کالم

بحرین

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بحرین
” مرحبا یا رسول الاسلام ”
نذر حافی
Bahrainقطر اورسعودی عرب سے ۳۲کلومیٹر جبکہ ایران کی بندرگاہ بو شہر سے ۳۱۰ کلومیٹر کے فاصلے پر "بحرین ” کے نام سے ایک ایسی مقدس اسلامی سرزمین واقع ہےجہاں پر ۱نیسویں صدی میں برطانیہ نےایک بحرینی قبیلے "آل خلیفہ "کےساتھ یہ معائدہ کیا تھاکہ اگر” آل خلیفہ ” خطّے میں برطانوی مفادات کا تحفظ کرئے تو اسے بحرین کا حاکم بنا دیا جائے گا۔اس دن سے لے کر آج تک بحرین میں مسلسل” آل خلیفہ” کی بادشاہت قائم ہے اوربحرینی عوام عدل و انصاف کے حصول ،جمہوری اقدار،انسانی حقوق اور آئین و قانون کی خاطر تختہ مشق بنی ہوئی ہے۔
گزشتہ کئی سالوں سے بحرینی عوام کے مسمارگھر اورجلی ہوئی لاشیں ،انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا کو دکھائی نہیں دیتیں۔بین الاقوامی برادری کی بے حسی اور میڈیا کی مجرمانہ خاموشی کے دوران جب عرب دنیا میں اسلامی و عوامی انقلاب کی لہر اٹھی تو ایک آدھ دن کے لئے میڈیا نے اپنی نظریں بحرین کے حالات پر بھی جمائیں۔جب میڈیا نے بحرین کو فوکس کیا تو ہمیشہ کی طرح اس روز بھی بحرینی عوام امریکہ و برطانیہ کے خلاف سڑکوں پر سراپااحتجاج بنے ہوئے تھے،لوگ آل خلیفہ کے خلاف غم و غصّے کا اظہار کر رہے تھے جبکہ سعودی فوج اپنےپرچم پر "لاالہ الااللہ ” لکھے اور ہاتھوں میں امریکی اسلحہ تھامے نہتے بحرینی مسلمانوں پر یلغار کرنے بڑھتی ہی چلی جارہی تھی۔
یہ مناظر دیکھتے ہی دنیا بھر کے مسلمانوں نے سعودی عرب کی فوجی جارحیّت،آل خلیفہ کی ڈکٹیٹر شپ اور امریکہ و برطانیہ کی ہلہ شیری کے خلاف صدای احتجاج بلند کی۔اس صدائے احتجاج کا بلند ہونا تھا کہ میڈیا نے دوبارہ اپنی آنکھیں موند لیں اور سعودی فوج نے بحرین میں وحشت و بربریت کی ایک نئی داستان رقم کی۔اس وقت بھی بحرینی عوام سڑکوں پر سعودی فوج کے محاصرے میں ہے،لوگ امریکہ و برطانیہ کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں اور” آل خلیفہ "عوامی مظاہروں کو "آل سعود” کی طاقت سے کچلنے میں مصروف ہے۔
ہمارے وطن عزیز پاکستان کے سادہ دل لوگ جب یہ سنتے ہیں کہ سعودی فوج نہتّے بحرینی مسلمانوں کا قتل عام کرنے میں مصروف ہے تو وہ حیرت سے چونک جاتے ہیں۔ان چونک جانے والے بھائیوں کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ سعودی عرب کی فوج کے بارے میں چونکنے سے پہلے اپنے ملک کی فوج پر چونکنا شروع کریں۔وہ اس لئے کہ بحرین میں امریکی و برطانوی مخالفین کو کچلنے کے لئے اس وقت تک فوجی فاونڈیشن اور بحریہ کے تعاون سے ایک ہزار سے زائد پاکستانیوں کو بھرتی کر کے بحرین روانہ کردیاگیاہے۔یعنی بڑے میاں بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ،سعودی عرب تو سعودی عرب پاکستان بھی اس ظلم میں شریک ہو گیا۔البتہ یہ بھی تعجب کی بات ہے کہ جہاں پر سعودی حکومت اپنے پاوں رکھتی ہے وہاں پاکستانی حکومت اپنا سر رکھ دیتی ہے۔مثلا آپ طالبان اور القائدہ کی تشکیل ،فتح اور شکست کو ہی لے لیں۔
