کالم

ناچ سکھانے والے سکول

منصور مہدی
راحیلہ اپنے والدین کی لاڈلی بیٹی تھی جس کا والد محلے میں کریانہ کی دکان چلاتا تھا اس کے دو چھوٹے بھائی اور ایک بہن سکول میں پڑھتے تھے ان کا گزارہ مشکل سے ہو رہا تھا انس کے دل میں بھی ڈھیروں خواہشات تھیں راحیلہ نے جب ایف اے کا امتحان دیا اور رزلٹ آﺅٹ ہونے میں ابھی دیر تھی تو ٹی وی پر فلمیں اور ڈرامے دیکھنے کی شوقین راحیلہ نے ایک دن اخبار میں اداکاری اور ڈانس کی تربیت دینے والی اکیڈمی کا اشتہار پڑھا تو اس کا بھی فلموں میں کام کرنے کو جی چاہا چنانچہ بہن بھائیوں کو اعلی تعلیم دلوانے اور بوڑھے والدین کا سہارا بننے کیلئے راحیلہ نے اداکارہ بننے کا فیصلہ کرتے ہوئے اکیڈمی سے رجوع کیا جہاں پر موجود منیجر نے راحیلہ کو فلمی دنیا کے بارے میں طلسماتی کہانیاں سنا کر اور روپے پیسے کی ریل پیل اور عزت ووقار کے بارے میں بتا کر اس کے شوق کو مزید بڑھکادیاچنانچہ راحیلہ نے اکیڈیمی میں داخلہ لے لیا وہاں پر اور لڑکیاں بھی داخل تھیں پہل دن جب ڈانس ڈائریکڑ نے اسے رقص کی تربیت دینی شروع کی تو اسے یہ سب عجیب سا لگا جب ڈانس ڈائریکڑ نے اس کے جسم کے مختلف حصوں کو تربیت دینے کے بہانے سے چھونے کی کوشش کی مگر راحیلہ اسے تربیت کا حصہ سمجھ کر خاموش رہی چند دن بعد اکیڈمی میں منیجر کا ملنے والاایک امیرآدمی آیا اور اس نے اپنی نئی فلم کیلئے ہیروئن کے طور پر راحیلہ کا انتخاب کر لیا اور ایک لاکھ روپے معاوضہ ادا کرنے کی آفر کی۔ فلموں میں اتنی جلدی آنے کی راحیلہ کو توقع نہ تھی چنانچہ اس آفر پر وہ بہت خوش ہوئی ،اس کا فوٹو سیشن لیا گیا اور کامیاب قرار دیکر فلم کی ریہرسل کا شیڈول طے ہو گیا راحیلہ جب شوٹنگ کی ریہرسل کے لئے ایک کوٹھی میں گئی تو اسے بتایا گیا کہ یہ کہانی ایک ایسی لڑکی کی ہے جو گینگ ریپ کا شکار ہو کر اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتی ہے چنانچہ راحیلہ نے فلمی سین سمجھ کر ریہرسل کرنے کی حامی بھر لی مگر اسے معلوم نہیں تھا کہ ایسی اکیڈمیوں میں آنے والی ہر لڑکی کو ریپ سین کی ہی ریہرسل کراوئی جاتی ہے چنانچہ اس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو سینکڑوں لڑکیوں کے ساتھ ہو چکا تھا ۔شریف گھرانے کی یہ لڑکی کچھ دیر بعد اپنی عزت گنوا بیٹھی اور اچھے مستقبل کے شوق میں آنے والی اپنا مستقبل تاریک کر کے پھر اپنے گھر کے تاریک کونوں میں جا بسی ۔ صوبائی دارالحکومت میں متعدد جعلساز اور اوباش لوگوں نے ڈانس اور آرٹ کے نام پر ایسی متعدداکیڈمیاں قائم کی ہوئیں ہیں کی جہاں پر روزانہ ایک نئی راحیلہ ان کے چنگل میں پھنس کر اپنی عزت سے محروم ہو رہی ہے ان اکیڈمیوں میں نوسر باز خود کو فلم پروڈیوسر ، ڈانس ڈائیریکڑ ،اور رائیڑ ڈائیریکڑ،کہہ کر فلموں میں کام کرنے کی شوقین لڑکیوں اور نو عمر لڑکوں کو اپنے جال میں پھنسا کر انہیں بے راہ روی کی طرف لگا دیتے ہیں جبکہ بعض افراد ا میر گھرانوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کو ہیروئن بنانے کا جھانسہ دیکر ان سے لاکھوں روپے بٹور لیتے ہیں مگر وہ فلم کبھی مکمل نہیں ہوتی جبکہ بعض لوگوں نے ان اکیڈمیوںکی آڑ میں لڑکیوں کے بکنگ آفس قائم کیئے ہوئے ہیں کہ جہاں پر دن کی روشنی میں ان کی تصاویر یا لڑکیوں کو دیکھا کر رات کی بکنگ کی جاتی ہے جبکہ یہاں پر بعض ایسے اڈے بھی ہیں کہ جہاں سے ملک کے دوسرے شہروں بلکہ دوبئی اور دیگر عرب ریاستوں میں لڑکیوں کی سپلائی ہوتی ہے اور یہاں پر 13 سال سے لیکر 40سال تک کی عورت مل جاتی ہے زیادہ تر آرٹ اکیڈمیاں دراصل فلموں میں معمولی کام کرنے والے افراد اور ایکسٹرا لڑکیوں کی سپلائی کرنے والے افراد نے قائم کی ہوئیں ہیں اگرچہ ان ادارو ں میں فلمی دنیا کے بعض نامور افراد بھی کام کرتے ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے یہ لوگ اکیڈمیوں کی آڑ میں نہ صرف شہر بھر میں فحاشی پھیلا رہے ہیں بلکہ آرٹ کی تعلیم کے نام پر معصوم لڑکیوں کی عزت سے کھیل رہے ہیں اور فلم انڈسٹری کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔
ایورنیو سٹوڈیو سے ملحقہ ایوب مارکیٹ کہ جس میں 50 کے قریب اکیڈمیاں قائم ہیں وہاں کے رہائشی حبیب الرحمان کا کہنا ہے کہ یہ ادارے آرٹ کی تعلیم کے نام پر اصل میں فحاشی کے اڈے ہیں پہلے تو یہ کام چھپ چھپا کر ہوتا تھا مگر اب اکیڈمی کی آڑ میں دن دیہاڑے لڑکیوں کی بکنگ ہوتی ہے اور دوپہر 2 بجے سے لیکر رات 3 بجے تک طوفان بدتمیزی مچا رہتا ہے ڈیک پر انچی آواز میں میوزک نے جینا حرام کیا ہوا ہے یہ لوگ اذان کا بھی احترام نہیں کرتے ہیں جبکہ غلام حیدر نے بتایا کہ اگر ان کو آہستہ آواز میں ڈیک چلانے کا کہہ دیں تو یہ لڑنے مرنے پر اتر آتے ہیں کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ کمرہ نمبر 14 میں ایوب مارکیٹ سے ایک لڑکی چیختی چلاتی باہر نکلی تو پتہ چلا کہ یہ لڑکی بھی فلموں میں کام کرنے کے شوق میں اس اکیڈمی میں داخل تھی اس سے فیس کے نام پر پانچ ہزار روپے بھی لیے گئے مگر چند ہی روز کے بعد اسے کچھ سکھانے کی بجائے اس کی عزت لوٹنے کی کوشش کی۔انھوں نے بتایا کہ ان دفتروں میں زیادہ تر دو نمبر کام ہوتا ہے اور لڑکیوں کی سپالئی کی جاتی ہے جبکہ یہاں پر لڑکیوں کی سپلائی کا سب سے زیادہ دھندا نواز نامی شخص کا ہے جو مشہور و معروف دلال ہے اور نہ صرف دیگر شہروں بلکہ بیرون ملک بھی سپلائی دیتا ہے ۔محمد اکرم نامی شخص نے بتایا کہ سرشام ہی یہاں پر تماش بین اکھٹے ہونے شروع ہوجاتے ہیں ان میں لڑکیاں بک کروانے کے علاوہ شوقین مزاج لاگ بھی آتے ہیں جو شادی پر فنکشن کروانے کے بہانے لڑکیوں کو دیکھتے ہیں اور معاوضہ وغیرہ طے کرکے دل پشوری کرتے ہیں
پاکستان فلم پرموشن کونسل کے چیئرمین سہیل محمود بٹ نے بتایا کہ آرٹ اور ڈانس کے نام پر شہر بھر میں اکیڈمیوں کا فلم انڈسٹری سے کوئی تعلق یا واسطہ نہیں ہے یہ سب فراڈ ہے ۔انھوں نے کہا کہ یہ لوگ آرٹ کے نام پر فلم انڈسٹری کو بدنام کر رہے ہیں اور ان کا خاتمہ ہونا ضروری ہے کیونکہ یہاں پر فلم میں کام دلوانے کا جھانسہ دیکر نہ صرف لوگوں کا لوٹا جاتاہے بلکہ لڑکیوں کی عزت سے بھی کھیلا جاتا ہے ۔انھوں نے کہا کہ ان جعلی اداروں سے فلمی اداکاری کی تربیت لینے والی کوئی بھی لڑکی صائمہ ، ریما یا میرا نہیں بن سکی اور ان اداروں کو چلانے والے خود بھی فلم انڈسٹری کی الف ب سے بھی واقف نہیں ہیں۔انھوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ ایسے اداروں پر کڑی نگاہ رکھیں اور جرائم کی ان نرسریوں کو پروان چڑھنے سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے۔

Leave a Reply

Back to top button