جواب دیں
سمیع اللہ ملک
حالیہ ایبٹ آباد آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاکستانیوں کے بدترین خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں کہ ریاستی اداروں کوامریکاکے آپریشن کا اس وقت پتہ چلاجب وہ اپنامبینہ آپریشن کرکے یہاں سے رخصت ہو گئے اورسی آئی اے کے سربراہ نے میڈیامیں آکراطلاع دی کہ اگرپاکستان کو اس آپریشن کے متعلق بتادیتے تو یہ آپریشن ناکام ہوجاتا۔اس سارے واقعے میں سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ تھی کہ امریکی ہیلی کاپٹر میں سوارخصوصی کمانڈودستے بٹگرام دافغانستان سے ایبٹ آبادکے حساس علاقے ملٹری اکیڈمی کاکول کے عقب میں پہنچ کراپنے چالیس منٹ میں ٹارگٹ مکمل کرکے واپس چلے گئے اورپاکستان کی تمام حفاظتی ودفاعی تدابیر ناکام ہوکررہ گئیں۔ پاکستان کے دفاعی اداروں کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیااورنہ ہی پاکستان میں کسی راڈار کوان کی خبر ہوئی ۔پاکستان کی حکومت نے بھی اس ناکامی کا اعتراف کرلیاہے کہ ان کو بالکل پتہ نہیں چلاکہ یہ کاروائی کب کہاں اورکس وقت ہوئی ،صرف اس بیان پر اکتفاکیاگیاکہ پاکستان کی فراہم کردہ معلومات پرامریکی اس آپریشن میں کامیاب ہوئے اورہمارے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی اس کوعظیم فتح قراردیکراپنی ناکامی چھپاتے رہے حالانکہ ان کی پہلی فتح ریمینڈکی رہائی سے شروع ہوئی تھی جبکہ آئی ایس آئی کے جنرل شجاع پاشا اسامہ بن لادن کی موجودگی سے لاعلمی پر شرمندگی کااظہارکرکے ساری قوم کوایک نئی تشویش میں مبتلاکرکے خاموش ہوگئے ہیں۔
مگراس آپریشن میں وہ دردناک حقیقت پنہاں ہے کہ پاکستان کاسارادفاعی انتظام ملکی دارلحکومت سے پچاس میل دوراس امریکی حملے سے بالکل لاعلم کیسے رہا؟پاکستانی قوم اس لاعلمی کے جواب کےلئے انتہائی مضطرب ہے۔ساری دنیاکواس واقعے نے لرزاکررکھ دیاہے جس کی اطلاع باقاعدہ امریکی صدر اوبامہ کے خطاب سے ملی لیکن ابھی تک پاکستان میں کسی بھی حکومتی عہدیدارنے قوم کواس واقعے کے متعلق اعتمادمیں لینامناسب نہیں سمجھاکہ آخر قوم کے کھربوں روپے جہاں صرف ہورہے ہیں ان اداروں کی ناکامی کی کیاوجہ ہے ؟دفتر خارجہ کامعمولی سابیان صرف بیرونی دنیاکےلئے سامنے آیاہے اوراس بیان میں بھی پاکستانی قوم کومخاطب نہ کرکے اس پرمزیدستم ڈھایاگیاہے اوران کو یہ بالکل نہیں بتایاگیاکہ اتواراورسوموار کی درمیانی شب قوم کس سانحے سے گزری۔اس سارے واقعے سے یہ عیاں ہوتاہے کہ پاکستانی دفاعی انتظام ملکی سلامتی کومحفو ظ رکھنے میں ناکام رہااور ساری قوم اب اس تشویش کاجواب طلب کررہی ہے کہ اگرکل کلاں دوبارہ ایسا واقعہ ہوا تو قوم کودشمن کے حملوں سے کیسے محفوظ رکھاجاسکتاہے؟
