روایتی گجرات کی سیاست اور انتخابات میں خواتین کو درپیش رکاوٹیں
نادیہ نواز
پاکستان میں سیاست ہمیشہ سے وڈیرہ ، نواب ، جاگیردار ، سردار اور معاشی طور پر مستحکم لوگ کرتےآرہے ہیں ۔ روایتی معاشرے میں کبھی بھی انتخابات میں عام آدمی منتخب ہوکر نہیں آپاتا کیونکہ الیکشن کمپئن کا خرچہ ہی اتناہوتاہے جسے ایک عام آدمی اور متوسط گھرانے سےتعلق رکھنے والا شخص بلکل بھی برداشت نہیں کرسکتا ۔ پاکستان میں سیاست کس طرح نسل در نسل منتقل ہوتی ہے پھر اس سیاست میں خاندانی اختلافات کیسے جنم لیتے ہیں انکا جائزہ لیتےہیں۔
8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں ملک کے مختلف حلقوں میں دلچسپ مقابلے ہو رہے ہیں۔ گجرات کی قومی اسمبلی کی نشست این اے 64 گجرات اور پنجاب اسمبلی کی دو نشستوں پی پی 31 اور پی پی 32 اہم ہے جہاں باپ بھائیوں کا مقابلہ ہے۔ گجرات کے ظہور الٰہی خاندان میں پہلی بار سیاسی اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں۔
چودھری شجاعت کی بڑی بہن قیصرہ الٰہی جو پرویز الٰہی کی اہلیہ ہیں، کو این اے 64 سے پی ٹی آئی کا ٹکٹ جاری کر دیا گیا، ان کا انتخابی نشان مور ہے۔ پی پی 31 پر پی ٹی آئی نے مدثر رضا کو ٹکٹ دیا ہے ۔ پی پی 32 پرویز الٰہی کی نشست ہے اور وہ 1985 سے جیت رہے ہیں، چوہدری شجاعت کی چھوٹی بہن اور پرویز الٰہی کی بھابھی سمیرا الٰہی پی پی 34 سے پی ٹی آئی کی امیدوار ہیں۔ چودھری شجاعت کی دونوں بہنیں ان کے خلاف ہیں۔
جائیداد کی تقسیم کے حوالے سے بھی عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں۔ چودھری شجاعت کے والد چودھری ظہور الٰہی تھے جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے والے جج مولوی مشتاق کا قلم خریدا، جس سے جج نے پھانسی کے حکم نامے پر دستخط کئے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قلم ان کے لیے ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے اور وہ اس قلم کو اپنے ڈرائنگ روم میں رکھتے تھے اور اس کا ذکر فخر سے کیا کرتے تھے۔ پی پی پنجاب کے جیالن چودھری نے بھی ظہور الٰہی پر حملہ کیا جس میں وہ بچ گئے۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے۔ چوہدری شجاعت کے صاحبزادے چوہدری سالک حسین قومی اسمبلی کے حلقہ 64 سے مسلم لیگ (ق) کے امیدوار ہیں اور اپنے دونوں دادا قیصرہ اور سمیرا کے مدمقابل ہیں۔
مسلم لیگ (ن) نے کسی امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا اور وہ مسلم لیگ (ق) کی حمایت کر رہے ہیں تاہم مسلم لیگ (ن) کے مقامی رہنما آزاد امیدوار ہیں جنہیں پارٹی کی خفیہ حمایت حاصل ہے۔ اگر اس نے ہاتھ نہ لیا تو اس کا فائدہ پی ٹی آئی کو ہو گا اور سائیکل پنکچر ہو سکتی ہے۔
عام انتخابات میں بڑے بھائی چودھری عابد رضا قومی اسمبلی کے لیے میدان میں ہیں جبکہ ان کے 4 چھوٹے بھائی صوبائی اسمبلی کے لیے میدان میں اتریں گے۔
مسلم لیگ ن کے ڈویژنل صدر چودھری عابد رضا قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 62 سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
چودھری شبیر رضا، چودھری نعیم اور چودھری شاہد صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 28 سے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑیں گے۔
