کالم

حقیقت کیا ہے؟ از سمیع اللہ ملک

سمیع اللہ ملک
پچھلے کئی ماہ سے پاکستان وزیرخارجہ سے محروم ہے اورمعاملات کونمٹانے کی ذمہ داری نوآموزحناکھرکے سپردہیں جن کوان تمام معاملات کاقطعاًکوئی تجربہ نہیں جبکہ خارجہ سیکرٹری سلمان بشیرکسی حدتک اس کمی کوپوراکرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ملک کی خارجہ پالیسی کوسنوارنے کیلئے اس وقت انتہائی کسی تجربہ کارفرد کی ضرورت ہے جوملک پرمنڈلاتے خطرات کاادراک رکھتے ہوئے خارجہ پالیسی کوازسرنومنظم کرکے بین الاقوامی طورپرپاکستان کوآنے والے دنوں میں ان پریشان کن حالات کی منجدھار سے نکال سکے۔وزیرخارجہ کی عدم موجودگی کی بناء پرامریکاکے ساتھ ہونے والے دوبہت ہی اہم اسٹرٹیجک اجلاس نہیں ہوسکے جبکہ ان حالات میں امریکااورپاکستان کوایک دوسرے کی اشدضرورت ہے۔ابھی ایبٹ آبادآپریشن کی مکمل تفصیلات سامنے بھی نہیں آئیں تھیں کہ اگلے ہی دن واشنگٹن پوسٹ میں صدرزرداری صاحب کاآرٹیکل شائع ہوگیا جس میں انہوں نے اسامہ کی ہلاکت کودنیاکے امن سے تعبیرکرتے ہوئے امریکی کاروائی پرخوشی کا اظہار تو ضرور کیا لیکن پاکستان کی خودمختاری کوپامال کرنے پرامریکاسے کسی احتجاج کاذکر تک نہیں کیااوروزیراعظم گیلانی نے بھی اس کوعظیم فتح وکامیابی سے تعبیرکردیااوراس طرح مبارکبادوں کاتبادلہ شروع ہوگیا۔
ادھرامریکامیں وائٹ ہاؤس اوروزارت خارجہ کے پالیسی بیانات میں اگرچہ کچھ نرمی دکھائی جارہی ہے تودوسری طرف سی آئی اے اورپینٹاگون کے دوسرے عہدیداروں کے علاوہ سینٹ اورکانگرس میں پاکستان کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنے پرزوردیاجارہاہے اورماضی میں امریکی میڈیامیں پاکستان کے بارے میں جن شکوک وشبہات کا اظہار کیا جا رہا تھا اب ان کا رویہ خاصاجارحانہ ہوگیاہے اورامریکی عوام اس پروپیگنڈے سے خاصے متاثر نظرآرہے ہیں جبکہ امریکامیں ایک قلیل طبقہ ایسا بھی موجودہے جس کو پاکستانی عوام کی شکایات اورامریکی زیادتیوں کابھی احساس ہے اوروہ اس بات سے واقف ہیں کہ اس مصیبت کی گھڑی میں پاکستان کی اہمیت وکردار امریکاکی سلامتی کیلئے کس قدراہم ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک کاانحصار ایک دوسرے کیلئے بہت ضروری ہوچکاہے اوردونوں ایک دوسرے کوچھوڑنے کیلئے تیاربھی نہیں۔
امریکااورپاکستان کے تعلقات اوران کی دوستی اوردشمنی کیلئے دوطرح کے خیالات پائے جاتے ہیں۔ امریکاسے دوستی کامشورہ دینے والے اپنے دلائل میں یہ کہتے ہیں کہ پاکستان دومعاملات کیلئے امریکاپرانحصارکرتاہے،اوّل یہ کہ ہمیں اپنے آئندہ ۲۸مئی کو آے والے بجٹ خسارے کیلئے امریکی امدادکی اشدضرورت ہوگی جہاں حکومت قوم کو آئندہ سال کیلئے ڈھائی کھرب روپے کی ملکی آمدن کی نوید سنائے گی اوراگلے ہی لمحے ساڑھے تین کھرب ملکی اخراجات کی تفصیلات بتاکرقوم کوتشویس میں مبتلاکردے گی۔ اب ایک کھرب کے خسارے کوپوراکرنے کیلئے یقینا حکومت امریکاسے امیدیں لگائے بیٹھی ہے۔