تاریخ

تاریخِ جاپان

تحقیق و تدوین ۔ ظاہرشاہ آفریدی
ظاہر شاہ آفریدیجاپانیوں کے ہاں اپنے آغاز کے بارے میں دیگر قومیتوں کی طرح کئى داستانیں موجود ہیں ۔ کہتے ہیں کہ جنت کے آقا نے اُن کی سرزمین پر دو[جوان دیوتاؤں ایزاناگے اور اُن کی بیگم ایزانامے کو بھیجا جنہوں نے سمندر میں سے اُن کیلئے ایک خوبصورت ملک بنا ڈالا

ایک ماہرِ اثارِ قدیمہ اور اُس کے معاونین نے پتھر دور کی کچھ نشانیوں کی برآمدگی کا دعویٰ کیا تھا تاہم بعد میں تحقیق سے بات ثابت نہ ہوسکی ۔
ابتدائى دور
تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ چودہ ہزارسال قبل از مسیح سے 300 بی سی تک یہاں جومون دور گزرا ہے اور اُس دور کی تہذیب کے دریافت کیے گئے آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ پتھر، سمندری شِلز، لکڑی اور چمڑے کی بنی اشیاء استعمال کرتے تھے اور اُن کی زیادہ تر گزر بسر جنگلی یا سمندری حیات کی شکار پر ہوتی تھی ۔ اس دور کے بارے میں زیادہ تر شواہد 1992 کی اُس کھدائى کے دوران ملے جو ہانشو کے شمال میں واقع آموری علاقے میں بیس بال سٹیڈیم کی تعمیر کیلئے کی جارہی تھی ۔
کچھ ماہرین بشریات کا دعویٰ ہے کہ ہوکائیدو اور ہونشو جزائر کے باسی آئنو قبائل یہاں کے اصل قدیم لوگ ہیں ۔ اِن لوگوں کی آنکھیں بڑی ہیں اور جِسم پر بال زیادہ ہیں جبکہ موجودہ جاپان میں اکثریت آبادی والے جاپانیوں کے جِسم پر بال کم ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ آئنو ، موجودہ روس کے مشرقی سائبریا کا ایک نسلی گروپ ہے ۔ اب آئنو قبائل صرف ہوکائدو ہی تک محدود ہوچکے ہیں اور موجودہ تعداد تقریباً بیس ہزار بتائى جاتی ہے ۔ اُن کی زیادہ تر آبادی، اردگرد کے جاپانیوں کے ساتھ مدغم ہوچکی ہے ۔
چونکہ جاپان کے اردگرد چین اور کوریا کی سرزمین بھی ہے اِسلئے کہا جاتاہے کہ اِن دو اقوام کا جاپانیوں پر گہرا اثر رہا ہے ۔ مثال کے طور پر300 بی سی سے 250 عیسوی تک کے یایوئے دور کے بارے میں اثار قدیمہ کی کھدائیوں سے ملنے والی نشانیوں ، جیسے کپڑا بُننے، دھان کی کاشت ، شامان عقائدِ عبادات ، لوہے اور کانسی کے اوزار سے معلوم ہوا ہے کہ یہ فن چینیوں اور کوریائى لوگوں سے ہی یہاں پہنچا ہے بلکہ اِس بات کے شواہد ہیں کہ چین کے مشہور دریا یانگسی کے اردگرد علاقوں میں چاول کی کاشت آٹھ ہزار قبل از مسیح میں شروع ہوئى تھی اور ایک ہزار بی سی میں یہ جاپانی سرزمین پر پہنچی ۔
یایوئے نسل نے بڑی تعداد میں کوریا کی جانب سے چڑھائى کی ۔ اُنہوں نے آئنو قبائل کے خلاف کئى جنگیں لڑیں ۔ اُن کا دورِ معیشت ، جاگیردارانہ نظام کا ابتدائى دور سمجھا جاتا ہے ۔ اُمراء زمینوں پر قابض تھے اور کسان اور غلام کھیتی باڑی کرتے تھے ۔ علاقوں پر قبضہ جمانے کیلئے قبائل کی آپس میں جھڑپیں روز کا معمول تھا ۔ جاپان کے اِس دور کے اُمراء کو معاشرے میں تعظیم اور سیاسی اثر و رسوخ اِسلئے حاصل تھا کہ اُنہوں نے مسلح جنگجو پال رکھے تھے لیکن اُس دور میں چین میں صورت حال مختلف تھی اور وہاں دانشوروں کو بالادستی حاصل تھی ۔