دوسری جانب چودھری محمد علی پی پی 33 سے ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ چودھری شبیر رضا ن لیگ کے امیدوار ہیں جبکہ چودھری نعیم رضا ق لیگ اور چودھری شاہد رضا پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈر ہیں۔
عمران ارشد کہتے ہیں
کہ ہمارا معاشرہ سیاست میں پھنسا ہوا ہے۔ پولیس کچہری تھانہ سب اس کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں اس ملک میں شر ع سے وڈیرہ شاہی چل رہا ہے اور یہ وڈیرہ سسٹم اب آہستہ آہستہ اپنی زوال کی طرف جا رہا ہے۔ انکا کہناہے کہ جب کوئی عام آدمی سیاست میں آتا ہے تو اس کا اتنا سیاسی طور پر اثر رسوخ نہیں ہوتا اس کی لوگوں کے ساتھ اتنی جان پہچان نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ ووٹوں سے کامیابی حاصل نہیں کر پاتا وہ کہتے ہیں کہ ان کے حلقے میں زیادہ پاکستان کی 2023 کی مردم شماری کے مطابق گجرات کی ٹوٹل آبادی3219375 اور ان کی سالانہ آبادی میں 2.6 فیصد کی شرح سے تبدیلی ہوئی ہے جس میں مردوں کے تعداد48 فیصد ہیں اور خواتین کی 61.67 فیصد ہے 15 سے 64 سال کی عمر کی شراح 59.5 فیصد ہے اور شہری علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے تعداد 70 فیصد اور دیہاتی علاقوں میں رہنے میں لوگ تعداد 30 فیصد ہے
پاکستان الیکشن کمیشن کے مطابق رجسٹر ووٹر کی گنتی کر دی گئی ہے ٹوٹل ووٹر کی تعداد 12 کروڑ66 لاکھ 874 ہے مرد ووٹرز کی تعداد چھ کروڑ 80 لاکھ 99ھزارھے
زور تحریک انصاف کا ہے ان کو صرف 26 دن ملے ہیں اب ان 26 دنوں میں وہ کیا کر سکتے ہیں عمران ارشد کہتے ہیں کہ وہ روزانہ 20 سے 30 گاؤں میں جاتے ہیں لوگ انہیں بہت پروٹوکول دیتے ہیں اب پیپلز پارٹی یہاں پر بہت اچھے ووٹروں سے کامیاب ہو گی اور آنے والے وقت میں ملک کا وزیراعظم بلاول بھٹو زرداری ہوگا
قومی اسمبلی میں 266 جنرل نشستیں ہیں اور خواتین کی 66 نشستیں ہیں لہذا چار سیٹیں پر خواتین کی ایک نشست محسوس کی گئی اس طرح اقلیتوں کی دس نشستیں مختص کی گئی یعنی 26 سیٹیں جتنے بر ایک اقلیتی سیٹ ہوگی پنجاب میں جو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے پنجاب کے جنرل نشستیں 297 ہیں اور خواتین کے لیے 66 نشستیں ہیں اس طرح کسی بھی پارٹی میں چار جیتنے والی خواتین کی ایک نشست محسوس ہوگی محسوس نشستوں پر سیٹوں کی منظوری پارٹی کا چیئرمین خود کرے گا پولیٹیکل پارٹی ایکٹ کے مطابق چیئرمین کے اختیار کو کوئی بھی چیلنج نہیں کر سکتا اسمبلیوں میں اس خواتین کو ان حصوں پر لایا جاتا ہے جن خواتین اور ان کا پارٹی پر اثر رسوخ زیادہ ہو جن کی جانب سے پارٹی کو کافی زیادہ فنڈ ملتا ہو
الیکشن کمیشن کے مطابق خواتین ووٹر کی تعداد پانچ کروڑ 69 لاکھ 67 ہزار 259 ہے مرد بارڈر اس کی تعداد 54 یا دو فیصد ہے اور خواتین موٹر کی تعداد 4598 فیصد ہے ملک میں عمر کے لحاظ سے ووٹر کا ہی اعداد و شمار نوجوان جو 18 سے 25 سال کی ووٹر ہیں ان کی تعداد دو کروڑ 35 لاکھ 2634 ہے 26 سے 35 سال کے ووٹرز کی تعداد تین کروڑ 26 لاکھ 70 ہزار445 ہے 36 سے 45 سال کے ووٹرز دو کروڑ 70 لاکھ 66 ہزار 976 ہیں تھا جس کی عمر 45 سال کے ووٹرز کی تعداد دو کروڑ 70 لاکھ 66 ہزار 976ہے الیکشن کمیشن کے مطابق 46 سے 55 سال کے پورٹرز کی تعداد ایک کروڑ 81 لاکھ 19 ہزار 968 ہے جن کی عمر 66 سال ہے ان ووٹرز کی تعداد ایک کروڑ 20 لاکھ90 ہزار 816 ہیں۔
