پیپلز پارٹی کی گود میں
قارئین!آپ سے انتہائی معذرت خواہ ہوں کہ میں اُن سیاستدانوں کو ملک کے بڑے سیاستدان کہتا رہا جو انٹرویو میں کہا کرتے تھے کہ نواز شریف پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کرکے اِس پارٹی کا حصہ بن گئے ہیں لیکن جب سےاسی رہنماﺅں کے قول و فعل میں تضاد آجائے تو نہ صرف اُنکی پارٹیاں تباہ ہو جاتی ہیں بلکہ ملک اور وہاں کی عوام بھی نقصان اُٹھاتی ہے۔آج پاکستان اس امر کا متقاضی نہ تھا کہ پاکستان کے بڑے بڑے سیاسی رہنماءملکی اور عوامی مفاد کو نظر انداز کرکے ایسی سیاسی جماعت کا حصہ بن جاتے جس نے ملکی مفاد کے سب سے بڑے منصوبے کالا باغ ڈیم کو زندہ دفن کر دیااور عوام کو اندھیروں کی نظر کر دیا۔آج پاکستان کی وہ بڑی بڑی جماعتیں جو محب وطن ہونے کا دعویٰ کرتی رہیں بلکہ اب بھی کرتی ہیں صرف اقتدار کی خاطر اپنی جماعتوں کے کارکنوں کے جذبات کو پس پشت ڈالتے ہوئے پیپلز پارٹی کی صفوں میں شامل ہو گئے ۔پاکستان مسلم لیگ کا ایک بھی نظریاتی کارکن پیپلز پارٹی کے ساتھ سےاسی اتحاد کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا لیکن میاں نواز شریف اور چوہدری شجاعت حسین نے نہ تو اپنے کارکن کے جذبات کی قدر کی اور نہ ہی ملکی مفاد کو ترجیح دی ۔پاکستان مسلم لیگ کے کارکن چیختے رہے ،دانشور مشورے دیتے رہے،وقت نے ضرورت بھی محسوس کروائی لیکن دونوں مسلم لیگی بھائیوں نے آپس میں بےٹھنے کی بجائے غیر فطری اتحاد کو ترجیح دی۔آج پیپلز پارٹی کا چھوٹے سے چھوٹا کارکن بھی چوکوں ،چوراہوں اور گلیوں بازاروں میں نعرے لگاتا پھر رہا ہے کہ مسلم لیگ پیپلز پارٹی کی گود میں بیٹھ گئی۔پاکستان پیپلز پارٹی نے تو ایک سیاسی چال میں کامیابی حاصل کرلی لیکن کیا یہ عشرہ پاکستان مسلم لیگ کی تاریخ کا بھیانک ترین عرصہ نہیں کہلائے گا؟جس دوران مسلم لیگی رہنماﺅں نے اس پارٹی کے کئی ٹکڑے کرکے غیر ترقی پسند
قوتوں کی گودیں ہر ی کیںشائد یہ چند سال مسلم لیگ کی تاریخ میں سیاہ حروف میں لکھ دئیی جائیں۔
آج جب حاجی نعیم حسین چٹھہ،محترمہ ماروی میمن اور دیگر مسلم لیگی رہنماﺅں پر مشتمل ایک دھڑا پیپلز پارٹی کے ساتھ مسلم لیگی
رہنماﺅں کے ساتھ اتحاد کی بھرپور مخالفت کرتا رہا لیکن اُنکی ایک نہ سُنی گئی۔قارئین!یہ عشرہ پاکستان کی تاریخ کا کمزور ترین عشرہ کہلائے گا ،تاریخ گواہی دے گی کہ اِس ملک کے بڑے بڑے سیاستدانوں نے اتحاد بھی کئے لیکن اِس پیارے پاکستان کی حالت پر زرہ بھر بھی رحم نہ کیا ۔پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی آج مشترکہ اقتدار کے ذریعہ عوام کو جس انداز سے زلیل و خوار کر رہے ہیں اُسکی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔عوام کو لوٹنے والے پہلے کیا کم تھے کہ ایک اور جماعت حکومت میں نازل ہوگئی ہے۔یہ درست ہے کہ ق لیگ پیپلز پارٹی سے وزارتیں لینے میں کامیاب ہوگئی بلکہ دیگر مفادات بھی لیکن کیا کبھی کسی سیاسی رہنماءنے سو چا ہے کہ عوامی اور ملکی مفاد کی خاطر وزارتیں قربان کر دی جائیں۔دیگر جماعتوں سے تو ویسے ہی عوام نا اُمید ہو چکی ہے لیکن کاش (ق) لیگ بے حال عوام کی تکلیفوں کا خیال رکھتے ہوئے پیپلز پارٹی سے اتحاد کے بدلے میں وزارتوں کی بجائے کالا باغ ڈیم کا مطالبہ کر لیتے تاکہ اندھیروں میں ڈوبی عوام کی زندگیاں بھی روشن ہو جاتی لیکن افسوس کہ پاکستان کے تمام سیاسی رہنماءڈنگ ٹپاﺅ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔
بہر حال پیپلز پارٹی کا کارکن چوکوں چوراہوں اور گلیوں بازاروں میں اگر نعرے لگا رہا ہے کہ ساری کی ساری پاکستان مسلم لیگ پیپلز پارٹی کی گود میں بیٹھ گئی ہے تو مسلم لیگی رہنماﺅں کو بالکل شرمندہ نہیں ہو نا چاہئے کیونکہ اُنکے مقاصد تو پورے ہو رہے ہیں ۔بہر حال صدر زرداری کی سیاست تعریف کے قابل ہے کیونکہ اُنہوں نے اگر تمام سیاسی جماعتوں کو پیپلز پارٹی کی گود میں بٹھا دیا ہے تو یہ اُنکی دانشمندی ہے ۔بلکہ مجھے تو محسوس ہو رہا ہے دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں کی غلط پالیسیوں کے باعث آصف علی زرداری اور انکی جماعت آئندہ سےنٹ اور دےگر اسمبلےوں مےں اےک بار پھر راج کرے گی۔اگر حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف بولنے والے سیاستدان خود بھی حکومت کا حصہ بن جائیں گے تو عوامی مفاد کی بات کون کرے گا؟ ۔میاں نوازشریف اور چوہدری شجاعت صاحب کو مشورہ ہے کہ وہ اگر قائد اعظم کی پارٹی کو بچانا چاہتے ہیں اور تاریکی میں ڈوبی ہوئی پاکستانی عوام کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو بلا تاخیر ایک ملاقات کریں ورنہ شائد بہت دےر ہو جائے۔
محمد اکرم خان فریدی
کالم نگار,مجاہد نگر،جنڈیالہ روڈ ،شیخوپورہ شہر
فون03024500098