جون یاجولائی میں حکومت اپنی تیل پالیسی کااعلان کرے گی اوروہاں ہمارے وزیرتجارت اس بات کااعلان کریں گے کہ ہماری ۲۰بلین ڈالر کی ایکسپورٹ ہے جبکہ۳۰ بلین ڈالرامپورٹ کیلئے درکارہیں،اب وہ ۱۰ بلین ڈالر کہاں سے آئیں گے؟اس کیلئے بھی امریکاکی ضرورت ہوگی۔اس طرح اس مفادات کی جنگ میں دشمنی کی تمیزسے ہاتھ دھونے کامشورہ دیاجائے گا۔پچھلے۶۴ سالوں سے پاکستان کامقابلہ اپنے سے آٹھ گنا بڑے دشمن بھارت کے ساتھ چلاآرہاہے اوریقیناپاکستان کواپنے دفاع کیلئے بھی مختلف قسم کے حساس اسلحے کی ضرورت ہروقت رہتی ہے اوراسی لئے ملکی بجٹ کاایک کثیر حصہ دفاع پرخرچ کرناہماری مجبوری بن چکاہے وگرنہ رہی سہی خودمختاری کسی بھی وقت سلب ہوسکتی ہے،اورپچھلے ۶۴ سالوں سے ہمارے دفاعی اسلحے کاانحصاربھی کسی حدتک امریکاپرہے۔
امریکاپاکستان پراس لئے انحصارکررہاہے کہ اس کی سوالاکھ سے زائد افواج افغانستان میں جنگ میں الجھی ہوئی ہے اور ان کیلئے خوراک،اسلحہ اورٹرنسپورٹ کورواں دواں رکھنے کیلئے پٹرول کی جواشد ضرورت وہ پاکستان کے زمینی راستے سکے بغیرممکن نہیں اوراگرپاکستان اس ترسیل کوروک دے توامریکااوراس کے اتحادی نیٹوافغانستان میں ایک ہفتے سے زائد ٹھہرنہیں سکتے۔ویتنام میں سمندری حدودکی وجہ سے امریکی ہیلی کاپٹر سے لٹک کرفرارہونے میں کامیاب توہوگئے لیکن اس خطے میں توامریکی تابوت بھی پاکستان کی مدد کے بغیرواپس نہیں جاسکتے۔ اس کے علاوہ امریکااوراس کے اتحادی یہ سمجھتے ہیں کہ دنیاکے سب سے زیادہ خطرناک دہشتگرداس خطے میں مقیم ہیں ،تیسرابڑاخدشہ ہمارے ایٹمی اثاثے ہیں جن کوامریکااوراس کے اتحادی اپنے لئے بہت بڑاخطرہ سمجھتے ہیں اورچوتھابڑاخدشہ یہ ہے کہ اگر ان ایٹمی اثاثوں تک دہشت گردوں کی رسائی ہوگئی توساری دنیا کے امن کوتباہ وبربادکیاجاسکتاہے۔پاکستان تقریباًدس درجن سے زائد ممالک کے ساتھ کاروبارکرتاہے ،ان میں صرف ایک ملک ایسا ہے جس سے پاکستان کاایکسپورٹ سرپلس ہوتاہے اوروہ ہے امریکا۔دوسری طرف چین پاکستان کاانتہائی وفاداراورمخلص دوست تو ضرور ہے لیکن بجٹ خسارے کوختم کرنے کیلئے چین نے کبھی مددنہیں کی۔چین پاکستان سے اپنی تجارت بڑھانے میں ضروردلچسپی رکھتاہے اورکئی مشترکہ پراجیکٹس میں ہماراساتھی ہے مثلاً اس نے قراقرم ہائی وے بنانے میں ہماری خاصی مددکی ، دفاعی سازوسامان ٹینکس،جے ایف تھنڈر کی تیاری میں ہماری شراکت بے مثال ہے، اس کے علاوہ کئی دوسرے منصوبوں میں اس نے خاصی سرمایہ کاری کررکھی ہے۔چین کی مثال ایسے ہے کہ وہ مچھلی پکڑنے کاگرسکھاتاہے کہ ہم مستقبل میں اپنے پاؤں پرکھڑے ہوسکیں اورامریکاکھانے کیلئے بھیک میں مچھلی فراہم کرتاہے تاکہ ہم اس بھیک کے ذریعے اس کے محتاج بنے رہیں۔پاکستان کوسب سے زیادہ قرضے ایشین ڈویلپمنٹ بینک، انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ اورورلڈ بینک نے مہیاکئے ہیں اوران تمام اداوں میں امریکاکی مرضی کے بغیرکسی کوکوئی قرضہ یامددنہیں مل سکتی، امریکاجب چاہے پاکستانی معیشت جواس وقت’’ آئی سی یو‘‘میں سانس لے رہی ہے کسی بھی وقت آکسیجن پائپ کوبندکرکے شدیدنقصان پہنچاسکتاہے اس لئے بہ امرمجبوری پاکستان کوامریکاکاساتھ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