گجرات سے تعلق رکھنے والےفیصل رانا کہتےہیں میرا تعلق بھی سیاسی جماعت سے ہے ہم چاہتےہیں ہمارا نمائندہ جیسے ہمیشہ یہاں سے جیتا آیاہے بلکل ویسے ہی یہاں سے جیتے گجرات ترقی کرے اور ملک ترقی کریں۔
سینئر تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں پاکستان میں سیاست نسل در نسل تقسیم ہوچکی ہے۔اور لوگ بخوشی اسے فالو کررہے ہیں۔ برادری خاندان پرانا حوالہ ہی یہاں جیت کی ضمانت بنتاہے۔
جرات تحصیل کھاریاں سٹی گلیانہ اور گاؤں چک بختاور میں رہتی ہیں وہ اس وقت ایک اسکول میں ٹیچر ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان کے گاؤں میں بہت سے مسائل ہیں جس میں گیس کا نہ ہونا سڑکیں ٹوٹی ہونا گلیاں پکی نہ ہونا شامل ہیں وہ کہتی ہے کہ شاید وہ اس بار ووٹ ڈالنے کے لیے کسی کا بھی انتخاب نہ کریں کیونکہ وہ کہتی ہیں الیکشن سے پہلے ہر سال ہی دعوی کرتا ہے تو وہ ساری زندگی سہولیات گیس سڑکیں گاؤں کو فراہم کریں گے لیکن جب وہ الیکشن جیت جاتے ہیں تو کوئی بھی سہولت بھی نہیں مہیا کرتے ان کا کہنا ہے کہ ان جھوٹی باتوں میں آنے سے بہتر ہے کہ وہ اپنا ووٹ کسی کو بھی نہ دے اور کسی بھی پارٹی سے کوئی بھی امید نہ لگائیں ان کا کہنا ہے کہ اتنے سالوں میں جب بھی انہوں نے ووٹ دیا ان کے گاؤں میں کوئی بھی تبدیلی نہیں ہوئی جو سڑکیں ٹوٹی تھی وہ آج بھی ٹوٹی ہوئی ہیں۔
کیا خواتین کو ووٹنگ میں انتخاب کی آزادی حاصل ہے اگر خواتین اپنے خاندان کی مردوں پر انحصار کرتی ہیں حتی کہ شناختی کارڈ بنوانے کے لیے بھی خاندان کے مردوں پر انحصار کرتے ہیں اور ووٹ ڈالے کا موقع ملے تو اختیارسازی کا حق بھی خاندان کے سربراہ کو سونپ دیا جاتا ہے خواتین کا ووٹنگ میں شرکت نہ کرنے کا بڑا مسئلہ ان کا ملازمت کرنا بھی ہے جو خواتین ملازمت کرتی ہیں وہ بڑی مشکل سے فرصت نکالتی ہیں لمبی لائن میں کھڑے ہونا ان کے لیے کافی دشوار ہوتا ہے لہذا وہ اپنے خاندان کو سہولت فراہم کرنے کی ذمہ داری سرانجام دیتی ہیں اور ووٹنگ کے حق کو حق نہیں سمجھتی ووٹ ڈالنے والی خواتین کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ ووٹ ڈالنے جاتی ہی نہیں خواتین کا کہنا ہے کہ پولنگ اسٹیشن پر مردوں کا اتنا رش ہوتا ہے کہ بعض اوقات انہیں ہراساں بھی کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے انہیں اپنے حق کے رائے دہی میں درپیش مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے خواتین کو پولنگ اسٹیشن باہر سے بڑا مسئلہ عملے کا رویہ ہے رپورٹس کے مطابق نادرہ کے بعض ذفاتر میں بھی NIC کے لیے مردحضرات کو فوٹوگرافروں کی ملازمت دے دی جاتی ہے خواتین ہچکچاہٹ کی وجہ سے این آئی سی ہی نہیں بنواتی جس کی وجہ سے ان کو ووٹ ضائع ہو جاتا ہے دیہی علاقوں میں گجرات کی زیادہ تر آبادی جو کہ دہی علاقوں میں آباد ہیں ان خواتین کا کہنا ہے کہ پولنگ سٹیشن آبادی سے کچھ فاصلے پر واقع ہوتے ہیں جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ خاص طور پہ خواتین کو رسائی کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے ووٹ ڈالنے نہیں ڈال سکتی خواتین کو پولنگ سٹیشن دور ہونے کے علاوہ لسٹوں میں ناموں کی غلطیاں اور عملے کا غیر دوستانہ رویہ اجتماعی طور پر خواتین کے ہموار شرکت میں رکاوٹ ہے۔