سنہ 238 عیسوی کے لگ بھگ ، چینی تاجروں نے یایوئے لوگوں سے تجارت شروع کی ۔ چینی تاجر کیوشو کے علاقے میں آتے تھے ۔ اُس وقت چین میں ہان شاہی سلطنت قائم تھی ۔ اُس دور کے سفرناموں اور دیگر ریکارڈ کے مطابق اُس وقت کی جاپانی سرزمین 30 ریاستوں میں بٹی ہوئى تھی اور اِس میں سب سے مضبوط ریاست پر ہیمیکو کی حکمرانی تھی ۔ اُس وقت کے چینیوں نے اِسے سرزمینِ وا یعنی بونے یا پست قامت لوگوں کی سرزمین کے نام سے پکارا ہے جہاں پسماندگی ہے اور لوگ ان پڑھ ہیں اور بانس کی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں ۔ تاہم اُس دور کے جاپانیوں کو اپنی ثقافت پر بڑا فخر تھا اور اِس میں سب سے زیادہ اہمیت مالک سے وفاداری کو دی جاتی تھی ۔ چاول سے تیار کی ہوئى شراب ساکے بھی اُسی دور کی روایت ہے ۔
تاریخ کے طالب علموں کیلئے اُن چینی تاریخی کُتب کی بہت اہمیت ہےجنہیں ٹونٹی فور ہسٹریزکہا جاتا ہے جس میں 3000 بی سی سے 17 ویں صدی کی مِنگ دورِ حکومت تک کا تذکرہ ہے ۔ اتنے پرانے دور کے انسان کے پاس ایسی مہارت نہیں تھی کہ وہ آنے والی نسلوں کیلئے تاریخ کا قیمتی اثاثہ سائنسی بینادوں پر مرتب کرتا اِسلئے اُس تاریخ میں داستانیں رقم کی گئى ہیں اور اُس میں جاپان کا ذکر بھی ہے ۔ ہمیں جاپان کی تحریری تاریخ کا ریکارڈ 57 عیسوی سے ملتا ہے جس کا ذکر چینی تاریخ کے سرکاری دستاویزات میں ہے ۔ یہ ریکارڈ فان یان نے پانچویں صدی عیسوی میں مرتب کیا تھا جس میں چین کے مشرقی ہان شاہی دور کے واقعات کو ریکارڈ کیا گیا ہے ۔
کوفن دور
تاریخ میں لکھا گیا ہے کہ 250 عیسوی کے آس پاس کوفن دور کا آغاز ہوا ۔ یہ مضبوط فوجی ریاستوں کا دور تھا ۔ اِس دوران ایک گروپ جِسے غالباً ہنس کہاجاتا تھا اور تاریخ میں امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ کوریائى تھے جنہوں نے تسوشیما کے ساحل پر آکر یلغار کی ۔ اُن کے پاس گھوڑے تھے اور وہ لوہے سے بنے اعلی معیار کے اسلحے سے لیس تھے ۔
کوفن دور کی فوجی صلاحیت میں اضافے سے اُن کا شمال مشرقی ایشیاء کی جانب اثر و رسوخ پھیلنے لگا ۔ اب جاپان منظم اور مضبوط ریاست کی شکل اختیار کرتا جارہا تھا اور کوریا کے ذریعے اُس کا براعظم ایشیاء کے دیگر علاقوں کے ساتھ رابطے ہونے لگے ۔ اُس دور میں ایک طاقتور قبیلہ یاماتو بھی تھا اِسلئے کئى مغربی تاریخ دان اِسے یا ماتو دور کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں ۔ اُس دور میں بدھ مت اور کنفیوشنیزم دونوں عقائد کے لوگ تھے ۔ چینی طرز پر مرکزی انتظامی حکومت ، شاہی عدالتی نظام ، مالیاتی پالیسی اور خزانے کا محکمہ تشکیل دیا گیا ۔ کوریا کے تین بادشاہتوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے گئے ۔ سنہ 391 میں جنوب ۔ مغربی کوریا کے بادشاہ پیکچی نے تحفے تحائف بھیجے اور ہمسایہ علاقوں سے بچانے میں مدد کی درخواست کی ۔ اِس مدد کے عوض جاپان کو سونے اور جواہرات کے تحفے دئیے گئے اور ساتھ ساتھ چینی زبان کی ڈکشنری دی اور جاپانیوں کو لکھائى سیکھانے کیلئے اپنے دانشوروں کو بھیجا ۔ چونکہ چینی زبان کے لکھنے کا طریقہ مشکل تھا اِسلئے جاپانیوں نے لکھائى کا اپنا طریقہ بھی وضح کیا ۔
