بدین

بچیوں کی تعلیم میں حائل تمام رکاوٹیں ختم کی جائیں، ایچ آر سی پی

اردو ٹوڈے، بدین

ایچ آر سی پی

ایچ آر سی پی کے زیراہتمام سیمنار علمی ادبی سیاسی سماجی خواتین اور انسانی حقوق کی تنظیموں اور صحافیوں نے ریاست پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ بچیوں کی تعلیم میں حائل تمام رکاوٹیں ختم کر کہ اصول تعلیم کے لئے تمام وسائل سہولیات اور مناسب اور محفوظ ماحول مہیا کیا جائے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے زیراہتمام بدین پریس کلب میں منعقد سیمنار میں بدین کی علمی ادبی سیاسی سماجی خواتین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ صحافیوں نے بڑی تعداد میں شریک ہوئی۔

 اس موقع پر ایچ آر سی پی کے زیراہتمام ہونے والے سیمنار کے شرکاء نے ریاست پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ آئین پاکستان پر عملدرآمد کے علاوہ عالمی معاہدوں اور یقینی دہانیوں پر عمل کرتے ہوئے بچیوں کی تعلیم میں حائل تمام رکاوٹیں ختم کر کہ اصول تعلیم کے لئے تمام وسائل سہولیاتیں اور مناسب اور محفوظ ماحول مہیا کیا جائے تاکہ ملک قوم معاشرے اور خاندان کی ترقی خوشحالی اور معیار زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے ایک پڑھی لکھی عورت اپنا اہم کردار ادا کر سکے ۔

 اس موقع پر ایچ آر سی پی سندھ کے وائس چیئرمین قاضی خضر حبیب ریجنل کوآرڈینیٹر نیدا تنویر اور پروگرام ایسو کیٹو علی اوصت اور رکن سلیم جروار نے سندھ اور ضلع بدین میں تعلیم کی سہولتوں اور اقدامات کے محکمہ تعلیم حکومت سندھ کے اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے ان نامناسب سہولیات اور غیر معیاری اقدامات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریاست وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی آئینی زمہ داریوں اور فرائض کو پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے . اس موقع پر بدین کی علمی ادبی سیاسی سماجی شخصیات قومی عوامی جمہوری پارٹی کے سنئیر نائب صدر خادم علی تالپور سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے مرکزی نائب صدر ایڈوکیٹ امیر آزاد پہنور عوامی تحریک کے رہنما ایڈوکیٹ رام کوکولہی پروفیسر حاجی گھانچی حیدرآباد یونین آف جرنلیسٹ کے نائب صدر حاجی خالد محمود گمھن بدین پریس کلب کے صدر شوکت میمن سینئر صحافیوں تنویر احمد آرائیں شفیع محمد جونیجو عبدالشکور میمن عبدالمجید ملاح الطاف شاد میمن خواتیں سماجی رہنما صنم عباسی صدف کریو اور دیگر نے سیمنار میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ افسوس ہم اس ریاست ملک اور معاشرے میں رہتے ہیں جہاں کوئی بھی اپنی آئینی قانونی سیاسی اخلاقی اور مذہبی زمہ داری پوری نہیں کر رہا یہ ہی وجہ ہے کہ بچیوں کی ایک بہت بڑی تعداد اسکول جانے اور تعلیم حاصل کرنے کی بجائے گھر پر یا پھر چھوٹی ہی عمر میں ملازمت محنت اور مذدوری کے علاوہ بھیک مانگتے ہوئے دیکھائی دیتی ہیں اور ایسی وجہ سے وہ ظلم ستم جبر تشدد کا بھی شکار بن رہی ہیں . شرکاء کا کہنا تھا کہ پاکستان میں نظام میں لڑکیوں کی تعلیم میں بہت سی رکاوٹیں اور مشکلات ہیں۔ پاکستان کی ریاست وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ابھی تک ملک کے بچوں بالخصوص لڑکیوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایک مناسب نظام تعلیم تیار نہیں کیا ہے اور ہی مناسب اور محفوظ ماحول مہیا کیا گیا ہے . شرکاء نے کہا جس ملک کے دو کروڑ سے زائد چھوٹے بچے اسکولوں سے باہر ہوں اور تعلیم سے محروم ہوں وہ ملک اور معاشرہ کیا ترقی کرے گا .شرکاء کا کہنا تھا کہ بچیوں کی تعلیم کے بغیر ملک قوم اور معاشرے کی ترقیاتی اور خوشحالی ممکن ہی نہیں . شرکاء نے اس موقع پر مطالبہ کیا کہ ریاست وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی آئینی قانونی زمہ داری کو پورا کرتے ہوئے ملک کی ہر بچی اور بچہ کا اسکول میں داخلہ کو ممکن بناتے ہوئے تمام تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے لئے اقدام پر عملدرآمد کرے .

Leave a Reply

Back to top button