سسکتا کراچی
ثاقب احمد خانزادہ
عروس البلاد۔۔۔۔ روشنیوں کا شہر۔۔۔۔پاکستان کی معاشی شہ رگ۔۔۔ منی پاکستان۔۔۔۔پاکستان کا اقتصادی حب۔۔۔۔کراچی ۔۔۔۔۔اک شہر بے مثال جس کو اس کی بے مثل خصوصیات کے باعث بہت سے القابات سے نوازا گیا۔ایک ایسا شہر جس نے شفیق ماں کی طرح ملک کے کونے کونے سے تلاش روزگار میں آنے والے افراد کو اپنی آغوش میں پناہ دی۔ ایک ایسا شہر کے جس نے بہت سے گمناموں کو ناموری کے تخت پر فائز کیا۔ایک ایسا شہر جس نے پاکستان کو ہر شعبہ ءزندگی میں ایک سے بڑھ کر ایک گوہر نایاب دیا۔ ایک ایسا شہر جس کی تعمیر و ترقی نے پوری دنیا میں جدت کی نئی مثالیں قائم کیں۔ ایک ایسا شہر کہ جس کی ہمصری کا دعویٰ کوئی نہیں کر سکتا ۔ ایک ایسی نازنین کہ جس کے لئے بے شمار عاشق آہیں بھرتے آئے ہیں۔
کسی بھی شے کا غیر معمولی خصوصیات کا حامل ہونا بہت سی قوتوں کے لئے ناپسندیدگی کی علامت بن جاتا ہے ۔ خصوصاً ایسی قوتیں کہ جنکا مقصد ہی پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنا ہو۔ایسی قوتوں کے لئے گزشتہ چند سالوں کے دوران کراچی کی برق رفتار تعمیر و ترقی ایک تازیانے کی حیثیت رکھتی ہے۔کراچی میں تعمیر کی گئی تمام سڑکیں، پارکس، فلائی اوورز، انڈر پاسز، اسکولز، اسپتال ، لائبریریاں اور دیگر ترقیاتی کارہائے نمایاں ملک دشمن قوتوں کے دلوں میں خنجر کی طرح سے پیوست ہوتے چلے گئے۔حسرت و حسد کے انگاروں پر مچلتے ہوئے ملک دشمنوں نے سازشوں کے تانے بانے بننے شروع کر دئیے اور کراچی کو خاک و خون میں نہلانے کے منصوبے پر کام شروع کر دیا۔ کراچی دشمن قوتوں نے اپنی سازش پر عمل درآمد کرتے ہوئے نہ صرف کراچی بلکہ پورے ملک کے جرائم پیشہ افراد ، منشیات فروش، لینڈ مافیا سے تعلق رکھنے والے جرائم پیشہ افراد کو ایک چھتری تلے اکھٹا کر لیا۔اور پھر بڑے زور و شور کے ساتھ کراچی کی معصوم عوام کو خون میں نہلانے کے مکروہ کھیل کا آغاز کر دیا گیا۔
اس گھنائونے کھیل کے چند اہم کرداروں کو بد امنی پھیلانے اور عدم تشدد کا نعرہ لگا کر قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے کا فریضہ سونپا گیا۔ ان قوتوں نے اپنے مشن کی راہ میں حائل ہونے والے جواں سال صحافی ولی خان بابر اور اسکے قتل کی تفتیش پر معمور دیگر پولیس اہلکاروں کو بھی بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کر کے انتظامیہ ، عدلیہ اور صحافی برادری کے لئے بہت سے تلخ سوالات رکھ چھوڑ ے ہیں۔ جن کے جوابات بہت زیادہ آسان ہونے کے باوجود زبان پرآنے کی سکت سے محروم ہیں۔کراچی دشمن قوتوں نے جہاں ایک جانب شہر کے ہر کونے میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا ہوا ہے وہیں دوسری جانب شہر بھر کے کاروباری طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد سے بے دھڑک بھتے کی وصولی کا عمل بھی آئے دن تیزی پکڑ رہا ہے ۔ جس کے نتیجے میں متعددسرمایہ کاروں نے اپنا مال و متاع سمیٹتے ہوئے ملک کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیر باد کہنے پر بھی سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا شروع کر دیا ہے۔حالیہ بد امنی اور پر تشدد کاروائیوںکی روک تھام کے لئے صوبائی وزارت داخلہ اور ماتحت اداروں کی نیم دلانہ کاروائی اپنے اندر بہت سے معنی خیز سوالات سموئے ہوئے ہے۔
مذکورہ بالا صورتحال وطن کی محبت میں دھڑکنے والے ہر دل کے لئے لمحہ ءفکریہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ کراچی میں قتل و غارت گری اور لاقانونیت کا بازار گرم کر کے پاکستان کی بنیادوں کو غیر مستحکم کرنے کی سازش ہر دور میں کی جاتی رہی ہے ۔ لیکن اس مرتبہ اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز افراد کی جانب سے جرائم پیشہ افراد کی سر عام پشت پناہی کا اعتراف مسئلے کی سنگینی کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ جب راہبر خود راہزن کا روپ دھار لیں تو پھر کہیں جائے عافیت نہیں مل پاتی۔ افسوس آج پاکستانی قوم ایسی ہی مشکل سے دوچار ہو چکی ہے۔جس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے پوری قوم کومتحد و منظم ہو کر اپنی آواز بلند کرنی ہو گی۔ سیاسی قوتوں کو بہت سے سیاسی مفادات بالائے طاق رکھنے ہوں گے۔ اور بہت سی مقتدر قوتوں کو اپنی زبان بندی بالآخر ختم کرنا ہو گی۔یہی ایک واحد راستہ ہے کہ جس پر چل کر سازشوں کے تسلسل کو ناکامی سے دوچار کیا جا سکتا ہے وگرنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خاکم بدہن۔