جب افغانستان میں امریکہ کو طالبان کی ضرورت تھی تو سعودی عرب نے ریّال اور فکر جبکہ پاکستان نے اپنے مدارس اور نوجوان امریکہ کے قدموں میں لاکر رکھ دیئے۔جب امریکہ کا مطلب پورا ہوگیا تو سعودی عرب نے بھی طالبان اور القائدہ سے آنکھیں پھیر لیں اور پاکستان نے بھی انہیں دہشت گرد کہنا شروع کردیا۔
یہ تو تھی ہماری سعودی محبت کی ایک مثال اب ذرا ایک اور مثال سےسعودی عرب کی نگاہ میں اسلامی برادری کی اوقات کا اندازہ بھی لگائیے:
قیام پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان مسلسل سعودی عرب اور امریکہ کی نوکری بھی کر رہا ہے اور مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں سعودی عرب سے تعاون کا طالب بھی ہے ۔سعودی عرب نے نہ صرف یہ کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کو تنہا چھوڑاہوا ہےبلکہ اس نے نہایت حساس موقعوں پر بھارت کی حوصلہ افزائی کر کے کروڑوں پاکستانیوں کے دینی جذبات کی بے احترامی بھی کی ہے۔یہ ۱۹۵۶ ء کی بات ہے کہ ابھی مسئلہ کشمیر پوری آب و تاب کے ساتھ منظر عام پر تھااورپاکستانی مسلمان کشمیر کی آزادی کے لئے سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے کہ ایسے میں جواھر لال نہرو نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ خود کوتوحید پرست کہنے والی اور توحید کی آڑ میں صحابہ کرام کے مزارات مقدسہ کومنہدم کرنے والی سعودی حکومت نے پاکستانیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے نہرو کا شاندار استقبال کرنے کے ساتھ ساتھ ” مرحبا یا رسول الاسلام "کے نعرے لگائے۔
اس واقع کے اگلے روز "روزنامہ ڈان ” نے نہرو کو رسول الاسلام کہنے پر سعودی حکومت کی مذمت کرتے ہوئے اس واقع پر اظہار افسوس کیا۔جس پر سعودی ایمبیسی نے یہ وضاحت کی کہ "رسول الاسلام”سے مراد امن کا پیغامبر ہے،جس کے جواب میں روزنامہ ڈان نے لکھا کہ ملت پاکستان اس جملے کے معانی اچھی طرح جانتی ہے اور یہ بھی جانتی ہے کہ دین اسلام کے ظہور کے بعد یہ جملہ پیغامبر اسلام [ص]سے مخصوص ہوگیاہے۔یادرہے کہ ملت پاکستان کو اس بات پر بھی حیرانگی تھی کہ ہزاروں ہندوستانی اور کشمیری مسلمانوں کا قاتل سعودی عرب کے لئے "امن کا پیغامبر”کیسے بن گیاہے۔
اب ذرا سعودی عرب کے پرچم پر لکھے ہوئے کلمہ طیّبہ کا پس منظر بھی جان لیجئے۔یہ تیرھویں ہجری اور اٹھارہویں صدی عیسوی کی بات ہے کہ جب آل سعودعرب خانہ بدوشوں کی صورت میں زندگی کرتے تھے اور نجد کے نزدیک درعیہ کے مقام پر اس خاندان کی ایک چھوٹی سی حکومت تھی۔اس دوران ابن تیمیہ کی تعلیمات سے متاثر ایک شخص محمد ابن عبدالوہاب نے درعیہ کے حاکم محمد ابن سعود سے ملاقات کی اور اسے عربستان میں بکھرے ہوئے مختلف قبائل کو اسلام کے نام پر متحد کرنے کا مشورہ دیا۔محمد ابن سعود نے اس مشورے کو پسند کیا اور دونوں کے درمیان یہ طے پایا کہ اس کے بعد محمد ابن وہاب کے افکار کی ترویج و اشاعت ابن سعود کا اولین فریضہ ہے اور ابن سعود کی حکومت کو اسلامی و دینی حکومت کے طور پر معروف کرانا اور لوگوں کو ابن سعود کے گرد جمع کرنا محمد ابن وہاب کی ذمہ داری ہے۔
