کالم

لیبیا اور بحرین احتجاج جاری

رضوان عطا
توقع کے مطابق تیونس سے شروع ہونے والی احتجاجی لہر مصر اور دیگر عرب ممالک میں پھیل گئی۔ 23 سال سے اقتدار پر براجمان بن علی کے بعد 30 سال سے موجود حسنی مبارک بھی جا چکے۔ تیونس اور مصر کے درمیان افریقہ میں تیل کے سب سے زیادہ ذخائر رکھنے والے ملک لیبیا میں یہ لہر 68 سالہ معمر قذافی کے خلاف بالخصوص مشرقی حصوں میں عروج پر ہے۔ یمن، اردن، الجزائر، ایران، مراکش بحرین، لیبیا اور بعض دیگر ممالک میں پھیلی اس احتجاجی لہر میں سب سے زیادہ تشدد لیبیا میں دیکھنے میں آیا۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق لیبیا میں جمعہ کو دوسرے بڑے شہر بن غازی کے علاوہ چار مزید مشرقی شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے، جو ایک روز قبل سکیورٹی فورسز کی طرف سے کئی مظاہرین کو ہلاک کرنے کے بعد ہوئے تھے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق احتجاج کے پہلے تین دنوں میں 84 افراد ہلاک ہوئے۔ اس تنظیم کا کہنا تھا ”سکیورٹی فورسز لیبیا کے شہریوں پر فائرنگ کر رہی ہیں، کئی کو ہلاک کر رہی ہیں، صرف اس لیے کہ وہ تبدیلی اور احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں“۔
ملک میں سرکاری اخبارات اور ویب سائٹس کے علاوہ موبائل فون پر ٹیکسٹ میسجز کے ذریعے لوگوں کو احتجاج سے دور رہنے کو کہا گیا اور سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں لیکن جمعہ کی رات تک 80 سے زائد ہلاکتیں بھی ان کے حوصلے پست نہ کر سکیں اور نہ ہی حکومت کو تشدد سے روک سکیں۔
’رائٹر‘ کو ایک عینی شاہد نے بتایا ”درجنوں ہلاک ہو چکے ہیں…. ہم یہاں ایک قتل عام کے درمیان ہیں“۔ یہ شخص ہفتہ کے روز زخمیوں کو بن غازی ہسپتال لے جا رہا تھا۔ ہسپتال زخمیوں سے بھرے پڑے ہیں اور ملک کے مشرقی حصے کی بہت سی گلیاں اور سڑکیں ایسی ہیں جہاں خون کے عطیات دینے کی اپیلیں کی جا رہی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ مظاہرین کے خلاف سنائپر، آرٹلری اور ہیلی کاپٹر گن شپس استعمال ہوئے ہیں۔ ’ڈیلی ٹیلی گراف‘ کی ایک رپورٹ میں ہسپتال میں کام کرنے والے ایک آفیشل کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ شاید اینٹی ائیر کرافٹ میزائل بھی استعمال ہوئے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 200 سے زائد ہے جبکہ 900 سے زیادہ زخمی ہیں۔
معمر قذاتی سرکاری ٹیلی ویژن پر نظر آئے ہیں جہاں وہ اپنے حامیوں کے ساتھ تھے لیکن سرکاری ذرائع ابلاغ میں احتجاج کرنے والوں کو جگہ نہیں دی گئی۔ مصر کی طرح انٹرنیٹ اور سماجی ذرائع ابلاغ پر قدغن لگائی گئی ہے۔ فیس بُک اور الجزیرہ بند ہیں۔ تیز رابطوں، معلومات تک رسائی اور تنظیمی پیغامات کو روکنا مقصد ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ چار دہائیوں سے زائد عرصے سے موجود حکمران کے لیے یہ قدم کتنا موثر ثابت ہو گا، کیونکہ تین دہائیوں سے موجود حسنی مبارک بھی اس سے خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھا سکے۔ کیا اسی لیے حکومت نے اپنا امیج بہتر کرنے کے لیے ایک انوکھا کام بھی کیا ہے؟
الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سرکاری وظیفے پر امریکا میں زیر تعلیم بہت سے طلبا کا کہنا ہے کہ لیبیا کے سفارت خانے سے کسی شخص کا فون آیا کہ وہ جمعہ اور ہفتہ کو واشنگٹن ڈی سی (امریکا) میں لیبیائی حکومت کے حق میں ہونے والی ریلیوں میں شامل ہوں ورنہ ان کا وظیفہ بند کر دیا جائے گا۔ طلبہ کے مطابق ریلی میں شرکت کے لیے انہیں ہوائی جہاز کا ٹکٹ، ہوٹل کا کمرہ اور خوراک ملنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ واشنگٹن ڈی سی میں چھانگا مانگا!
