شاہد افراز خان ،بیجنگ
حالیہ برسوں میں دنیا نے بخوبی دیکھا ہے کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) نے عالمی اقتصادی ترقی کے لئے نئے انجن اور بین الاقوامی تعاون کے لئے ایک نیا نمونہ تخلیق کیا ہے ، جس سے چین اور دیگر بی آر آئی ممالک کی ترقی کو فروغ ملا ہے۔اسی حوالے سے ابھی حال ہی میں چین نے "دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو: مشترکہ مستقبل کی عالمی برادری کا ایک اہم ستون” کے عنوان سے ایک وائٹ پیپر جاری کیا، جس میں اس اقدام کو "عالمی ترقی کے مسائل کا ایک چینی حل” قرار دیا گیا، جس کا مقصد شریک ممالک میں جدیدیت کو فروغ دینا، معاشی گلوبلائزیشن کو زیادہ متحرک، جامع اور پائیدار بنانا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ثمرات دنیا بھر کے لوگوں میں منصفانہ طور پر تقسیم کیے جائیں۔
دیکھا جائے تو بی آر آئی تعاون نے بین الاقوامی تعاون کے لئے ایک نیا نمونہ تخلیق کیا ہے، جو جیو پولیٹیکل گیمز کی فرسودہ ذہنیت سے اوپر اٹھ رہا ہے۔یہ اس اقدام کی مقبولیت ہی ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران چین نے 150 سے زائد ممالک اور 30 سے زائد بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ بی آر آئی تعاون کی دستاویزات پر دستخط کیے ہیں۔ بی آر آئی کے دوستوں کا حلقہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے، جو پوری طرح سے ثابت کرتا ہے کہ اس اقدام کا مقصد کوئی گروہ یا محدود دائرہ قائم کرنا نہیں ہے۔اسی باعث گزشتہ ایک دہائی میں چین اور دیگر بی آر آئی ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔وائٹ پیپر میں کہا گیا ہے کہ 2013 سے 2022 تک چین اور دیگر بی آر آئی ممالک کے درمیان درآمدات اور برآمدات کی مجموعی مالیت 19.1 ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی، جس کی اوسط سالانہ شرح نمو 6.4 فیصد ہے۔چین اور دیگر بی آر آئی ممالک کے درمیان مجموعی طور پر دو طرفہ سرمایہ کاری 380 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ چکی ہے ، جس میں چین سے 240 بلین امریکی ڈالر شامل ہیں۔
بی آر آئی کو اس بات کا سہرا بھی جاتا ہے کہ اس نے ایک سرے پر متحرک مشرقی ایشیا کے اقتصادی حلقے کو ترقی یافتہ یورپی اقتصادی دائرے سے منسلک کیا ہے اور ایسے ممالک کو بھی شامل کیا ہے جن میں اقتصادی ترقی کے وسیع امکانات موجود ہیں، جس سے افریقی اور لاطینی امریکی ممالک کے ساتھ قریبی اقتصادی تعاون کو بھی فروغ ملا ہے۔دس سال قبل اپنے آغاز کے بعد سے بی آر آئی تصور سے عمل میں، ایک وژن سے حقیقت میں اور ایک عام فریم ورک سے ٹھوس منصوبوں میں تبدیل ہوا ہے۔اس دوران بین الاقوامی برادری نے اسے عوامی بھلائی اور تعاون کے پلیٹ فارم کے طور پر خوش آمدید کہا ہے،بی آر آئی تعاون نے شرکت کرنے والے ممالک کو حقیقی فوائد فراہم کیے ہیں، اس نے اقتصادی گلوبلائزیشن کی مضبوط ترقی میں کردار ادا کیا ہے اور عالمی ترقی کے چیلنجوں کو حل کرنے اور عالمی گورننس کے نظام کو بہتر بنانے میں مدد کی ہے۔
بی آر آئی نے تمام انسانیت کے لیے جدیدیت کے حصول کے لیے ایک نیا راستہ بھی کھول دیا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ مشترکہ مستقبل کی عالمی برادری کی تعمیر کی کوششیں حقیقی نتائج دے رہی ہیں۔ اگلا قدم اٹھاتے ہوئے چین اقتصادی ترقی کے نئے محرکات کو فروغ دینے کے لئے کام کر رہا ہے ، جبکہ بڑے کلیدی منصوبوں کے ساتھ ساتھ کچھ "چھوٹے لیکن اسمارٹ” منصوبوں کو آگے بڑھا رہا ہے تاکہ بی آر آئی میں شریک ممالک کو ترقی کے لئے ٹھوس بنیاد رکھنے میں مدد ملے۔چین کا یہ عزم بھی ہے کہ وہ سلک روڈ ای کامرس تعاون کے لئے ایک پائلٹ زون تشکیل دے گا اور ڈیجیٹل تجارت پر عالمی نمائش کی میزبانی کرے گا تاکہ ترقیاتی فوائد کا دیگر بی آر آئی ممالک کے ساتھ اشتراک کیا جاسکے۔ساتھ ساتھ چین ، دو طرفہ تجارت کو آسان بنانے کے لئے ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ کے لئے جامع اور ترقی پسند معاہدے اور ڈیجیٹل اکانومی پارٹنرشپ معاہدے میں شمولیت کے لئے فعال طور پر کام کر رہا ہے۔چین کا یہ بھی کہنا ہے وہ اپنی کمپنیوں کو بیلٹ اینڈ روڈ کی تعمیر میں حصہ لینے اور بی آر آئی ممالک میں پائیدار ترقی کے حصول کے لئے گرین اکانومی، ڈیجیٹل اکانومی اور دیگر شعبوں میں تعاون کو گہرا کرنے میں بھی مدد فراہم کرے گا۔یہ اقدامات واضح کرتے ہیں کہ چین نہ صرف اپنی ترقی چاہتا ہے بلکہ دیگر شراکت داروں کو بھی ترقی کے سفر میں ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے ، جو مشترکہ خوشحالی کی شرط اول ہے۔