آسوکا دور
سنہ 538 میں آسوکا کا دور شروع ہوچکا تھا ۔ سیاسی اصلاحات شروع ہوچکی تھیں اورفن و ثقافت ترقی کرنے لگی ۔ کوریا کے ذریعے جاپان میں بدھ ازم متعارف ہوچکا تھا جس سے جاپانی معاشرہ بڑی حد تک متاثر ہوا ۔ اب ُملک وا کے بجائے نیہون کے نام سے پہچانا جانے لگا ۔ اُس وقت چین میں تانگ دور حکومت تھی جس کے جاپان کے ساتھ گہرے قریبی روابط استوار ہوئے ۔ اُس دور میں بادشاہ کوئى زیادہ طاقتور نہیں ہوتا تھا بلکہ اصل طاقت دربار کے اُمراء کے پاس تھی ۔ شہزادہ شوتوکُو نے اپنے آپ کو بُدھ مت کی پرچار کیلئے وقف کردیا تھا جس سے جاپانی معاشرے میں تبدیلی آنے لگی اور امن وسکون ظاہر ہونے لگا ۔
نارا دور
جاپان میں 8 ویں صدی عیسوی میں نارا دور کا آغاز ہوتا ہے ۔ اِس سے قبل تک یہ روایت عام تھی کہ جب بادشاہ یا ملکہ کا شاہی محل میں انتقال ہوتا تھا تو روح کے اثر سے بچنے کیلئے وہ محل چھوڑ کرنیا تعمیر کیا جاتا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک مہنگا اور مشکل کام ہوتا گیا ۔ بالاخر جاپانیوں نے سوچا کہ بادشاہ تو چینیوں کے بھی مرتے ہیں لیکن اُنہوں اپنے محل یا دارالحکومت کو نہیں چھوڑا ، لہذا اِس عمل کو روکتے ہوئے نارا میں 710 عیسوی میں ایک مستقل دارالحکومت قائم کیا گیا ۔ یہ چین کے تانگ دور حکومت میں قائم دارالحکومت چانگ آن ، جو آج کل شیان کے نام سے پہچانا جاتا ہے، کے طرز پر بنایا گیا ۔ اِس شہر میں ہزاروں لوگ آباد ہوئے ۔ پکودا بنائے گئے، پارک تعمیر ہوئے اور ساکورا کے درخت لگائے گئے ۔ فن و ادب ترقی کرنے لگا ۔ زبان کی تحریری شکل پر جاپانی شاعری واکا بھی تحریر میں آنے لگی ۔
اقتصادی اور انتظامی معاملات میں اضافہ ہوا ۔ مرکزی دارالحکومت نارا اور صوبائى دارالحکومتوں کے مابین رابطہ سڑکیں تعمیر کی گئیں ۔ ٹیکس کی وصولی شروع ہوئى اور حکومتی سکہ رائج کیا گیا ۔ بدھ ازم اور شنتو ازم کے حوالے سے پائے جانے والے اختلاف کو یوں حل کیا گیا کہ اُس وقت کے بااثر بھکشو گیوگی کو اِس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کا فریضہ سونپا گیا جنہوں نے اماتےراسو نامی عبادت گاہ کے دروازے پر سات شب و روز تک عبادت کی اور رائے طلب کی ۔ بالاخر سورج کی دیوی نے جواب دیا کہ یہ دونوں مذاہب ، ایک ہی عقیدے کے اظہار کے دو مختلف طریقے ہیں ۔ اُس کے بعد جاپان میں بدھ مت کی عبادت گاہیں تعمیر کی گئیں ۔