بحرین کے دارالحکومت میں بھی ایک مقام قاہرہ کا تحریر سکوائر بن چکا ہے۔ پرل سکوائر پر مجتمع مظاہرین پر جمعرات کو سکیورٹی فورسز حملہ آور ہوئیں، اگرچہ انسانی حقوق کے کارکنوں سے کم شدت کی جھڑپوں کا سلسلہ 14 فروری سے جاری تھا۔ دارالحکومت مناما کے مرکزی چوک سے ہزاروں مظاہرین کو منتشر کر دیا گیا اور درجنوں کو زخمی۔ بی بی سی کے مطابق اُس وقت تک تین افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ بعدازاں چند اور ہلاکتیں ہوئیں۔
یو ٹیوٹ پر پوسٹ ہونے والی ایک وڈیو سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ نہتے مظاہرین پر خاصے فاصلے سے سکیورٹی فورسز نے فائرنگ کی اور گولیاں لگنے سے احتجاج کرنے والوں میں سے چند گر پڑے۔
مغربی ذرائع ابلاغ میں بحرین میں شیعہ اور سنی آبادی کے تناسب کا تذکرہ اور اختلاف تقریباً ہر رپورٹ میں بیان کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ عرب دنیا میں ہر احتجاج کو حکمرانوں نے کسی سازش ہی سے جوڑا ہے۔ 20 فروری کو برطانوی اخبار ’دی انڈیپنڈنٹ‘ میں معروف صحافی رابرٹ فِسک اس صورت حال پر تبصرہ اور تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں ”(حسنی) مبارک نے دعویٰ کیا کہ مصری انقلاب کے پیچھے اسلام پسند ہیں۔ یہی باتیں بن علی نے تیونس میں کیں۔ اردن کے شاہ عبداللہ کو اس کے پیچھے القاعدہ اور اخوان المسلمین کا سیاہ اور منحوس ہاتھ دکھائی دیا۔ پورے عرب میں شہریوں کی سرکشی کے پیچھے اسلام پسندوں کا نام لیا گیا۔ کل بحرینی حکام نے انکشاف کیا کہ شیعہ ابھار کے پیچھے حزب اللہ کا خونی ہاتھ ہے۔ حزب اللہ کا مطلب ایران“۔
رابرٹ فسک کا کہنا ہے کہ عرب دنیا میں حکومت مخالف سرکشی وقار اور انصاف کے حصول کے لیے ہیں، اسلامی امارات کے قیام کے لیے نہیں۔
یہ درست ہے کہ بعض اوقات استحصال، جبر اور ناانصافی کے خلاف آواز مذہب یا مسلک کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے۔ یہ بات بعض عرب ممالک کی شیعہ اور ایران کی سنی آبادی کے حوالے سے ایک حد تک درست ہے۔ البتہ موجودہ تحریکوں کا مجموعی رجحان حقوق اور جمہوریت کے حصول کی جانب ہے۔ اسی لیے بی بی سی کی ایک رپورٹ میں خاتون صحافی ایم خلیفہ، جو بحرین کے اخبار ’الوسط‘ کی سینئر ایڈیٹر ہیں، بحرین کی موجودہ تحریک کے بارے میں کہتی ہیں ”اس مرتبہ احتجاج مختلف قسم کا ہے۔ نوجوان سنی اور شیعہ دونوں اکٹھے مارچ کر رہے ہیں، اور وہ یہ نعرہ لگا رہے ہیں ’ہم نہ سنی نہ شیعہ صرف بحرینی‘۔ ان کے مطابق اس طرح کی صورت ہم نے پہلے نہیں دیکھی۔
تازہ اطلاعات کے مطابق بحرین میں مظاہرین نے برسر اقتدار اقلیتی سنی شاہی خاندان سے قبل از مذاکرات اپنے مطالبات پورے کرنے کو کہا ہے۔ ان مطالبات میں حکومت کا استعفیٰ، سیاسی قیدیوں کی رہائی اور مظاہرین کے قتل کی تحقیقات شامل ہیں۔ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے بعض رہنما بحرین میں آئینی بادشاہت چاہتے ہیں جبکہ بعض کارکن ملک کے بادشاہ حمد بن عیسیٰ آلِ خلیفہ کی منصب سے دستبرداری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
بحرین امریکا کے لیے عسکری لحاظ سے بہت اہم ہے کہ یہاں پانچواں امریکی بیڑا موجود ہے۔ سعودی عرب کو تشویش اس لیے ہے کہ بحرین میں تبدیلی اس کے مشرقی حصوں میں موجود شیعہ آبادی کو متحرک کر سکتی ہے،
تاہم پورے ملک میں موجودہ احتجاجی لہر کے پہنچنے کا امکان بھی موجود ہے۔
بشکریہ ہم شہریProtest

Leave a Reply

Back to top button