وہ گروہ جوامریکاکی غلامی سے نجات حاصل کرنے کیلئے دن رات واویلاکررہاہے اوراس آئے دن کی ذلت سے چھٹکارہ پانے کیلئے پاکستان کوامریکاسے اپنے تعلقات پرنظرثانی کامشورہ دے رہاہے۔ان کی رائے یہ ہے کہ پاکستان کوسب سے پہلے یہ فیصلہ کرناہے کہ وہ پاکستان کے کیسے مستقبل کے خواہاں ہیں ۔آج کل پاکستان کوجوبجٹ میں ایک کھرب خسارے کاسامناہے اس کوختم کرنے کیلئے دوستی اورغلامی کے فرق کوسمجھتے ہوئے فوری طورپرمنصوبہ بندی کرکے اپنی آمدن کوبڑھانے اورخسارے کوکم کرنے کی پالیسیوں پرعمل درآمدکرناہوگا۔ امریکاافغانستان میں اپنے بے پناہ وسائل جھونک کربھی شکست سے دوچارہے اورطالبان کے ساتھ کئی مرتبہ خفیہ مذاکرات کرچکاہے اس لئے پاکستان کواس جنگ میں امریکاکاتحادی بننے کی بجائے اپنے ملک کی سلامتی وخودمختاری کوداؤ پرلگانے کی بجائے اس پرائی جنگ سے لاتعلقی کا اظہار کردیناچاہئے۔حالیہ ایبٹ آبادآپریشن کے بعدویسے بھی امریکااوراس کے اتحادی پاکستان کی قربانیوں کی پرواہ کئے بغیر اس کو’’ڈبل گیم‘‘کھیلنے کاطعنہ دیتے ہوئے ذلیل ورسواکررہے ہیں اورگارڈین میں ایک آرٹیکل کے مطابق پاکستان کی آئی ایس آئی کودہشت گردتنظیموں کی فہرست میں شامل کردیاگیاہے اورتمام اتحادیوں کواس امرکی اطلاع بھی دی گئی ہے کہ آئندہ کسی بھی فرد کو جس کاتعلق اس تنظیم سے ہواس کودہشت گردسمجھاجائے۔
امریکاکے یکطرفہ ایبٹ آبادآپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاکستان کوایک مرتبہ پھردہشتگردی کی بھاری قیمت اد کرنی پڑی ہے ۔انتہائی تربیت یافتہ دہشتگردوں نے جدید اسلحے کے ساتھ کراچی میں پی این ایس مہران بیس پراپنی پوری طاقت اورمنصوبہ بندی کے تحت حملہ کرکے نہ صرف پاکستان نیوی کے گیارہ اہلکاراور۲رینجرزکے افرادشہیدکردیئے بلکہ نیوی کے تین انتہائی قیمتی اورین جہازتباہ کرکے ( تقریباً ۱۴۵ ملین ڈالرز)کاخطیر نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوگئے ہیں اورہمارے حصے میں ناقص سیکورٹی کے عالمی طعنے کاسوالیہ نشان باقی رہ گیاہے۔ سوال یہ ہے ان دہشتگردوں کوایسی تربیت کون فراہم کررہا ہے ؟ کیاشمالی وزیرستان کے قبائلی طالبان کے پاس ایسی منصوبہ بندی اورجدیدترین اسلحے کی صلاحیت موجودہے؟ کیا پاکستان کوایک ناکام ریاست ثابت کرکے عالمی برادری میں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے خلاف کسی کاروائی کی منصوبہ بندی تونہیں ہورہی؟کیابلیک واٹریاریمنڈ گروہ دوبارہ متحرک ہوگیاہے جن کے بارے میں یہ اطلاع موصول ہوئی تھی کہ سی آئی اے نے ریمنڈکے ساتھ تقریباً تین سوبلیک واٹر اہلکار افغانستان میں پاکستان کی سرحدکے ساتھ تعینات کردیئے ہیں ؟ یقینا اتنی بڑی کاروائی کے پیچھے ان خفیہ ہاتھوں تک پہنچنے کی اشدضرورت ہے۔