محمد ابن سعود کے بعد اس کی آل نے بھی اس معائدے کی پاسداری کی اور مختلف نشیب و فراز آنے کے باوجود ابن وہاب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنےدیا۔یوں وہابیت اور آل سعود نے یک جان اور دو قالب بن کر ارتقائی مراحل طے کئے۔ابن وہاب کے متشددانہ عقائد اور جارحانہ افکار کے باعث جلد ہی عالم اسلام میں بے چینی کی فضا پیدا ہوئی اور یوں ابن وہاب کا الگ دین منظر عام پر آگیا۔اگرچہ موصوف نے اپنے آپ کو اہل سنّت کی صفوں میں گھسانے کی کوشش کی لیکن اہل سنت کے علماء نے بروقت اس سازش کو درک کرتے ہوئے اسے اپنے سے الگ کردیا۔
ابن وہاب کے جارحیّت آمیز رویّے کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ موصوف نے اپنی کتاب "کشف الشبہات "میں۲۴ سے زائد مقامات پر دوسرے اسلامی فرقوں کو کافر کہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سعودی حکومت افغانستان و بحرین سمیت پوری دنیا میں مسلمانوں کے خون کو مباح سمجھتی ہے اور اسلامی ممالک کے خلاف اغیار کا ہاتھ بٹاتی ہے۔
آل سعود کا ایک تاریخی معائدہ محمد ابن عبدالوہاب کے ساتھ ہے جس کی رو سے یہ حکومت اپنے آپ کو اسلامی کہلاتی ہے اور دوسرا معائدہ استعمار کے ساتھ ہے جس کے باعث سعودی حکومت اسلام کا پر چم اٹھا کر امریکہ اور برطانیہ کی خدمت کرتی ہے۔
دیگر عرب ریاستوں کی طرح سعودی عرب کی استعمارنوازی کی کڑیاں انیسویں صدی سے جاکر ملتی ہیں۔صاحبان علم و شعور کے لئے تحقیق کے دروازے کھلے ہیں وہ بلا تعصب علمی و فنّی طریقوں سے اس بارے میں تحقیق کر سکتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر جب برطانیہ و فرانس کو تیل کی طاقت کا ندازہ ہوا تو انہوں نے ۱۹۱۹ میں مشرق وسطی کو دو حصّوں میں تقسیم کیا۔اس تقسیم کے نتیجے میں عراق،اردن اور سعودی عرب سمیت کچھ ممالک برطانیہ کے جبکہ ایران،ترکی اور شمالی افریقہ، فرانس کے حصّے میں آئے۔
استعماری طاقتوں نے سعودی عرب میں آل سعود سے،کویت میں آل صباح سے،قطر میں آل ثانی سے،امارات میں آل نہیان سے اور بحرین میں آل خلیفہ سے اس طرح کے معائدے کئے کہ اگر انہیں حکومت دی جائے تو وہ خطے میں استعماری مفادات کا تحفظ کریں گئے۔
ان معائدوں کے باعث مذکورہ خاندانوں کو مذکورہ ریاستوں میں حکومتیں سونپی گئیں اور مذکورہ حکومتوں نے اپنی بقاء اور استحکام کی خاطر استعمار کی ڈٹ کر حمایت اور مدد کی۔
تاریخی شواہد سے یہ بات ثابت ہے کہ۱۹۳۰ تک سعودی عرب براہ راست برطانوی مفادات کا محافظ تھا۔۱۹۳۰ میں امریکہ نے
کو اپنے ایک کارندے ارنسٹ فیشر کے ذریعے خریدا۔ John Fillby ایک برطانوی جاسوس ” جان فیلبی”
