شاہد افراز خان ،بیجنگ
یوکرین بحران کو ایک سال ہو چکا ہے اور ہنوز یہ مسئلہ حل طلب ہے۔اس تنازع کے باعث عالمی توانائی مارکیٹ اور خوراک کی مارکیٹ پر سنگین منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ تیل اور گیس پیدا کرنے والے دنیا کے بڑے ممالک میں سے ایک روس سے گیس کی فراہمی میں رکاوٹوں کے نتیجے میں گیس کی قلت پیدا ہوئی ہے ، بالخصوص یورپ میں افراط زر میں اضافہ ہوا ہے۔اسی طرح یوکرین دنیا میں اناج کی فراہمی کا ایک بڑا ملک ہے اور حالیہ بحران کے باعث دنیا میں اناج کی فراہمی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔اس صورتحال میں ایک بڑے ذمہ دار ملک اور اہم عالمی طاقت کی حیثیت سے چین نے ہمیشہ اس بحران کے سیاسی تصفیے پر زور دیا ہے اور ابھی حال ہی میں اس حوالے سے اپنا 12 نکاتی پوزیشن پیپر بھی جاری کیا ہے۔اس سے قبل چین نے رواں سال کی میونخ سیکیورٹی کانفرنس (ایم ایس سی) میں بھی اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام ممالک کی خودمختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کو مؤثر طریقے سے برقرار رکھا جائے۔چین کہتا ہے کہ ایک محفوظ دنیا کے لیے ہمیں تمام ممالک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرنا چاہیے، مذاکرات اور مشاورت کے ذریعے تنازعات کے پرامن حل اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کی طرف لوٹنے پر زور دینا ہوگا۔
پوزیشن پیپر میں چین نے اس بات پر زور دیا کہ سرد جنگ کی ذہنیت کو ترک کر دینا چاہیے اور تمام متعلقہ فریقین کو دوسروں کی سلامتی کی قیمت پر اپنی سلامتی کے حصول کی مخالفت کرنی چاہیے، گروہی محاز آرائی کو روکنا چاہیے اور یوریشائی براعظم میں امن و استحکام کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔اس دستاویز کی روشنی میں چین نے تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ دشمنی ختم کریں اور امن مذاکرات دوبارہ شروع کریں کیونکہ مشاورت اور مذاکرات ہی یوکرین کے بحران کا واحد قابل عمل حل ہیں۔اس حوالے سے اقوام متحدہ میں چین کے مستقل مشن نے بھی یوکرین کے بارے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہنگامی خصوصی اجلاس کو بتایا کہ جنگ بندی کے لیے سہولت کاری اولین ترجیح ہے اور سیاسی حل کے دروازے بند نہیں کیے جا سکتے۔
چین کا موقف بڑا واضح ہے کہ تنازعات اور جنگوں میں کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ بربریت جس قدر طویل ہو گی، انسانی مصائب اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔چین نے تنازع کے فریقین سے مطالبہ کیا کہ وہ دانش مندی کا مظاہرہ کریں، اپنے جذبات پر قابو رکھیں، اور بحران کو مزید خراب ہونے یا یہاں تک کہ قابو سے باہر ہونے سے روکیں۔چین نے اس بات کا اعادہ بھی کیا کہ متعلقہ ممالک کو یوکرین بحران کو کم کرنے اور امن مذاکرات کی خاطر سازگار حالات پیدا کرنے کے لئے دوسرے ممالک کے خلاف یکطرفہ پابندیوں اور "لامحدود دائرہ اختیار” کا غلط استعمال بند کرنا چاہئے۔مذکورہ پوزیشن پیپر نے انسانی بحران کو حل کرنے کے لئے شہریوں اور جنگی قیدیوں کے تحفظ کی بھی نشاندہی کی اور کہا کہ شہریوں کے حقوق کا مؤثر طریقے سے تحفظ کیا جائے اور جنگ زدہ علاقوں سے شہریوں کے انخلا کے لیے انسانی راہداریاں قائم کی جائیں۔ جنگی قیدیوں کے بنیادی حقوق کا احترام کیا جائے ، پوزیشن پیپر میں کہا گیا ہے کہ چین ، روس اور یوکرین کے مابین جنگی قیدیوں کے تبادلے کی حمایت کرتا ہے ، اور تمام فریقوں پر زور دیتا ہے کہ وہ اس مقصد کے لئے مزید سازگار حالات پیدا کریں۔
چین نے اس حوالے سے بھی خبردار کیا کہ جوہری ہتھیار وں کا استعمال نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی کسی جوہری جنگ کی جانب بڑھنا چاہیے۔ جوہری پھیلاؤ کو روکا جانا چاہیے اور جوہری بحران سے بچنا چاہیے۔ چین نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ وہ کسی بھی ملک کی جانب سے کسی بھی صورت میں کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کی تحقیق، ترقی اور استعمال کی مخالفت کرتا ہے۔مذکورہ دستاویز یہ بھی کہتی ہے کہ جوہری بجلی گھروں کا تحفظ ضروری ہے، تمام فریقین کو جوہری تحفظ سے متعلق کنونشن سمیت بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرنی چاہیے اور انسانی ساختہ جوہری حادثات سے گریز کرنا چاہیے۔چین کا اس حوالے سے موقف ہے کہ وہ بین الاقوامی جوہری عدم پھیلاؤ کے نظام کی مضبوطی سے حمایت کرتا ہے اور ہتھیاروں کے کنٹرول اور عالمی جوہری سلامتی کے ڈھانچے کی تعمیر پر بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینا جاری رکھے گا اور عالمی تزویراتی استحکام کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔
بارہ نکاتی پوزیشن پیپر میں چین نے بین الاقوامی برادری پر بھی زور دیا ہے کہ وہ بحران کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے مل کر کام کرے۔ چین نے تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ صنعتی اور سپلائی چینز کو مستحکم رکھیں اور موجودہ عالمی معاشی نظام کو برقرار رکھیں، روس، ترکی، یوکرین اور اقوام متحدہ کے دستخط شدہ "بحیرہ اسود گرین انیشیٹو” کو متوازن انداز میں جامع اور مؤثر طریقے سے نافذ کریں اور اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرنے میں اقوام متحدہ کی حمایت کریں۔اسی دستاویز میں چین نے یہ پیشکش بھی کی ہے کہ وہ جنگ زدہ علاقوں میں جنگ کے بعد تعمیر نو میں مدد فراہم کرنے اور تعمیری کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے۔چین کے عملی اقدامات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ عالمی سطح پر قیام امن کی تعمیری قوت ہے جو دنیا میں تنازعات کے بجائے روابط کی خواہاں ہے۔ یہ چین ہی ہے جو بین الاقوامی تنازعات کی بنیادی وجوہات کے سدباب اور دنیا میں پائیدار استحکام اور سلامتی کے حصول کے لیے ہمیشہ کوئی نیا سیاسی حل پیش کرتا ہے اور یوکرین بحران سے متعلق حالیہ 12 نکاتی پوزیشن پیپر اس کی عملی تصویر ہے۔