شاہد افراز خان ،بیجنگ
ہر سال دو فروری کو دنیا بھر میں لوگ ویٹ لینڈز کا دن مناتے ہیں۔اس دن ویٹ لینڈز کے تحفظ کی کوششوں کو آگے بڑھایا جاتا ہے اور اس حوالے سے معاشرے میں شعور و آگاہی کو فروغ دیا جاتا ہے۔تاریخی اعتبار سے رامسر کنونشن نے یہ دن ویٹ لینڈز کے نام کیا تھا ، جس کی روشنی میں 1997 میں پہلی مرتبہ یہ عالمی دن منایا گیا۔ ویٹ لینڈز میں عام طور پر بڑی جھیلیں، دلدل، گیلی زمینیں، دریا اور سیلاب زدہ جنگلات وغیرہ شامل ہیں۔ یہ پودوں اور جانوروں کی ایک بہت بڑی تعداد کے مساکن کہلاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہر سال، دنیا بھر میں ماحولیات کے ماہرین کرہ ارض کی ان ناقابل یقین وسعتوں کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لئے ورلڈ ویٹ لینڈز ڈے مناتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں ہر گزرتے لمحے انسانی ترقی اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت کہیں زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔اس ضمن میں قدرتی وسائل کے تحفظ اور ترقی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ، جن میں یہ ویٹ لینڈز بھی شامل ہیں۔ بنی نوع انسان اور فطرت کے درمیان مضبوط ربط کی بات کی جائے تو کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں 01 ارب سے زیادہ افراد اپنی روزی روٹی کے لیے ویٹ لینڈز پر انحصار کرتے ہیں یعنیٰ کرہ ارض پر ہر آٹھ میں سے ایک شخص کا دارومدار ایسے مقامات پر ہے۔ تاہم ، ان ویٹ لینڈز کا ماحولیاتی نظام مادی ترقی اور فطرت کے درمیان عدم ہم آہنگی کے باعث سنگین خطرات سے دوچار ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 1970 سے اب تک دنیا کے 35 فیصد دلدلی علاقے غائب ہو چکے ہیں۔یوں دنیا بھر میں ان قدرتی وسائل کے تحفظ کے لیے کوششوں میں تیزی لائی جا رہی ہے۔
چین میں بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ یہاں نہ صرف حکومت بلکہ عوام بھی ویٹ لینڈز کے تحفظ میں اُسی قدر سنجیدہ ہیں اور اپنی حکومت کے شانہ بشانہ فطرت سے ہم آہنگ ترقی کو آگے بڑھا رہے ہیں۔انہی کوششوں کے ثمرات ہیں کہ اس وقت چین میں 66 ملین ہیکٹر سے زیادہ ویٹ لینڈز،28 ملین ہیکٹر قدرتی ویٹ لینڈز، 901 نیشنل ویٹ لینڈز پارکس اور 600 سے زیادہ ویٹ لینڈز نیچر ریزروزموجود ہیں۔چین کے 13 شہروں کو رامسر کنونشن سے توثیق شدہ "انٹرنیشنل ویٹ لینڈ شہروں” میں شامل کیا گیا ہے۔ملک میں اونچے پہاڑوں سے لے کر ساحلی علاقوں تک متنوع اقسام کی ویٹ لینڈزموجود ہیں، جو رامسر کنونشن کی روشنی میں ویٹ لینڈز کی تقریباً تمام اقسام کا احاطہ کرتی ہیں۔
چین میں ویٹ لینڈز کے تحفظ میں حاصل شدہ کامیابیوں کا زکر کیا جائے تو دنیا کی 04 فیصد ویٹ لینڈز کے ساتھ،ملک نے ویٹ لینڈز کی ترقی، ماحولیات اور ثقافت کے لئے دنیا کی آبادی کے پانچویں حصے کی متنوع ضروریات کو پورا کیا ہے۔ چین نے ویٹ لینڈزکے تحفظ کے لئے اپنے قانونی فریم ورک کے ساتھ ساتھ تحفظ کے انتظام ، منصوبہ بندی ، تحقیقات اور نگرانی کے نظام کو بہتر بنایا ہے۔ چین نے متعلقہ کنونشن کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو بھی پورا کیا ہے اور اس سلسلے میں بین الاقوامی تعاون کا فروغ جاری رکھا ہے۔ویٹ لینڈز کے تحفظ کے حوالے سے چین کی عملی کوششوں کی مزید بات کی جائے تو گزشتہ سال چین میں ویٹ لینڈز کے تحفظ کا قانون نافذ العمل ہو چکا ہے۔ چین میں یہ پہلا قانون ہے جو خاص طور پر ویٹ لینڈز کے تحفظ پر مبنی ہے اور یہ چین کی ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر میں قانون کی حکمرانی کی ایک اہم کامیابی ہے۔ چین میں ویٹ لینڈز کے تحفظ کو مخصوص ضوابط کی کمی، ضرورت سے زیادہ استعمال اور یہاں تک کہ تباہی کی وجہ سے متعدد چیلنجوں کا سامنا تھا ۔ ان مسائل کے تناظر میں یہ قانون ویٹ لینڈز کے معقول استعمال کی حوصلہ افزائی کرنے سمیت اقتصادی، سماجی اور ماحولیاتی فوائد کو یکجا کرنے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔اسی طرح چین نے 2022 تا2030 کی مدت کے لیے ویٹ لینڈز کے تحفظ کا ایک منصوبہ بھی جاری کیا ہے، جس کا مقصد 2025 تک اپنی ویٹ لینڈ پروٹیکشن کی شرح کو 55 فیصد تک بڑھانا ہے ، جبکہ بین الاقوامی نوعیت اور قومی نوعیت کے ویٹ لینڈز کی تعداد میں بالترتیب 20 اور 50 کا اضافہ کرنا ہے۔علاوہ ازیں ، چین کی جانب سے متعدد ویٹ لینڈ پروٹیکشن کمیونٹیز بھی قائم کی گئی ہیں ، تاکہ اہم دلدلی علاقوں کا مؤثر طریقے سے تحفظ کیا جا سکے۔یوں چین کی کوششوں نے ملکی سطح کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی ویٹ لینڈز کے تحفظ کے فروغ میں مثبت کردار ادا کیا ہے اور باقی دنیا کے لیے ایک مثال قائم کی ہے۔