امریکانے سینہ ٹھونک کراپنی قوم کے علاوہ ساری دنیاکواس خوشخبری سے مطلع کیاکہ یہ کاروائی اس کے بہادر کمانڈونے کی ہے۔اس سلسلے میں باقاعدہ وائٹ ہاؤس میں اوبامہ کے مشیربرائے انسداد دہشتگردی جان بریٹن نے ایک پریس کانفرنس میں جی بھر کراپنے بہادروں کی کارکردگی کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ:
” پاکستان اس واقعے پرمنہ میں انگلیاں دبائے حیران رہ گیا ہے اوراس آپریشن میں ہم نے پاکستان کو ہلنے تک کاموقع نہیں دیا۔ہم نے پاکستانیوں سے اس وقت تک رابطہ نہیں کیاجب تک آپریشن میں ملوث ہمارے تمام افراداورہیلی کاپٹرپاکستانی فضائی حدودسے باہرنہیں چلے گئے ،اس وقت پاکستانی اس واقعے پرردعمل ظاہر کررہے تھے جوایبٹ آبادمیں وقوع پذیرہواچنانچہ وہ اپنے لڑاکاطیاروں کوفوری پروازکےلئے تیارکررہے تھے ۔صاف ظاہرہے کہ اگرپاکستانی اپنے طیاروں کو اڑانے یاکچھ اورکرنے کی کوشش کرتے توہمیں تشویش تھی کہ انہیں ہمارے بارے میں کوئی اندازہ نہیں تھاکہ امریکایاکوئی اوریہ کاروائی کررہاہے،اس لئے ہم پوری صورتحال پرنظررکھے ہوئے تھے اوراس بات کو یقینی بنارہے تھے کہ ہمارے لوگ اورہیلی کاپٹرپاکستانی فضائی حدودسے باہرنکلنے میں کامیاب ہوجائیں اورخوش قسمتی سے پاکستانی فورسز کی طرف سے کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔آپریشن کو تشکیل دیتے ہوئے یہ ذہن میں رکھاگیاتھاکہ پاکستانی فورسزکی جانب سے کسی بھی کاروائی کوکم سے کم رکھاجائے“۔
یہ خوش قسمتی بھی امریکاکے حصے میں آئی کہ پاکستان کی طرف سے کوئی کاروائی نہیں ہوئی اوربدقسمتی اس پاکستانی قوم کے نصیب میں آئی کہ ہمارے دفاعی ادارے منہ دیکھتے رہ گئے، بدقسمتی اس وجہ سے نہیں کہ اس آپریشن کہاں ،کس وقت اوراس کی نوعیت کیاتھی،اسامہ بن لادن اورالقاعدہ کی حقیقت کیاہے بلکہ وہ قوم جوکھربوں روپے اپنے دفاع وسلامتی کوناقابل تسخیربنانے کےلئے خرچ کرچکی ہے جب اس پریہ حملہ ہواتووہ کوئی بھی کاروائی کرنے سے قاصر رہی۔ہمارے وزیراعظم جوچھوٹی سی بات کےلئے بھی میڈیاکے سامنے جانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے لیکن اتنے بڑے واقعے پرکوئی تبصرہ کئے بغیرفرانس کے چارروزہ دورے پرروانہ ہوگئے ۔پاکستانی قوم کواپنے صاحبان اقتدارسے توکوئی اطلاع نہیں ملی لیکن بیرونی ذرائع ابلاغ سے بھیانک اوررسوائی کی اطلاعات مسلسل موصول ہورہی ہیں۔
بی بی سی کے ممتازکالم نگاراوئن بیننٹ جونس نے ایک آئی ایس آئی کے ایک انتہائی اعلیٰ افسر کے حوالے سے ایک تفصیلی خبرنشرکی ہے جس میں اس نے دعویٰ کیاہے کہ”۳۰۰۲ءمیں جب ایبٹ آبادمیں یہ مکان زیرِ تعمیرتھااس پرالقاعدہ کے ایک اوررہنماابوفراج اللبی کی تلاش میں چھاپہ ماراگیاتھاتاہم بعدازاں اس مکان کی نگرانی کاسلسلہ ختم کردیاگیاتھا،یہ آئی ایس آئی کےلئے باعثِ شرمندگی ہےہم مکمل طورپرحیران رہ گئے ۔امریکیوں نے ہمارے کسی بھی ردعمل سے قبل ہی پوری کاروائی مکمل کرلی تھیہم کارکردگی میں اچھے ہیں لیکن ہم خدانہیں ہیں،اس ایک ناکامی کی وجہ سے ہمیں مکمل طورپرنااہل نہیں کہاجاسکتا، پچھلے دس سالوں میں کئی ممالک کی مجموعی کارکردگی کے برخلاف ہم نے طالبان اورالقاعدہ کے سینکڑوں افرادکوگرفتارکیا اسامہ بن لادن کی زیرِ حراست بارہ سالہ بیٹی کاکہناہے کہ اس نے امریکیوں کواپنے والد کوگولی مارتے دیکھاتھا“۔