اب وقت آگیاہے کہ امریکاکوبتادیاجائے کہ پاکستان میں دہشت گردی کوکنٹرول کرناہماراکام اورذمہ داری ہے اس میں امریکاکوئی مداخلت نہ کرے اورآج کے بعد امریکاسے دہشتگردی کے نام پرکوئی مددقبول نہ کی جائے۔خودحکومت اس بات کااعتراف کررہی ہے کہ اس پرائی جنگ میں اب تک پاکستان کا۶۸بلین ڈالرکانقصان ہوچکاہے جبکہ چھ ہزار سے زائدہماری افواج کے نوجوان اور۳۴ ہزارسے زائدہمارے پاکستانی شہری جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ وہ لوگ جو پاکستان میں آئے دن خود کش حملے اورسیکورٹی فورسزپرحملے محض اس لئے کررہے ہیں کہ پاکستان اس پرائی جنگ میں امریکا کااتحادی بن چکاہے تو ان کیلئے ایک واضح پیغام ہوگاکہ پاکستان اس جنگ سے علیحدہ ہوچکاہے اوران کے پاس اپنی کاروائیوں کوجاری رکھنے کیلئے پھرکوئی جوازباقی نہیں رہے گا۔اگرامریکاطالبان سے مذاکرات کرسکتاہے توپاکستان کوبھی باقاعدہ ان افرادسے باقاعدہ بات چیت کاآغازکرکے اس جنگ کوکلی طورپرختم کرنے میں پہل کرنی چاہئے اوران تمام غیرملکی افرادکوپاکستان سے نکال دیاجائے جواس وقت پاکستان کوامریکاکااتحادی سمجھتے ہوئے ان کاروائیوں میں شریک ہیں۔
۱۹۵۸ء سے لیکر ۲۰۰۱ء تک اس ملک کے پاس نیشنل ملٹری اسٹرٹیجک پالیسی تھی جس کے تین پہلو تھے۔اول یہ کہ ۹۰سے لیکر۹۵فیصد افواج مشرقی محاذپرتعینات ہونگی، دوم باقی فوج کوشمال مغربی سرحداورمغربی سرحدپرتعینات ہونگی اور تیسرا پہلو ہمارے نیوکلیراثاثے جن کی موجودگی میں دشمن کوپاکستان پرغلظ نگاہ اٹھانے سے پہلے کئی مرتبہ سوچناپڑے اوریہ پالیسی ۲۰۰۱ء تک بڑی کامیاب رہی اورپاکستان نے اپنے سے آٹھ گناطاقت کومشرقی سرحدپرکسی جارحیت سے روکے رکھا لیکن ۲۰۰۱ء میں ہماری یہ پالیسی مکمل طورپرناکام بنادی گئی اورہم آج تک کوئی نئی پالیسی بنانے میں ناکام ہوگئے ہیں اب پاکستان کوایک نئی اورمضبوط نیشنل سیکورٹی اسٹرٹیجی کی اشدضرورت ہے کہ ہم نے اس ملک کواندرونی اوربیرونی خطرات سے کس طرح محفوظ رکھناہے۔اس کیلئے ہمیں ایک مربوط نیشنل اکنامک پالیسی کی ضرورت ہے اوربدقسمتی سے قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہمارے حکومتوں نے کبھی بھی اس پہلوپرغورنہیں کیااورآج تک ملک کونیشنل اکنامک پالیسی دینے میں ناکام رہے ہیں،اس لئے سب سے پہلے ایسی قومی اکنامک پالیسی تیارکرنے کی ضرورت ہے جس کومکمل
آئینی تحفظات حاصل ہوں اوراس کی خلاف ورزی کوسنگین جرم سمجھتے ہوئے اس کی کڑی سزامقررکی جائے ۔ بجٹ خسارے پرقابوپانے کیلئے اپنے اخراجات کوجنگی بنیادوں پرکم کرکے ملک کے اندرٹیکس سسٹم کے دائرہ کارکوبڑھایا جائے اوراس سلسلے میں سب سے پہلے ایوان صدراوروزیراعظم ہاؤس کے علاوہ پاکستان کی تمام اسمبلیوں پراٹھنے والے غیرضروری اخراجات کوختم کرتے ہوئے جاگیرداروں اورسرمایہ کاروں سے پہل کی جائے۔

Leave a Reply

Back to top button