کالم

مضبوط مالیاتی شعبے کا حامل ملک

شاہد افراز خان ،بیجنگ

دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کی جانب سے  مالیاتی شعبے کی اعلیٰ معیار کی ترقی کو آگے بڑھانے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر اور خود کو مالیاتی پاور ہاؤس میں ڈھالنے کے لئے تازہ اور مضبوط اشارے  سامنے آئے ہیں۔گزشتہ اکتوبر میں منعقدہ مرکزی مالیاتی ورک کانفرنس نے ایک مضبوط مالیاتی شعبے کی حامل قوم کی تعمیر  میں تیزی لانے پر زور دیا تھا۔چین کی اعلیٰ قیادت یہ سمجھتی ہے کہ ایک مضبوط مالیاتی شعبے والے ملک کی مضبوط اقتصادی بنیاد ہونی چاہیے اور اسے معیشت، ٹیکنالوجی اور جامع قومی طاقت میں دنیا کی قیادت کرنی چاہیے۔اسی طرح ملک کے پاس اہم بنیادی مالیاتی عناصر کا ایک سلسلہ بھی ہونا چاہئے جن میں ایک مضبوط کرنسی ، ایک مضبوط مرکزی بینک ، مضبوط مالیاتی ادارے ، مضبوط بین الاقوامی مالیاتی مراکز ، مضبوط مالی نگرانی ، اور مالیاتی صلاحیتوں کی حامل ایک اعلیٰ ٹیم ، شامل ہیں۔

Financial institution

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک مضبوط کرنسی کو فنانس کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں چینی کرنسی یوآن کی بین الاقوامیت میں مسلسل ترقی کے ساتھ ، اس نے عالمی تجارتی مالیات میں اپنا شیئر نمایاں مقام تک بڑھا دیا ہے۔تاہم ، اقتصادی ماہرین کے خیال میں یوآن اب بھی عالمی ادائیگی، سرمایہ کاری، فنانس اور ریزرومیں حصص کے لحاظ سے بڑی بین الاقوامی کرنسیوں سے پیچھے ہے۔اسی طرح ملک کو اعلیٰ معیار کی ترقی کی جانب منتقل کرنے کے لیے مرکزی بینک کا ایک جدید نظام بھی ضروری ہے، جو افراط زر کے ساتھ ساتھ منظم مالی خطرات سے بچنے کے لیے معاشی اپ گریڈیشن میں ٹھوس مدد فراہم کرتا ہے۔

چین کے لیے یہ امر باعث اطمینان ہے کہ اُس کے مالیاتی اداروں نے طاقت اور اثر و رسوخ میں اضافہ دیکھا ہے ، مجموعی طور پر چار ہزار سے زیادہ بینکاری ادارے اور پانچ قرض دہندگان کو عالمی نظام کے لحاظ سے اہم بینکوں کے طور پر شمار کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ، ملک کو زیادہ عالمی اثر و رسوخ کے حامل مزید مسابقتی بین الاقوامی مالیاتی مراکز کی ضرورت ہے. سائنسی اور موثر نگرانی کے ساتھ مالی ترقی کی سلامتی کو بڑھانا اور مالیات کی پیچیدگی کو حل کرنے کے لئے ضروری پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ایک مضبوط ٹیلنٹ پول تیار کرنا بھی لازم ہے۔

انہی عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کی اعلیٰ قیادت نے مالیاتی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے کے لیے چینی خصوصیات کے حامل جدید مالیاتی نظام کی تعمیر میں تیزی لانے پر زور دیا ہے۔اس میں چھ پہلوؤں کے اعتبار سے کوششوں پر زور دیا گیا ہے، جن میں مالیاتی ریگولیشن، مارکیٹ، ادارے، نگرانی، مصنوعات اور خدمات اور بنیادی ڈھانچہ شامل ہیں، جن کا مقصد معاشی اور سماجی ترقی کے لئے اعلیٰ معیار کی مالیاتی خدمات فراہم کرنا ہے۔اعلیٰ قیادت نے چینی خصوصیات کی حامل مالیاتی ثقافت کو فروغ دینے کا بھی مطالبہ کیا ہے اور ملک کی مالیاتی سافٹ پاور کو بہتر بنانے کے لئے آگے بڑھنے کے طریقوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ چین کے پاس دنیا کا سب سے بڑا بینکاری نظام اور دوسری سب سے بڑی انشورنس، اسٹاک اور بانڈ مارکیٹ ہے۔ اس کے باوجود، حقیقی معیشت کے لئے ملک کی مالیاتی خدمات کے معیار اور کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے.اسی باعث مرکزی مالیاتی ورک کانفرنس کے دوران واضح کیا گیا کہ چین کو ٹیکنالوجی فنانس، گرین فنانس، انکلوسیو فنانس، پنشن فنانس اور ڈیجیٹل فنانس کے شعبوں میں نمایاں کوششیں کرنی ہوں گی۔اس خاطر  درمیانی اور طویل مدت میں زیادہ مالی وسائل جمع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ترقی کے اعتبار سے اہم اسٹریٹجک شعبوں کی مؤثر مدد کی جا سکے۔چین کا موقف بڑا واضح ہے کہ اعلیٰ سطحی مالیاتی کھلے پن کو فروغ دیتے ہوئے کھلی پالیسیوں میں بہتر شفافیت اور استحکام لایا جائے جس سے زیادہ سے زیادہ غیر ملکی مالی اعانت والے مالیاتی اداروں اور طویل مدتی سرمائے کو راغب کرنے میں مدد ملے گی۔ایسی موئثر پالیسیوں کی بدولت چین کے مالیاتی شعبے کی عالمی مسابقت اور حقیقی معیشت کو فروغ دینے کی اس کی صلاحیت میں بہتری آسکتی ہے  ، جو عالمی معاشی بحالی کی کوششوں کے لیے بھی سازگار امر ہے۔

شاہد افراز

شاہد افراز خان پیشے کے اعتبار سے براڈکاسٹر ہیں۔سن 2007 میں بطور پروگرام پروڈیوسر ریڈیو پاکستان اسلام آباد سے نشریاتی سفر کا آغاز کیا۔ اس وقت چائنا میڈیا گروپ بیجنگ کی اردو سروس سے وابستہ ہیں۔

Leave a Reply

Back to top button