یہ شخص ۱۹۱۷ میں برطانیہ کی وزارت خارجہ میں ملازم ہواتھا اور تقریباً ۳۵ سال تک سعودی عرب میں ابن سعود کا مشیر رہاتھا۔اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نجد میں قدم رکھنے والا یہ پہلا یورپی باشندہ ہے۔یہ اپنے زمانے کا ایک بہترین لکھاری اور مصنف بھی تھا اور اس کی کئی کتابیں بھی منظر عام پر آئی تھیں۔
اسے مشرق وسطی کے بارے میں حکومت برطانیہ کی پالیسیوں سے اختلاف تھا جب یہ اختلاف شدید ہوگیا تو ۱۹۳۰ میں اس نے برطانوی سفارت سے استعفی دے دیا۔اس کے استعفی دیتے ہی اس کی تاک میں بیٹھے امریکی کارندے نے اس گلے لگا لیا۔اس نے ابتدائی طور پر تیل نکالنے والی ایک امریکی کمپنی میں مشاور کی حیثیت سے کام شروع کیا اور خاندان سعود سے دیرینہ تعلقات کی بنا پر سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تیل نکالنے کا ایک بڑا منصوبہ منظور کروایا جس سے برطانیہ کی بالادستی کو دھچکا لگا اور خطّے میں امریکی استعمار کی دھاک بیٹھ گئی۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ و سعودی عرب دونوں اپنے تعلقات کے سلسلے میں جان فیلبی کی خدمات کے معترف ہیں۔
اس وقت سعودی حکومت بحرین میں قتل و غارت کر کے ایک تیر سے دو شکار کر رہی ہے ۔ایک تو یہ کہ متشددانہ افکار کے باعث دوسرے مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہوئے انہیں قتل کررہی ہے اور دوسرے یہ کہ استعماری مفادات کے دفاع کے لئے اپنے
"آن دی ریکارڈ ” معائدوں کو پورا کر رہی ہے جبکہ پاکستانی حکومت خواہ مخواہ سعودی عرب اور امریکہ کی شہ پر افغانستان کے بے بے گناہ مسلمانوں کی طرح بحرین کے مظلوم مسلمانوں کے خون میں بھی اپنے ہاتھ رنگناچاہتی ہے۔
بہر حال پاکستانی حکام بحرین میں لوگوں کے قتل عام کے لئے بھرتیاں کرتے ہوئے اتنا ضرور یادرکھیں کہ پاکستانیوں نے امریکہ اور سعودی عرب سے اسلام نہیں لیا لہذا کسی بھی پاکستانی کے دین کو ریّال اور ڈالر کے ذریعے نہیں خریدا جاسکتا۔پاکستانیوں کو تختہ دار پر لٹکا دیا جائے یا ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں وہ نہ ہی تو اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کو کافر اور واجب القتل کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنی مقدس زبانوں سے ہزاروںمسلمانوں کے قاتل کو ” مرحبا یا رسول الاسلام "کہہ سکتے ہیں۔

تبصرے

  1. مسٹر قذافی۔۔۔
    خزاں کے ماتھے پر داستان گلاب
    نذر حافی
    [email protected]
    ۷جنوری ۱۹۴۳ء کولیبیا میں پیدا ہونے والا یہ سورما جو اپنے آپ کو امیرالمومنین بھی کہتاہےگزشتہ ۴۲ سالوں سے عالم اسلام کے سینے پر مونگ دل رہاہے۔ ۱۹۶۹ سے لے کر اب تک بہت زیادہ مونگ دلنے کے باعث اکثر اس کے پیٹ میں اسلامی ہمدردی کے مروڑ اٹھتے رہتے ہیں ۔اس کے سامنے جب بھی بات فلسطین کی چھڑےیا کشمیر کی ،عالم اسلام کے غم میں اسے کچھ ہوش نہیں رہتاکہ وہ کیا کہے جارہاہے،جیساکہ ۳۰مارچ ۲۰۰۹ کو عرب سربراہوں کے اکیسویں اجلاس میں اس نے برملا عرب سربراہوں کو مخاطب کر کے یہ کہا کہ مجھ جیسے عالم اسلام کے عظیم لیڈر اور امیرالمومنین کے یہ شایان شان نہیں کہ وہ تم جیسے دو ٹکے کے لوگوں ساتھ مل بیٹھے۔