اس سارے واقعے پرحکومتی سطح کاتوکوئی بیان نہیں آیالیکن امریکامیں پاکستانی سفیرحسین حقانی نے سی این این کو اپنے ایک انٹرویومیں یہ ضرورکہاہے کہ ”ظاہر ہے کہ اسامہ بن لادن کے پاس کوئی مددگارنظام موجودنہیں تھا،معاملہ یہ ہے کہ مددگارنظام حکومت یاریاست پاکستان کے اندرموجودتھایاپاکستانی معاشرے میں موجودتھا۔ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں ایسے لوگ موجودہیں جوایسے حقائق سے متفق ہیں جن پربن لادن اوردیگرشدت پسندیقین رکھتے ہیں اورمجھ جیسے عناصران افرادسے لڑرہے ہیں اوریہ حقیقت ہے کہ ایسے لوگ موجودہیں جو غالباً بن لادن کی حفاظت کررہے تھے۔ہم اس بات کی پوری تفتیش کرنے کی کوشش میں مصروف ہے کیونکہ ہماری انٹیلی جنس بن لادن کاسراغ نہیں لگاسکی“۔ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکاکہ پاکستانی سفیرنے ”مکمل تفتیش“کرنے کابیان کس کی ایماءپردیاہے۔
پاکستان کادفاعی نظام تواس واقعہ کوروک نہیں سکا لیکن اس سے پہلے پاکستان کی خودمختاری کوآئے دن ڈرون حملوں کے حوالے سے بھی حکومت یہی موقف اختیارکرتی چلی آرہی ہے کہ یہ بھی ان کی مرضی کے خلاف ہورہے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔پاکستان کے ایک سابق کورکمانڈرصلاح الدین ترمذی نے اس خدشے کااظہارکیاہے کہ” ممکن ہے کہ پاکستان کے تعاون کے ساتھ یہ ساراآپریشن عمل میں لایاگیاہولیکن دہشتگردی کے مزیدواقعات سے بچنے کےلئے پاکستان کوایسا مؤقف اختیارکرنے پرمجبورکردیاگیاہوکیونکہ اب امریکاکوئی غیرملکی طاقت نہیں بلکہ ہمارے حکمرانوں کاآقاہے اوریہ سب اس کے ایسے غلام ہیں جن میں انکارکی جرات اورہمت نہیں وزارتِ خارجہ کے بیان سے یوں محسوس ہورہاہے کہ ان کااس ملک کی سلامتی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں“۔وزیرِ اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے مطابق پاکستان نے امریکاکومعلومات فراہم کیں جس پرامریکانے یہ کاروائی کی جبکہ امریکاکہہ رہاہے کہ اس نے پاکستان کوبتایاتک نہیں جبکہ وزارتِ خارجہ نے اس کو مکمل امریکی کاروائی کہہ کراپنی جان چھڑانے میں عافیت جانی ہے۔
ہمارے حکمران تسلسل کے ساتھ اسامہ بن لادن کے بارے میں لاعلمی کااظہارکرتے رہے ہیں۔1مئی 2010ءکوامریکی میڈیاکوانٹرویودیتے ہوئے صدرآصف زرداری نے امریکا سے دریافت کیاکہ آپ پچھلے آٹھ سالوں سے اس کوتلاش کررہے ہیں،امریکاہمیں بتائے کہ اسامہ کہاں ہےمیں سمجھتاہوں کہ اسامہ اب زندہ نہیں ہے“۔عالمی میڈیاکے سامنے سابقہ صدرپرویزمشرف بھی کئی مرتبہ اس کے مرنے کی اطلاع کی تصدیق کرتے رہے۔23اپریل 2010ءکویوسف رضاگیلانی نے بھی سی این این کوانٹرویودیتے ہوئے کہا ”اسامہ مرچکا ہے اورپاکستان میں کہیں بھی اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں اوراگرہمیں کبھی بھی اس کی کوئی اطلاع ملی توہم امریکاکویقینا مطلع کریں گے“۔وزیرداخلہ عبدالرحمان ملک نے بھی8جولائی 2010ءکومیڈیا کے سامنے ایسا ہی بیان دیاتھاکہ”نہ ملاعمراورنہ ہی اسامہ بن لادن پاکستان میں ہیں“۔
