کراچی خوف کا شہر، بدامنی کا راج برقرار
رشید آرائیں
اردو ٹوڈے، کراچی
کراچی خوف کا شہر بن گیا، بدامنی کا راج برقرار،نئے سال کے آغاز میں ہی ہزاروں افراد لٹ گئے،افسران کی موجیں،عوام تحفظ کے لیے ٹھوکریں کھانے پر مجبور
واردات میں ڈاکوؤں کے انداز بدل گئے لیکن پولیسنگ وہی پرانی،ڈی ایس،ایس،ایس ایس پی سمیت دیگر افسران بے تاج بادشاہ بن گئے واردات کے بعد ملزم کی شناخت ہوجائے پر قانون حرکت میں نہ آئے والی بات گونجتی دکھائی دینے لگی۔
کراچی میں موٹرسائیکل،موبائل فون،نقدی چھیننا،واردات کے دوران مزاحمت پر لوگوں کی زندگی ختم کرنا عام سے بات ہوگئی ہے،سال 2022 محکمہ میں کراچی کے مختلف علاقوں میں 82 ہزار 7 سو سے زائد وارداتیں ہوچکیں ہیں،محکمہ پولیس،دیگر اداروں اور حکومت کے دعووں کے باوجود سال 2023 کے آغاز میں ہی ایک ہزار سے زائد افراد ڈکیتی،موٹرسائیکل،کار،موبائل فون،نقدی اور دیگر قیمتی اشیاء سے محروم ہوچکے ہیں،حالیہ دنوں کراچی پولیس چیف نے حکومت کو رپورٹ پیش کی ہے جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ 24 گھنٹوں کے دوران 150 وارداتیں رپورٹ ہوچکی ہیں،ضلع شرقی میں 46 اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیں،وسطی میں 41،کورنگی میں 21 اور غربی میں 15 وارداتیں ہوچکی ہیں، ان وارداتوں میں شہری 70 موبائل فونز،4 گاڑیوں،61 موٹرسائیکل اور دیگر قیمتی اشیاء سے محروم ہوگئے ہیں۔
کراچی ایسٹ کے تھانہ سہراب گوٹھ کے علاقے ایوب گوٹھ میں ڈاکو سلطان نوناری کی دکان کے تالے توڑ کر ساڑھے سترہ لاکھ روپے نقد رقم اور موبائل فونز لے کر گئے،ایف آر درج ہوگئی،سی سی ٹی وی وڈیو منظر عام پر آگئی،ملزم کی شناخت ہوگئی لیکن گرفتاری 6 دنوں سے صرف اس لیے عمل میں نہیں آئی کیونکہ پولیس افسران فریادی کو تحفظ دینے سے قاصر ہیں،فریادی کے مطابق اب ملزم فرار ہونے کے چکر میں ہے،فریادی نے اے آئی جی ایسٹ جاوید عالم اوڈھو،ایس ایس پی عبدالرحیم شیرازی سمیت دیگر پولیس افسران سے درخواست کی کہ واردات میں ملوث ملزم کی سو فیصد نشاندہی ہوچکی ہے پولیس فریادی کی خفیہ مخبری پر کاروائی کرے تاکہ وہ مستقبل میں کسی مشکل سے بچ سکیں لیکن مذکورہ قانون کے رکھوالے،ایماندار،مبینہ طور پر عوام ہونے کے دعویدار افسران نے کوئی جواب ہی دینا پسند نہیں کیا،مذکورہ فریادی چند عرصہ قبل بیٹے سمیت لوٹ مار کی واردات کا شکار رہے،لٹنے کے بعد کئی ماہ تک پولیس اسٹیشن اور عدالتوں کا چکر کاٹتے کاٹتے ایک موڑ پر خوفزدہ ہوکر انصاف کے حصول سے ہی دستبردار ہوگئے تھے۔
کراچی پولیس اور امن قائم کرنے والے ادارے عوام کو تحفظ فراہم کرنے اور خفیہ نشاندہی پر کاروائی کرنے اور فریادیوں کو بچوں سمیت تحفظ فراہم کرنے کا اہتمام کریں تاکہ واردات کے بعد متاثرین اپنی لٹی ہوئی قیمتی اشیاء کی واپسی کی حصول کے بجائے جان بچانے کے خوف سے باہر نکل سکیں۔