موصوف کو عالم اسلام کے دو ٹکے کے سربراہوں کے ساتھ بٹھانے کے چکر میں لبنان کے رہنما موسی صدر نے ۱۹۷۸میں لیبیا کا دورہ کیا تو یہ ان کا آخری دورہ ثابت ہوا۔بین الاقوامی اداروں سے لے کر دو ٹکے کے لیڈروں سمیت سب نے اپنی تن من کی بازی لگادی لیکن اس امیرالمومنین کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور اس نے موسی صدر کے بارے میں کو ئی راز نہیں اگلا۔یاد رہے کہ اس نے موسی صدر کو اس وقت اغوا کروا دیا جب اسرائیل کا خاتمہ نزدیک ہو چکا تھا۔قذافی نے ۱۹۷۸ میں وہی کچھ کیا جو۱۹۷۹میں ایران میں اسلامی انقلاب کے آنے کے بعد صدام نے کیا تھا۔اگر صدام اور قذافی اس وقت استعمار کی مدد نہ کرتے تو پورا عالم اسلام یوں امریکہ و یورپ کے قدموں میں ڈھیر نہ ہوتا۔ گزشتہ چنددنوں سے لیبیاکے لوگ مسلسل احتجاجی مظاہروں میں مصروف ہیں اور قذافی کی تصویروں پر جوتوں کی بارش ہورہی ہے۔اس وقت تک نیٹو فورسز کے حملوں اورامیرالمومنین کی ہٹ دھرمی اور انانیت کے باعث سینکڑوں نہتے لوگ موت کے گھاٹ اتارےجاچکے ہیں اورسیکورٹی فورسز کے کئی اہلکاروں کو نہتے مظاہرین پر گولی نہ چلانے کے جرم میں پھانسی دے دی گئی ہے۔اپنے سرکاری ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے گزشتہ دنوں امیرالمومنین قذافی نے کہا ہے کہ وہ قوم کے نہیں بلکہ اقوام کے لیڈر ہیں ،ان کے پیروکار دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں،انہوں نے اپنے پیروکاروں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو لال بیگوں اور صحرائی چوہوں کی مانند مار ڈالیں۔ظاہر ہے جب اتنے عظیم الشّان امیرالمومنین کے سامنے دوسرے اسلامی سربراہوں کی حیثیت دو ٹکے کی ہے تو ان کے مخالفین کی حیثیت بھی تو لال بیگوں اور صحرائی چوہوں جیسی ہے۔
    باقی رہی یہ بات کہ معمر قذافی کے پیروکار پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ،اس بارے میں ہمیں پوری دنیا کی تو کچھ خبر نہیں البتہ اتنا ضرور جانتے ہیں کہ موصوف کے پیروکار کسی اور ملک میں ہوں یا نہ ہوں پاکستان میں ضرور ہوں گے چونکہ پاکستان ایک ایسا پیارا ملک ہے کہ یہاں سے ہر کسی کو پیروکارمل جاتے ہیں۔
    کرنل قذافی کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ وہ گھبرائیں نہیں، امیرالمومنین ملا عمر کے جتھے سے لے کر امیرالمومنین ضیا الحق اور صدام تک سب کو یہیں سے پیروکار ملے ہیں ۔یہ وہ سر زمین ہے جہاں سے ہر کانے،لولے لنگڑے،ظالم اور ڈکٹیٹر کو آسانی سے مرید مل جاتے ہیں۔ہمارے ہاں عوام تو عوام ،میڈیا اور میڈیا سے وابستہ لوگ بھی امیرالمومنین حضرات کے مرید بن جاتےہیں۔ اگرہمارے ہاں کانے امیرالمومنین کا ٹرینڈ چل پڑے تو ہمارا میڈیا بھی کانا ہوجاتاہے اور تمام حالات و واقعات کو صرف ایک آنکھ سے دیکھتاہے،اسے نہ بے گناہوں کا خون دکھائی دیتاہے،نہ بے نواوں کے بین سنائی دیتے ہیں،نہ ڈالروں کی آہٹ محسوس ہوتی ہے اور نہ شدّت پسندی کا خطرہ درک ہوتاہے۔