اٹھارہ کروڑ پاکستانی عوام کوپاکستانی حکمران تو کچھ نہیں بتارہے لیکن عالمی میڈیااس واقعے کے ہر پہلوپربڑے خوفناک تبصرے کررہے ہیں۔امریکااوراس کے اتحادی پاکستان سے سوال کررہے ہیں کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ دنیاکاسب سے بڑامطلوب اسامہ پاکستان کے حساس علاقے اورفوجی اکیڈمی کاکول کے قریب رہائش پذیرہواورپاکستان کی تمام انٹیلی ایجنسیاں اس سے لاعلم ہوں؟امریکاکے اندرایک طوفان بپاہے جویہ مطالبہ کررہے ہیں کہ پاکستان سے بازپرس کی جائے اورپاک امریکاتعلقات کاازسرنوجائزہ لیاجائے۔ امریکی میڈیااپنی حکومت سے سخت نالاں ہے اوراس کی ایک جھلک ملاحظہ کریں۔امریکامیں ”راچل میڈوشو“بہت مقبول ہے ۔اس شوکی میزبان چیخ چیخ کرکہہ رہی تھی”پاکستان، پاکستان ،پاکستان،پاکستان،آخرکب تک پاکستان ہوتارہے گاآخر پاکستان کاکوئی علاج بھی ہے کہ نہیں“َ
واشنگٹن پوسٹ اپنے اداریے میں لکھتاہے کہ”بن لادن کمپاؤنڈکے بارے میں حقائق پاکستان کی جانب سے درپیش پیچیدہ چیلنج کونمایاں کرتے ہیں،2005ءمیں تعمیرکی گئی تنصیب میں یہ عمارت ایسے عسکری علاقے میں واقع ہے جوامریکاکی مشہورفوجی علاقے ویسٹ پوائنٹ کاپاکستانی جواب لگتی ہے۔ماہرین کے مطابق یہ کہنامشکل ہے کہ آیاپاک فوج کواس پناہ گاہ کے بارے میں خبرتھی یانہیں پاکستانی حکام نے اپنی سرزمین کے قلب میں بیرونی فورسزکی کاروائی کی عوامی سطح پرپذیرائی کی ہے جس کے بارے میں انہیں کوئی خبرنہیں تھی لیکن بن لادن کی پناہ گاہ سے جڑی پاکستانی سازبازکوخارج ازامکان قرارنہیں دیاجاسکتایااسے سامنے لانے سے روکانہیںجاسکتا“۔دوسرابڑاامریکی اخبار”نیویارک ٹائمز“ اپنے اداریے میں لکھتاہے کہ”بن لادن کے واقعے کے بعدکوئی کیسے اپناچہرہ سپاٹ رکھ سکتاہے یااپنے آپ کو چیخنے سے روک سکتاہے جب پاکستانی حکام دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں طالبان رہنماملاعمریادرجنوں دیگرشدت پسندوں کی خفیہ پناہ گاہوں کی کوئی معلومات نہیں؟“اخبار واشنگٹن پوسٹ اپنی ایک تفصیلی خبرمیں تحریرکرتاہے کہ ”دہشت گردی کے خلاف کاروائیوں میں امریکی اتحادی کے طورپرفوجی مددکی مدمیں اربوں ڈالروصول کرنے والے ملک کے بارے میں واشنگٹن میں یہ رائے جڑپکڑچکی ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف ایکشن پریاتوپابندنہیں تھایاوہ دہشت گردعناصرکی حفاظت کرکے امریکاکودھوکہ دے رہاتھا۔امریکی حکام کاطویل عرصے سے یہ موقف تھاکہ اسامہ بن لادن پاکستان میں موجودتھااورپاکستان کاامریکاسے مطالبہ تھابن لادن کی موجودگی کاثبوت فراہم کیاجائے“۔
