چینکالم

عالمی سلامتی میں چین کی ایک اور شراکت

شاہد افراز خان ،بیجنگ

China 1

حالیہ عرصے میں چین کی جانب سے پیش کردہ گلوبل سیکورٹی انیشیٹو ( جی ایس آئی)   کو عہد حاضر کے اہم مسائل کے حل کا ایک واضح فارمولہ قرار دیا جا رہا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ دنیا کو کس سیکورٹی تصور کی ضرورت ہے اور ممالک مشترکہ سلامتی کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ وسیع تناظر میں گلوبل سیکورٹی انیشیٹو ، سلامتی کے شعبے میں بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر کے تصور کو عملی جامہ پہنانے اور عالمی سطح پر قیام امن کی کوششوں کو آگے بڑھانے میں چین کی ایک اور شراکت اور تعاون ہے ، جو دنیا کے مشترکہ مفاد کا ترجمان ہے۔
اسی کڑی کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ابھی حال ہی میں چین کی جانب سے  باضابطہ طور پر گلوبل سیکورٹی انیشیٹو  سے متعلق "کانسیپٹ پیپر "جاری کیا گیا ہے جو جی ایس آئی کے بنیادی تصورات اور اصولوں کی وضاحت کرتا ہے اور کلیدی تعاون اور پلیٹ فارم میکانزم کی سمت کو واضح کرتا ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ یہ کانسیپٹ پیپر عالمی امن کے تحفظ کے لئے چین کے ذمہ دارنہ رویے اور عالمی سلامتی کے تحفظ کے لئے اس کے پختہ عزم کا اظہار ہے۔ مذکورہ دستاویز میں تعاون کے 20 اہم شعبوں کا تعین کیا گیا ہے۔  اس میں واضح اور ٹھوس  ایکشن پلان بھی موجود ہے ،جس  کا خلاصہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ سیکیورٹی گورننس میں اقوام متحدہ کے مرکزی کردار کی مضبوطی سے حمایت کی جائے، بڑی طاقتوں کے درمیان ہم آہنگی اور باہمی رابطے کو فروغ دیا جائے، بالادستی اور  جبری رویوں کی مخالفت کی جائے ،مکالمے کو فعال طور پر فروغ دیا جائے اور ہاٹ اسپاٹ مسائل کے پرامن حل کو فروغ دیا جائے، روایتی اور غیر روایتی سیکورٹی چیلنجوں سے مؤثر طریقے سے نمٹا جائے، عالمی سلامتی کے نظم و نسق کے نظام اور صلاحیت سازی کو مسلسل مضبوط بنایا جائے۔
چین کا عالمی سلامتی کے حوالے سے موقف بڑا واضح ہے کہ سکیورٹی دنیا کے تمام ممالک کا حق ہے، نہ کہ اسے ایک ایسا پیٹنٹ تصور کیا جائے جو مخصوص ممالک تک محدود ہے۔ ساتھ ساتھ چین یہ بھی کہتا ہے کہ چند انفرادی ممالک کو عالمی سیکیورٹی تصورات پر فیصلہ سازی کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔اس تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ گلوبل سیکورٹی انیشیٹو دنیا کے سبھی عوام کے مفادات اور سلامتی میں مددگار ہے۔قیام امن اور سلامتی کے حوالے سے چین  کے تصورات اس باعث بھی زیادہ وزن رکھتے ہیں کہ یہ دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس نے اپنے آئین میں "پرامن ترقی کے راستے پر قائم رہنا” کو شامل کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین نے ہمیشہ اپنے اس موقف کو دہرایا ہے کہ وہ کبھی بھی بالادستی یا اپنے اثر و رسوخ کے دائرے کو وسعت دینے کی  کوشش نہیں کرے گا ، ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں ہوگا ، اور ہمیشہ عالمی امن کا محافظ رہے گا۔دوسری جانب دنیا نے عملاً دیکھا ہے کہ چین ہر قسم کی بالادستی اور طاقت کی سیاست، سرد جنگ کی ذہنیت اور گروہی تصادم کا مخالف رہا ہے۔چین ہمیشہ ثابت قدمی سے اس تصور پر عمل پیرا رہا ہے کہ کسی بھی ملک کے داخلی معاملات میں بیرونی مداخلت نہ کی جائے اور ہر ملک کی قومی خودمختاری، سلامتی، ترقیاتی مفادات سمیت بین الاقوامی مساوات اور انصاف کا بھرپور تحفظ کیا جائے۔
گلوبل سیکورٹی انیشیٹو  کے مطابق اشتراکی، جامع، تعاون پر مبنی اور پائیدار سیکورٹی وژن ، عالمی امن کو برقرار رکھنے کے لیے رہنما اصول ہونا چاہیے، اور تمام ممالک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام بنیادی شرط ہونی چاہیے۔ مزید برآں، اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کی پاسداری بنیادی تقاضہ ہے، تمام ممالک کے جائز سیکورٹی خدشات کو سنجیدگی سے لینا ایک اہم اصول ہے، اختلافات اور تنازعات کو مذاکرات اور مشاورت کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کرنا ہی واحد راستہ ہے، اور روایتی اور غیر روایتی دونوں طرح کی سیکورٹی کو برقرار رکھنا ایک ناگزیر عمل ہے .
یوکرین بحران، وبا کے باعث سامنے آنے والے  چیلنجز، دنیا کے کئی حصوں میں بڑھتی ہوئی افراط زر اور عالمی کساد بازاری، ان تمام عوامل نے بین الاقوامی گورننس کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، اور دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے بین الاقوامی نظام کو انتہائی دباؤ کا سامنا ہے۔آج دنیا کو ایک بار پھر تقسیم اور تصادم کے خطرات درپیش ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان تمام مسائل کا ادراک کرتے ہوئے عالمی امن کے استحکام، کثیرالجہتی اور بین الاقوامی یکجہتی کو برقرار رکھنے اور وبائی دور کے بعد ایک بہتر دنیا کی تعمیر کے لیے چین کی جانب سے گلوبل سیکورٹی انیشیٹو پیش کیا گیا ہے جو بین الاقوامی برادری کی اہم ضروریات اور مشترکہ امنگوں کی احسن ترجمانی کرتا ہے۔

Leave a Reply

Back to top button