اے آئی 4 سائنس کا تصور
شاہد افراز خان ،بیجنگ
حالیہ عرصے میں دنیا نے یہ دیکھا ہے کہ چین مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی بڑھتی ہوئی کمپیوٹنگ طاقت کے ذریعے سائنس اور ٹیکنالوجی میں اہم کامیابیاں حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس نے ملک میں انتہائی تیز رفتار ترقی دیکھی ہے۔ماہرین کے نزدیک سائنس کی بدولت مصنوعی ذہانت کی ترقی کو فائدہ ہوا ہے۔بلاشبہ دور حاضر میں مصنوعی ذہانت سمیت دیگر ٹیکنالوجیز کے میدان میں خودانحصاری ہر ملک کی خواہش بن چکی ہے اور اس حوالے سے چین نے خود کو دنیا میں انوویشن اور جدت کے ایک مرکز میں ڈھالنے کے لیے دوررس اہمیت کا حامل منصوبہ ترتیب دیا ہے جس کے تحت 2035 تک چین ایک گلوبل انوویشن لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آ سکے گا۔اس دوران اہم ٹیکنالوجیز کی ترقی کو فروغ دیتے ہوئے پیش قدمی کی جائے گی۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے طور پر چین ٹیکنالوجی کے میدان میں سبقت کے لیے آرٹیفشل انٹیلی جنس ،کوانٹم انفارمیشن ، انٹیگریٹڈ سرکٹس ،زندگی اور صحت ، برین سائنسز ، ائیرو اسپیس ، سائنس و ٹیکنالوجی اور ارضیاتی و سمندری کھوج کے حوالے سے کئی اہم اسٹریٹجک منصوبوں کی تکمیل کرے گا۔چین کا یہ موقف ہے کہ اس وقت دنیا میں اہم نوعیت کی تمام ٹیکنالوجیز کو خریدا نہیں جا سکتا ہے لہذا جدت اورتخلیق میں خودانحصاری ہی دیرپا کامیابی کی ضمانت ہے۔لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ باقی دنیا سے الگ تھلگ رہتے ہوئے ترقی کی کوشش کی جائے گی بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں سائنسی شعبے میں حاصل شدہ اہم کامیابیوں اور پیش رفت سے سیکھنے کا عمل بھی جاری رہے گا۔اس طرح "چینی دانش” کے تحت عالمگیر مسائل پر قابو پانے کے لیے ایک مثبت اور تعمیری کردار ادا کیا جائے گا۔
مصنوعی ذہانت کا اگر مزید تذکرہ کیا جائے تو آج، دنیا ایک ایسے مرحلے کو اپنانے کی منتظر ہے جہاں مصنوعی ذہانت سائنسی ترقی کو سہولت فراہم کرتی ہے۔اسی سلسلےکو آگے بڑھاتے ہوئے ابھی حال ہی میں چین میں دو روزہ "اے آئی فار سائنس” سمٹ کا انعقاد کیا گیا جس میں سائنس دانوں اور مصنوعی ذہانت سے وابستہ ماہرین نے مصنوعی ذہانت کے انقلاب کو سراہتے ہوئے اس کے دوررس اثرات کا جائزہ لیا ۔ماہرین کہتے ہیں کہ اے آئی فار سائنس (اے آئی 4 سائنس) ایک انٹر ڈسپلنری پلیٹ فارم تشکیل دے سکتی ہے اور سائنس دانوں کو تحقیق کی کارکردگی اور معیار کو بہتر بنانے کے لئے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔
اے آئی 4 سائنس بنیادی ڈھانچے کے چار ستونوں کا مطالبہ کرتی ہے جس میں الگورتھم ماڈل اور سافٹ ویئر ، تجرباتی اعداد و شمار ، ڈیٹا بیس اور مربوط کمپیوٹنگ پلیٹ فارم ، شامل ہیں۔اس سے قبل چین نے رواں سال مارچ میں فرنٹیئر سائنس ٹیک ریسرچ میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کو فروغ دینے کے لئے ایک منصوبے کا آغاز کیا تھا۔یہ منصوبہ جین ریسرچ اور حیاتیاتی افزائش کی کامیابیوں میں اے آئی ماڈلز اور الگورتھم کا اطلاق کرے گا۔اس کے علاوہ، جدت طرازی کنسورشیم کے قیام کو فروغ دینے اور کینسر کے علاج اور آب و ہوا کے بحران سمیت انسانی سائنسی چیلنجوں کا حل پیش کرنے کے لئے بین الاقوامی تعلیمی تبادلے کے پلیٹ فارم کی تعمیر کے لئے انٹرڈسپلنری ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ ٹیموں کو اکٹھا کیا جائے گا.
دوسری جانب اے آئی 4 سائنس نئے مواد، توانائی، ہوا بازی اور دواسازی میں انقلابی تبدیلیاں لا سکتی ہے۔مصنوعی ذہانت اور دنیا کے تیز ترین سپر کمپیوٹرز میں سے ایک کا استعمال کرتے ہوئے چینی سائنسدانوں نے پہلے ہی ایسے مواد تیار کرنا شروع کر دیے ہیں جو مستقبل میں طبی طور پر استعمال کیے جائیں گے۔اس حوالے سے بیجنگ میں قائم اے آئی اسٹارٹ اپ گیلیکسیر کے سائنسدانوں اور کمپیوٹر ماہرین نے ایک عملی ڈیپ لرننگ ٹول کٹ بھی تیار کی ہے ، جو کلینیکل ادویات کی دریافت کا بنیادی ذریعہ ہے۔یوں ،مصنوعی ذہانت پر مبنی الگورتھم کے ذریعے کمپیوٹر ، ڈاکٹروں کو معدے کے کینسر کی اقسام کا پتہ لگانے اور اعلی خطرے والی آبادیوں میں کینسر کی علامات کو دریافت کرنے کے لئے ٹولز بھی پیش کرتا ہے۔علاوہ ازیں ،نئے ایپلی کیشن منظرنامے بھی مصنوعی ذہانت کی صنعت کے لئے مواقع کا ایک ذریعہ ہیں کیونکہ سائنسدان مصنوعی ذہانت میں بڑی پیش رفت لا سکتے ہیں بالخصوص جب وہ مختلف مسائل کو حل کر رہے ہوں ،یوں دنیا میں موسمیاتی تبدیلی اور طب سے جڑے متنوع موضوعات سے متعلق پیش رفت ممکن ہے۔