نارا ایک شاندار دارالحکومت کی شکل اختیار کر گیا لیکن انتظامی امور کمزور تھے ۔ آئنو قبائل اب بھی خطرہ تھے ۔ دوسری جانب بدھ مت کے دو کیو نام کے بھکشو نے ملکہ کوکین کے ساتھ معاشقہ شروع کیا اور ملکہ کو اپنے زیرِاثرکرلیا ۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسا روس میں رسپوتین نے اُس وقت کے بادشاہ کی ملکہ کے ساتھ جنسی تعلق بناکر انتظامی امور پر اثرڈالنا شروع کردیا تھا ۔ بعد میں دوکیو نے ولی عہد یعنی کراؤن پرنس کو قتل کرکے خود کو وزیر اعظم اور اعلی ترین بھکشو قرار دینے کا اعلان کیا ۔ اُس کی لالچ یہیں پر ختم نہیں ہوئى اور اُس نے شنتو مذھب کے ہاچی مِن کی عبادت گاہ سے جنگ کے دیوتا کا یہ حکم حاصل کیا کہ اگر اُسے آئندہ کا شہنشاہ منتخِب کیا گیا تو وہ جاپان میں دائمی امن کا وعدہ کرتا ہے ۔ ملکہ کو شک گزرا اور اُنہوں نے ہاچی مِن کے دیوتا سے معلوم کیا کہ کیا یہ درست ہے، تو جواب ملا کہ بھکشو کبھی شہنشاہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اُس کا شجرہ نسب شہنشایت کا نہیں ہوتا ۔
حقائق معلوم ہونے پر نارا کے اُمراء نے بھکشو سے تمام خطابات واپس لیکر اُسے سزا کے طور پر دوراُفتادہ ایک چھوٹے سے جزیرے پر قید کردیا ۔ اب جاپانیوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ کبھی خاتون کو منصبِ اقتدار نہیں سونپنا چاہیے ۔
[flagallery gid=1 name=”Gallery”]
ہیان دور
سنہ 784 عیسوی میں دارالحکومت کو نارا سے ناگااوکا منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ تاہم گیارہ سال بعد اِس علاقے کو بد شگون قرار دے کر دارالحکومت کو ہیانکیو منتقل کیا گیا جو آج کل کیوتو کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔ یہ نارا کے مندر سے صرف 28 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔
سنہ 795 عیسوی میں ہیانکیو دور شروع ہوتا ہے ۔ اِس دور میں فیشن اور شعر و ادب میں خاصی ترقی ہوئى ۔ عورت کو ریاست کے معاملات ، اقتدار کی رسہ کشی اور سماجی سرگرمیوں میں موقعہ ملنے لگا ۔ اور مشہور داستانِ گینجی بھی موراساکی شیکیبو نامی خاتون ہی نے تحریر کی ۔ جس میں محبت کے کئى قصے رقم کیے گئے ہیں ۔ اِسی دور میں سمورائے جنگجووں کا اثر بڑہنے لگا ۔ اگرچے بادشاہِ وقت مطلق العنان ہوتا تھا لیکن دربار کے اُمراء ہی اصل اختیارات کے مالک تھے اور اُنہیں اپنے مفادات اور اپنے تحفظ کیلئے پولیس گارڈ اور سپاہیوں کی ضرورت ہوتی تھی اور یوں جنگجو طاقتور ہوتے گئے جن میں میناتو ، طائرہ ، فوجی وارا، اور تاچی بانا قبیلوں کو بہت طاقتور سمجھا جاتا تھا۔ 12 ویں صدی کے اواخر میں اِن قبیلوں کے مابین لڑائى نے اُس وقت خانہ جنگی کی صورت اختیار کرلی جب میناتو اور طائرہ قبائل کے مابین کیوتو اور مرکزی حکومت پر قبضہ حاصل کرنے کیلئے لڑائى شروع ہوئى ۔ ہیان دور کے زوال پذیری کے ماہ وسال میں لاقانونیت اور تشدد کا دور دورہ تھا ۔ جاگیر داروں نے اپنے بیٹوں اور ملازمین کو مسلح کردیا اور تجربہ کار جنگجؤوں کی خدمات کرائے پر حاصل کی گئیں ۔ چونکہ لڑائی میں چھوٹے گروپوں کی شکست یقینی تھی لہذا ، اُنہوں نے اپنے قریب کے بڑے نوابوں کے ساتھ اتحاد کیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اِسی طرح کے جاگیردارانہ نظام کا عکس اُس وقت یورپ میں بھی نظر آرہا تھا کہ جب مرکزی حکومت کمزور پڑتی تھی تو چھوٹی علاقائى طاقتیں امن و عامہ برقرار رکھتی تھیں ۔ اُسی دور میں سمورائے جنگجؤوں کیلئے ایک ضابطہ تحریر کیا گیا جسے بوشیدو کہتے تھے ۔ اِس کا مقصد اپنے مالک سے وفاداری کا عہد تھا ۔ اپنی وفاداری کو نبھاتے وقت اُس کی بیوی ، بچے یا والدین کی محبت تک حائل نہیں ہوگی اور اپنے آقا کیلئے ایک باعزت موت مرنا ہی اُس کی زندگی کا مقصد ہوگا ۔ عورتوں کیلئے بھی یہی اصول تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو اُنہیں بھی اپنے شوہروں کے شانہ بشانہ لڑتے ہوئے ایسی ہی موت قبول کرنی ہوگی ۔
فوجیوارا قبیلے کی زوال پذیری سے پیدا ہونے والا خلاء ، طائرہ اور میناموتو قبائل نے پُر کیا ۔ اِن دونوں کے درمیان لڑی جانے والی پہلی جنگ 1156 سے 1160 تک چلتی رہی اور طائرہ کو فتح نصیب ہوئى ۔ اُس کے سربراہ ، کیوموری نے کیوتو کی جانب پیش قدمی کی اور بعد میں اپنی بیٹی کی شادی شاہی خاندان کے ایک شہزادے سے کرائى ۔ کیوموری کے مخالفین کو بے دردی سے قتل کیا گیا اور اُن کی جائدادیں ضبط کرلی گئیں تاہم میناموتو ، موجودہ ٹوکیو کے مغرب میں واقع زرخیز علاقے کانتو کی جانب بچ نکلا ۔ جو اُس وقت کیوتو کی مرکزی حکومت سے خاصا دور علاقہ تھا اور وہ اُس پر مضبوط کنٹرول نہیں ہوسکا ۔
تاریخ دان ، طائرہ کی دارالحکومت کی جانب پیش رفت کو اُس کے زوال کا سبب گردانتے ہیں اور اِسے انتہائى مہلک غلطی تصور کرتے ہیں کیونکہ وہ کیوتو کے علامتی جاہ و جلال میں کھوگئے تھے ۔ دوسری جانب میناموتو نے ایک بار پھر اپنی طاقت حاصل کرنا شروع کردی ۔ سنہ 1180 میں اُن کی فوجوں نے جنوب ۔ مغرب کی جانب پیش قدمی کی اور یکے بعد دیگرے فتوحات حاصل کیں اور یوں کرتے کرتے سنہ 1185کی ایک بحری جنگ میں طائرہ قبیلے کو مکمل شکست ہوئى ۔
جاری ہے

تبصرے

  1. بہت خوب آفريدى صاحب جاپان کى تاريخ کو اتنے اچھوتے انداز ميں اپنے پاکستانى دوستوں کو اس کے متعلق بتا رہے ہيں جاپان کى تاريخ واقع ايک بہت اپنا تشخص قائم کئے ہوئے ہے آپ کى اس لکھى ہوئى تاريخ ميں نارا دور اور بيان دور کو پڑھ کر بہت معلومات حاصل ہوئى ہيں چونکہ يہ قسط جارى ہے اميد ہے کہ ہميں بہت پڑھنے کا موقع ملے گا بہر حال اس پر ميں آپ کو مبارک باد پيش کرتا ہوں او آپ کو ايک مشورہ بھى ديتا چلوں کہ اگر اس کو ايک مکمل کتاب کى شکل دے دى جائے تو جاپان کى تاريخ سے دلچسپى رکھنے والوں کو ايک نئى راہ مل سکتى ہے بہر حال ايک مرتبہ بھر مبارک باد قبول کريں شکريہ محمد عرفان نيازى ميانوالى

Leave a Reply

Back to top button