ضلع سانگھڑ میں کنگرانی (مری بلوچ) اور عزاداری کی رسم : تاریخ کے تناظر میں
ڈاکٹر سرکار حسین اسدی
کولو کاہان (بلوچستان) سے تعلق رکھنے والے سردار ہارون خان مری کے تین بیٹے گزین خان ،بجار خان اور کنگر خان بلوچ قبائلی تاریخ کے نمایاں نام ہیں ، تین بھائیوں کے جدائی کی کہانی تب شروع ہوتی ہے ، جب بھائیوں کے آپس میں اختلافات کے نتیجے میں بجار خان اور کنگر خان نے بلوچستان سے ہجرت کرکے سندہ کی طرف رخ کیا ،جبکہ گزین خان کی نسل آج” مری بلوچ گزینی “ کے نام سے پہچانی جاتی ہے ،جن میں سے نواب خیر بخش مری ایک معروف شخصیت کے طور پر سامنے آئے ۔

بجار خان اور کنگرانی شاخوں کا قیام
بجار خان نے کشمور اور کندہ کوٹ کے علاقوں میں قیام کیا ،جہاں ان کی نسل کو بجارانی کے نام سے جانا جاتا ہے ، اس نسل کی اہم اور مشہور شخصیات میں نواب ہزار خان بجارانی ،نواب شبیر خان بجارانی شامل ہیں،انہوں نے وہاں سکونت اختیار کرنے کے بعد مذہب اہلبیت علیھم السلام اختیار کیا اور اسی دروازے سے متمسک ہوگئے۔ جو موضوع بحث ہے وہ نواب کنگر خان ہے،جس کے افراد سندہ کے مختلف علاقوں میں آبادہوئے ،جن میں ضلع سکھر، کوٹڑی کبیر،خانواہن،نوشہرہ فیروز،مورو،کوٹ لالو،دریا خان،باندھی،دوڑ ،سٹھ میل،جام داتار اور سنجھورو جیسے مقامات شامل ہیں ، کنگر خان نے آخری اور مرکزی سکونت بوبی کے نزدیک اختیار کی ، اس گاؤں کا نام "جام نندو خان مری ” رکھا ۔ اس کے بعد آس پاس کی زمینوں کو خریدنا شروع کیا ،اس خریدداری کے ضمن میں بوبی شہر کو خرید لیا جہاں ان کا مسکن ِ راس ہے ،جہاں آج بھی کنگرانی مری اس مرکز کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔یاد رہےکہ بوبی شہر اس وقت موجود نہیں تھا یہ شہر سردار کنگر خان کی ملکیت پر انگریزوں نے آباد کیا تھا ۔
مذہبِ اہل بیت علیہم السلام کی طرف روحانی سفر
سندھ میں دو سو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بیسویں صدی کے اوائل تک یہ خاندان سنی مسلمان تھا ، مگر فقہ اہل بیت علیھم السلام سے عملی وابستگی ابھی نصیب نہیں ہوئی تھی ۔ جب شہزادی فاطمۃ الزہراؑ کا خاص کرم ہوا تویہ روحانی انقلاب مشہور بزرگ میاں میر صاحب محمد عباسی ،جو اس وقت (لیہ، بھکر اور ڈیرہ غازی خان کے معروف پیر تھے)کی تبلیغ سے متاثر ہو کر سردار مراد بخش خان مری (جو کہ قادر داد خان کے رشتے میں چاچا تھے) نے فیصلہ کیا کہ فقہ جعفریہ کو اپنایا جائے اور اپنے خاندان اور قبیلے کو راہِ حق پر گامزن کیا جائے۔
عزاداری کی بنیاد :اور 11 محرم الحرام کی نیاز اور مجلس عزاء کا آغاز
فقہ اہل بیت علیہم السلام سے متمسک ہونے کے بعد سردار قادرداد خان مری نے عشرہ محرم الحرام کروانے کا اراداہ کیا، مستبصرہونے بعد جیسی ہی پہلا محرم الحرام آیا تو اس میں شہداء کربلاء کی عظیم قربانی کی یاد میں بوبی شہر (جو کہ انگریزوں کے دور میں آباد شہر ہوا ) میں عشرہ محرم الحرام منعقد کروایا،دس دن ذکر محمد وآل محمد سننے کے بعد جب گیارہواں دن ہوا تو امام باڑہ خالی نظر آیا جس وجہ سے سردار میر قادر داد خان کنگرانی کی دل میں خیال آیا کہ اتنے دن سارے علاقے کے لوگ آتے تھے مل کر پاک سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کو