    اگر کسی ڈکٹیٹر کے امیرالمومنین بننے کا ٹرینڈ بن جائے تو پھر قلم و کاغذ پر ایک ہی طرز فکر حاکم ہوجاتاہے کہ فلاں اسلام کا شیدائی ہے،اگر فلاں نہ رہاتو ملت کاشیرازہ بکھر جائے گا،مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا،فلسطین آزاد نہیں ہوگا۔۔۔مزے کی بات یہ ہے کہ آج کل مسٹر قذافی بھی کچھ ایسی ہی باتیں کر رہے ہیں کہ اگر میں نہیں رہاتوملک ٹوٹ جائے گا،قبائل بکھر جائیں گے،نظم و نسق درہم برہم ہوجائے گا۔۔۔
    بغیر کسی تعصب کے آپ ظالموں،آمروں اور بادشاہوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں،ہر آمر صفت انسان اور متکبر مزاج شخص کی زبان پر یہی کلمات جاری ہوتے ہیں کہ اگر میں نہیں رہا تو سب بکھر جائیں گے۔۔۔شہنشاہ ایران کو بھی یہی گھمنڈ تھا اور ضیاء الحق کو بھی یہی وہم تھا۔
    پاکستانی میڈیاسے وابستہ لوگوں کو اب تو سوچنا چاہیے کہ لیبیا میں نیٹو فورسز کشت و خون کریں یا قذافی کی فورسز قتل عام کریں ۔۔۔ ہم کب تک ظالموں کو امیرالمومنین بناتے رہیں گے اورڈکٹیٹروں کے قصیدے لکھتے رہیں گے ۔۔۔کیا ابھی وہ وقت نہیں آگیا کہ قذافی ،صدام اور ضیاالحق کے چہرے سے نقاب اور طالبان و القاعدہ کے پس منظر سے پردہ اٹھایاجائے۔پاکستانی میڈیا کب تک خزاں کے ماتھے پر داستان گلاب لکھتا رہے گا۔

  2. سلام آقانذر
    جب سے اس دنیامیں انسان کے اوپر انسان نے حکومت کی تب سے ظالموں اور ستمکاروں دور شروع ہوا لیکن اب انکا زوال کا وقت آگیا ہے حس اب ساری دنیا احساس کررہی ہے

  3. جیسی روح ویے فرشتے۔ پاکتانی حکمران گندے ترین لوگ ہیں اور پاکستانی عوام بے وقوف ہے، جاہل اور چار سو بیس اس ملک کا حاکم بنا ہوا ہے، ‍‍قذافی ہو یا صدّام یا کوئی بھی ڈکٹیٹر پاکستانی حکمران بھی کری کے شیدّائی ثکبت ہوئے ہیں۔
    اتنا ہی کہنا کافی ہے۔
    عدیل محمود بٹ
    ترجمان: پاکستان اسپرانتو ایسوسی ایشن
    اسلام آباد

  4. جیسی روح ویسے فرشتے۔ پاکتانی حکمران گندے ترین لوگ ہیں اور پاکستانی عوام بے وقوف ہے، جاہل اور چار سو بیس اس ملک کا حاکم بنا ہوا ہے، ‍‍قذافی ہو یا صدّام یا کوئی بھی ڈکٹیٹر پاکستانی حکمران بھی کرسی کے شیدّائی ثابت ہوئے ہیں۔
    اتنا ہی کہنا کافی ہے۔
    عدیل محمود بٹ
    ترجمان: پاکستان اسپرانتو ایسوسی ایشن
    اسلام آباد

  5. جیسی روح ویسے فرشتے۔ پاکتانی حکمران گندے ترین لوگ ہیں اور پاکستانی عوام بے وقوف ہے، جاہل اور چار سو بیس اس ملک کا حاکم بنا ہوا ہے، ‍‍قذافی ہو یا صدّام یا کوئی بھی ڈکٹیٹر پاکستانی حکمران بھی کرسی کے شیدّائی ثابت ہوئے ہیں۔ اتنا ہی کہنا کافی ہے۔
    عدیل محمود بٹ
    ترجمان: پاکستان اسپرانتو ایسوسی ایشن
    اسلام آباد

Leave a Reply

Back to top button