اس سے کہیں زیادہ امریکی کانگرس اب چیختی چلاتی نظرآرہی ہے اورامریکاکے بہت ہی اہم کانگرس ممبران بھی اب امریکی حکومت پرپاکستان پرشدیددباؤڈالنے کامطالبہ کررہے ہیں۔ اوبامہ کے مشیربرائے انسداد دہشتگردی جان بریٹن نے کہا”میرے خیال میں یہ ناقابل تصورہے کہ بن لادن کاپاکستان میں کوئی مددگارنظام موجودنہیں تھاجس کی وجہ سے وہ وہاں طویک عرصے تک رہائش پذیررہامیں اس پرقیاس آرائی نہیں کروں گاکہ بن لادن کوپاکستان کے اندرسرکاری سطح پر مبینہ طورپرکس قسم کاتعاون حاصل تھا“۔ایک اوراہم اورمؤثرسینیٹرکارل لیون جوآرمڈسروسزکمیٹی کے چیئرمین ہیں نے کہا”پاکستانیوں کوبہت سے امورپروضاحت دینی ہوگی ،پاکستان کوجاری فوجی اورمعاشی تعاون خطرے میں ہے“ سینیٹر سوزن کولنزبھی چراغ پاہیں ،وہ کہتی ہیں کہ”ہمیں واضح طورپرپاکستان کودباؤ میں رکھنے کی ضرورت ہے اوراس کاایک طریقہ کاریہ ہے کہ پاکستان کودی جانے والی فوجی امدادکومزیدکئی امورسے مشروط کردیاجائے“۔
امریکا کی اس آوازسے دوسرے کئی بین الاقوامی رہنمااتفاق کرتے ہوئے پاکستان پراپنایقین کھوچکے ہیں۔برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کہتے ہیں کہ ”پاکستان میں بن لادن کو فراہم مددگارنظام پربہت سارے سوالات موجودہیں اورہمیں ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی ضرورت ہے“۔پاکستانی وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کے فرانس پہنچنے پریقینافرانسیسی و زیرخارجہ الین یوپ کایہ بیان ان کااستقبال کرے گا کہ”مجھے یہ سمجھنے میں مشکل آرہی ہے کہ کس طرح ایک چھوٹے سے شہرمیں قائم ایک بڑے کمپاؤنڈمیں بن لادن جیسی شخصیت کی موجودگی مکمل طورپراوجھل رہی،پاکستان کے مؤقف میں شفافیت کافقدان ہے“۔
پاکستان اب تیاری کرے کہ اس ”وارآن ٹیرر“میں اس کی سمت کیاہوگی اور اب پاکستان کوسوچنااورفیصلہ کرناہوگاکہ اب کس راہ پر چلناہے۔ڈرون حملوں کے بارے میں حکومت کی ملی بھگت سامنے آچکی ہے۔عوام کے سامنے ملک کی خودمختاری کاواویلاکیاجاتاہے جبکہ اندروں خانہ امریکی حکومت کوان ڈرون حملوں کی اجازت دے رکھی ہے۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ ایبٹ آبادکے اس آپریشن کی کسی نہ کسی کو تواطلاع ضرورتھی جس کی بناءپر صدراوبامہ کوپاکستان کے تعاون کااعتراف کرناپڑا۔پاکستانی راڈار”جام“ہونے پرجونہی کاروائی کا آغازہونے لگاتوکس نے اس کاروائی کوروکنے کاحکم دیا؟صدراوبامہ کی طرف سے ”آپریشن مکمل ہونے کی اطلاع“میں کیارازمضمرہے؟قوم ان تمام خفیہ رازوں کوبے نقاب کرنے اورسچ جاننے کےلئے مضطرب ہے!
اورسب بھول گئے حرفِ صداقت لکھنا رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
لاکھ کہتے رہیںظلمت کونہ ظلمت لکھنا ہم نے سیکھابس پیارے بہ اجازت لکھنا
بروزجمعرات2جمادی الآخر 1432ھ 5 مئی2011ء
لندن