پرسہ دیتے تھے مگر اچانک سب چلے گئے ،جبکہ آل محمد پر مزید دکھ ودرد کے دن تو گیارہ محرم الحرام سے شروع ہوتے ہیں ،یہ سوچ کر عہد کیا کہ آئندہ ہر سال عشرہ محرم الحرام کے ساتھ ایک اور مزید ذکر محمد وآل محمد کا انتظام کریں گے،وہ گیارہ محرم الحرام 1925ع کا دن تھا جس کی تاریخ مقرر کی گئی،سردار میر قادر داد خان کنگرانی کی صالح اولاد نے اس دن کو آج تک زندہ رکھا اور اسی آب و تاب سے مناتے آ رہے ہیں، چنانچہ 11 محرم کی یہ عظیم نیاز اور مجلس عزاء 1925ع میں رکھی گئی، جو 2025 میں اپنے سو سال مکمل کر رہی ہےـ
کربلاء سے روحانی و جسمانی تعلق
سردار قادر داد خان نے بحری جہازوں کے ذریعے سفر کربلا معلیٰ کیا ۔سردار نے نہ صرف کربلاء کی زیارت کی بلکہ وہاں ایک موکب کے لئے زمین خریدی اور وہاں ایک موکب قائم کیا ۔ ہر سال کئی غریب، مسکین اور مفلسوں کو اپنے خرچ پر کربلا ء کا زائر بنایا۔ حیدرآباد سندھ میں میرصاحبان اور مرزا صاحبان کے ساتھ مل کر قدم گاہِ مولا کی انجمن امامیہ قائم کی، اور "اہلِ بیت” نامی اخبار اپنے خرچ پر شائع کراتے تھے جس کا بعد میں نام تبدیل کر کرکے پنجتنی اخبار رکھا گیا، ان کا تقویٰ اور انکساری قابلِ مثال تھی،وہ میر صاحبان سے شرط رکھتے تھے کہ میں ہر طرح کا خرچ کرنے کو تیار ہوں مگر اس شرط پر کہ کہیں بھی میرا نام ظاہر نہ کیا جائے اور نہ ہی میرے نام کی تختی لگائی جائے،اس کو کہتے ہیں نیکی کر دریا میں ڈال۔ اس دور میں جو کوئی تحریک اٹھتی تو لکھنؤ تک وفود بھیجتے اور اس میں شرکت کرتے، جن میں 1936ء اور 1939ء کی تحریکیں نمایاں ہیں۔
انعامِ خداوندی ،اور کربلاء کی عطا
عجیب بات یہ تھی کہ ان کے گیارہ نسلوں تک صرف ایک ہی بیٹا زندہ بچتا تھا ،اگر کوئی اتفاق سے دوسرا پیدا بھی ہوتا تھا تو مرجاتا تھا ،اس دفعہ ایسا ہوا کہ کربلائے معلی کی زیارت کر کے 1935ء میں واپس آئے تو ان کے ہاں پہلا بیٹا پیدا ہوا، جن کو لوگ صاحب (وڈو) رئیس غلام علی خان کے نام سے جانتے ہیں۔ 1940ع میں ایک بیٹی پیدا ہوئیں جو مرتے دم تک امام بارگاہ کی خدمت گزار رہیں، اور 1950ع میں دوسرا بیٹا پیدا ہوا جنہیں صاحب( ننڈو) رئیس لطف علی خان کے نام سے جانتے پہچانتے تھے ۔یہ بیٹےاور بیٹی زندگی بھر عزاداری اور خدمتِ امام میں مصروف رہے ۔
سردار قادرداد خان کی کربلاء میں تدفین
کربلا میں اس وقت کے خدام جناب نوری شاہ، مالکی شاہ اور ان کے بیٹے آغا طالب شاہ (جن کا پوتا حیدر شاہ آج بھی کربلا کے نواحی علاقے میں مقیم ہے) کی مدد سے وہاں موکب قائم کیا گیا اور صحنِ امام حسینؑ میں دفن کی جگہ بھی حاصل کی گئی۔ 1956ع میں سردار قادر داد خان اپنے آبائی گاؤں، جام نندو خان مری، سانگھڑ سندھ میں وفات پا گئے۔ ان کے جسدِ خاکی کو 18 ماہ تک امانتاً دفنایا گیا۔ 1958ع میں سرکاری نگرانی میں قبرکشائی ہوئی، جس میں سانگھڑ کے متعدد معززین نے شرکت کی۔ ان کی میت امانتاً محفوظ نکلی، جو سائنسی اعتبار سے بھی حیرت انگیز بات تھی،مگر (من مات علی حب محمد و آل محمد مات شھیداً ) کے کامل مصداق نکلے ، اس کا جسم اس طرح تر و تازہ تھا کہ جیسے ابھی دفنایا گیا ہو !۔ بعد ازاں بحری جہاز کے ذریعے میت کو کربلا پہنچایا گیا اور روضۂ امام حسینؑ میں مقتل گاہ و تلہ زینبیہ کے درمیان دفن کیا گیا۔ ان کی قبر کے سرہانے ایک بلب لگایا گیا، جس کا بل منی آرڈر کے ذریعے پاکستان سے بھیجا جاتا رہا، یہاں تک کہ صدام حسین کے دورمیں ایران-عراق جنگ کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔
نسلِ صالحہ کی خدمات
سردار قادر داد خان کے بعد، 11 محرم میں ایک اور روحانی انقلاب آیا، جب ان کے بڑے بیٹے رئیس غلام علی خان مذہبی رجحان کی وجہ سے علامہ رشید ترابی صاحب اور سید اظہر حسن زیدی صاحب کے بہت قریب ہو گئے۔ دونوں بزرگ انہیں اپنے بیٹے کی مانند سمجھتے تھے۔ سید اظہر حسن زیدی، جن کی کوئی اولاد نہ تھی، کہا کرتے: "میں بے اولاد نہیں، غلام علی میرا بیٹا ہے۔”1960ع سے 1980ع کی دہائیوں میں شاید ہی کوئی ایسا معروف عالم یا ذاکر ہو جس نے 11 محرم کو بوبی میں مجلس نہ پڑہی ہو۔ رئیس غلام علی خان سانگھڑ کے قدیم نو جلوسوں میں سے چھ جلوسوں کے بانی تھے، جنہیں وہ امامِ زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی سرپرستی میں نکالتے تھے۔ وہ شیعہ سنی اختلافات کو نہیں مانتے تھے، تمام مکاتبِ فکر کے مقدسات کا احترام کرتے، اور اہلِ سنت حضرات کو بھی اپنے قریب رکھتے۔ وہ کہا کرتے:”جب ظہورِ امامؑ کے بعد حق ظاہر ہونا ہے تو ہم صبر کرتے ہیں جھگڑا کس بات کا ،ہم لا وارث نہیں!”
بالآخر 1986ء میں ان کی ہمشیرہ، 1989ء میں رئیس غلام علی خان، اور 1998ءمیں رئیس لطف علی خان مالکِ حقیقی سے جا ملے۔ آج بھی ان تینوں کی قبریں بوبی کی امام بارگاہ میں موجود ہیں۔
ان کے جانے کے بعد یقیناً ایک بڑا خلا پیدا ہوا، جو 35 سال گزرنے کے بعد بھی پُر نہ ہو سکا۔ لیکن یہ غمِ امام حسینؑ ہے، اس میں ہر کسی کا اتنا ہی حصہ ہے جتنا امامِ زمانہؑ چاہتے ہیں۔ ان کی فیملی کے لیے یہ کافی فخر کی بات ہے کہ 11 محرم کی نیاز، 2025ء میں اپنے سو سال مکمل کر رہی ہے۔
یہ مقالہ سردار قادر داد خان اور ان کے خاندان کی نہایت اہم اور تاریخی حیثیت کو اجاگر کرتا ہے۔ ان کی دینی خدمات، کربلا سے روحانی تعلق، اور عزاداریِ امام حسینؑ میں غیر معمولی سرگرمی سندھ کی شیعہ تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ خاص طور پر:
کربلا کی زیارت اور وہاں موکب کا قیام،
کربلاءمیں دفن ہونے کا شرف
اہل بیتؑ اخبار اور پنجتنی جیسے دینی اشاعتی کام،
سانگھڑ میں جلوس ہائے عزا کی بنیاد،
اور علماء و ذاکرین سے روابط، جیسا کہ علامہ رشید ترابی اور سید اظہر حسن زیدی سے قریبی تعلق۔
یہ سب امور بتاتے ہیں کہ رئیس غلام علی خان اور ان کا خاندان عزاداری، اتحادِ امت، اور اہل بیتؑ کی محبت کا ایک مضبوط ستون رہے۔
سردار قادرداد خان کی اولاد
دوبیٹے : سردار غلام علی خان
سردار لطف علی خان
سردار غلام علی خان کی اولاد میں چار بیتے ہیں:
ر ئیس قادر داد خان
رئیس ریاض حسین عرف حاجن خان
رئیس فیاض حسین خان
رئیس میر محمد مراد خان
سردار لطف علی خان کو تین بیٹوں کی اولاد ہے :
مرحوم رئیس کرم علي خان ،اس کے دو بیٹے ہیں :(رئیس امیر علی خان اور رئیس شیر علی خان)
رئیس معشوق علی عرف راجا صاحب
رئیس حاکم علی خان
دعا ہے کہ ہم رہیں یا نہ رہیں، یہ عزاداری ہمیشہ قائم و دائم رہے ،یہ خاندان ہمیشہ شاد وآباد رہے ۔