے گئے ہیں۔ گزشتہ برسوں کے اقدامات نے یہ ظاہر کیا ہے کہ رکن ممالک نے شنگھائی روح کے لیے اپنی مجسم اور جامع حمایت کا عملاً اظہار کیا ہے اور اسے مکمل طور پر تسلیم کیا ہے۔
یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ، شنگھائی تعاون تنظیم کے بانی رکن کے طور پر، چین نے تنظیم کی مضبوط ترقی کو فروغ دینے کا عہد کیا ہے۔ 2013 کے بعد سے، صدر شی جن پھنگ نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاسوں میں تواتر سے شرکت کے دوران متعدد اقدامات کو آگے بڑھایا ہے، جس سے شنگھائی روح کو تقویت ملی ہے۔ ترقی، سلامتی، تعاون، تہذیب اور عالمی نظم و نسق کے بارے میں چین کے تصورات کو اجاگر کرنے سے لے کر "صحت کی کمیونٹی”، "سیکیورٹی کی کمیونٹی”، "ترقی کی کمیونٹی” اور "ثقافتی تبادلوں کی کمیونٹی” کی تعمیر پر زور دینے تک چینی صدر نے ایس سی او کی مستحکم اور طویل مدتی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔اس وقت چونکہ دنیا گہری تبدیلیوں کا مشاہدہ کر رہی ہے، خاص طور پر کووڈ۔19 وبائی صورتحال کے بعد، شی جن پھنگ نے گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو اور گلوبل سیکیورٹی انیشیٹو پیش کیے ہیں، جسے ایس سی او ممالک سمیت بین الاقوامی برادری نے بڑے پیمانے پر تسلیم کیا ہے۔
معیشت اور تجارت کے ساتھ ساتھ صحت اور غربت کے خاتمے سمیت دیگر شعبوں میں شنگھائی تعاون تنظیم کی ترقی کو فروغ دینے کے لیے چین کی کوششوں سے مختلف ممالک کے لوگوں کو بے حد فائدہ پہنچا ہے۔ایس سی او فریم ورک کے اندر، رکن ممالک نمایاں اقتصادی ترقی، لوگوں کی زندگیوں میں زبردست بہتری اور ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعلقات کا مشاہدہ کر رہے ہیں، جس نے تنظیم سے باہر ممالک کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ گزشتہ سال ایس سی او نے ایران کو مکمل رکن ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے طریقہ کار کا آغاز کیا ہے جبکہ سعودی عرب، مصر اور قطر کو بھی ڈائیلاگ پارٹنر کا درجہ دیا ہے۔ایس سی او نے حقیقی کثیرالجہتی کے لیے پرعزم رہتے ہوئے ہمیشہ بالا دستی اور تسلط پسندانہ کارروائیوں کی مخالفت کی ہے، اور کبھی بھی گروہ بندی کی کوشش نہیں کی ہے۔ یہ بیلٹ اینڈ روڈ تعاون اور مختلف ممالک کی ترقیاتی حکمت عملیوں اور یوریشین اکنامک یونین جیسے علاقائی تعاون کے اقدامات کے درمیان ہم آہنگی کو بھی فروغ دے رہی ہے ، جو وسیع تناظر میں دنیا کے بہترین مفاد میں ہے اور مختلف خطوں کے لیے نمایاں ثمرات کا موجب ہے۔