کالم

سامراج کی شناخت اور مقابلے کے لیے حکمت عملی

نذر حافی
علوم و فنون کے موجودہ زمانے میں دنیا جہاں پر گلوبل ویلج کی شکل اختیار کرچکی ہے وہیں پر پورا انسانی معاشرہ باہمی خلفشار اور ابتری کا شکار بھی ہے۔ بھوک، افلاس، بیروز گاری، مہنگائی، کرپشن ، دھونس دھاندلی اور مکرو فریب کے سرطان نے ہر ملک اور ہر معاشرے کے قلب و جگر میں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ وہ ادارے جو بنی نوع انسان کو اِن مسائل سے نجات دلانےکیلئے معرض وجود میں آئے تھے خود انہی مسائل کا شکار ہیں۔ آج کے دور میں انسان پرمسائل کا بوجھ اس قدر زیادہ ہے کہ بہت سارے آزاد ممالک میں بسنے والے آزاد لوگوں کی معاشرتی حالت ہزاروں سال پرانے غلاموں کی حالت سے بھی بدتر ہے۔ ماضی کا غلام انسان خود کو غلام سمجھ کر ظالموں اور جابروں کی غلامی کرتا تھا لیکن آج کا انسان اپنے آپ کو آزاد سمجھ کر ظالموں اور جابروں کی غلامی کر رہا ہے۔ماضی کی طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی اور علم و شعور کے موجودہ دور میں بھی انسان کا مشکلات اور مسائل کے ہاتھوں پسنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسانی وسائل تو بڑھے ہیں لیکن مسائل کم نہیں ہوئے اور اس کاباعث یہ ہے کہ انسانی وسائل پر ماضی کی طرح آج بھی فرعونوں، ظالموں اور جابروں کا قبضہ ہے۔ ہم تاریخ عالم کا جتنا بھی مطالعہ کریں اور انسانی مسائل پر جتنی بھی تحقیق کریں، کتاب تاریخ میں جہاں جہاں انسان نظر آئے گا وہاں وہاں انسانی وسائل پر قابض فرعون ،شدّاد اور نمرود بھی نظر آئیں گے۔چنانچہ انسانی مسائل کے حل کیلئے ضروری ہے کہ ہر مظلوم انسان کویہ شعوردیاجائے کہ اُسے درپیش مشکلات کی اصلی جڑیں کہاں ہیں؟اس کےحقوق کو کون کس طرح پامال کررہاہے؟ظالم کس طرف مورچہ زن ہیں؟ غاصبوں کے پاس کیا کچھ اسباب و وسائل اور ہتھیارہیں؟ دشمن کو کمک کس طرف سے پہنچائی جارہی ہے؟اور دشمن کے آئندہ کےاہداف کیا ہیں؟
اگر انسان کو دشمن کی مکمل طور پر آگاہی نہ ہو تو نہ صرف یہ کہ دشمن کو پسپا نہیں کیا جاسکتا بلکہ دشمن کے حملوں سے خود کو بھی محفوظ نہیں رکھا جاسکتا۔ لہٰذا تحقیق کیلئے ہمیں سب سے پہلے انسان "حضرت آدم” کے مسائل کا جائزہ لینا ہوگا۔ روایات اورقرآنی آیات نیز دیگر آسمانی کتب کی رو سے حضرت آدم{ع} کا حقیقی دشمن ابلیس تھا اور ان کے تمام تر مسائل اور پریشانیوںکا باعث بھی ابلیس ہی تھا ۔اب اگر ہم انسانیت کے پہلے دشمن ابلیس کا مقابلہ کرناچاہتے ہیں تو ہمارے لیے ابلیس کی شناخت ،اس کا طریقہ واردات اور اس کے اہداف کا جاننا نہایت ضروری ہے۔
ابلیس کاتعارف قرآن مجیدنے اس طرح سے کرایاہے:ابی واستکبر وکان من الکفرین۔ اس کے طریقہ واردات کے بارے میں قرآن حکیم نے اس طرح فرمایا ”الّذی یوسوس فی صدورِ الناس“ اور اس کے اہداف کے وضاحت یوں کی ”قالَ فَبِعِزَّتِکَ لا غوینّھم اجمعین اِلا عبادک منھم المخلصین“
مندرجہ بالا تینوں نکات کی روشنی میں یہ پتہ چلتا ہے کہ ابلیس مستکبر ہے اُس کا طریقہ واردات وسوسہ ہے اور اس کا ہدف انسانوں کو گمراہ کرنا ہے۔
اگر ہم مستکبر، وسواس اور گمراہی کو سمجھ جائیں توعصر حاضر میں بھی عہد نو کے ابلیسوں کو ڈھونڈنا اوران کامقابلہ کرنا آسان ہوجائے گا
اسلامی علوم و معارف کی روشنی میں ”مستکبر“ کے معنی اپنے آپ کو بڑا سمجھنے اور بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور صرف اور صرف اپنے آپ کو ہی معزز و محترم سمجھنے کے ہیں جبکہ ”وسواس“ سے مراد انسانی قلوب و اذہان میں وہم و شک کی آبیاری کرکے انسانی صلاحیتوں کوماند کرناہے اور”گمراہی“ سے مراد کسی کو راستے سے ہٹا کر منزل سے دور کرنا ہے۔
زمان و مکان اور مدین و مذہب کی قید نہیں، جس بھی زمانے میں، جس بھی جگہ، پر، جس بھی شخص میں یہ تینوں صفات اکٹھی ہوجائیں وہی ابلیسی نمائندہ ہے۔
وقت کے دھارے کے ساتھ ساتھ جیسےجیسے اولاد آدم کا قافلہ گردش کرتا رہا ویسے ویسےاولاد ابلیس کا سلسلہ بھی آگے بڑھتا رہا۔ برتری کاجو دعویٰ ابلیس کاحضرت آدم{ع} کے مقابلے میں تھا وہی قابیل کا ہابیل{ع} کے مقابلے میں تھا، جو نخوت ابلیس میں تھی وہی فرعون و نمرود اورابو لہب و ابو جہل میں تھی ۔جو انانیت ابلیس میں تھی وہی یزید،حجّاج،فہد ،صدام ،ضیاالحق ،مشرف اور قذافی میں بھی دیکھنے میں آئی۔ یہ سلسلہ ہر دور میں چلتا رہا اورہر دور میں قافلہ بشریت کی تاک میں بیٹھےابلیس نہتّے انسانوں پرشب خون مارتے رہے ، استحصال کرتے رہے اور ظلم و بربریت کے ساتھ اپنی طاقت و برتری کا لوہا منواتے رہے اور اسی ابلیسی ظلم و ستم نے بعد ازاں سامراجیّت کے مکتب کو جنم دیا ۔اب آیئے دیکھتے ہیں کہ سامراجیّت کیاہے:
”مستکبرین کے دیگر ریاستوں کے مفتوح کرنے کے عمل کو علم سیاسیات میں سامراجیت کہا جاتا ہے“
مفکر سیاسیات چارلس اے برڈ کے مطابق سامراجیت وہ طریقہ کار ہے جس کے تحت حکومت کی مشینری اور ڈپلومیسی کو دوسری اقوام یا نسلوں کے ماتحت علاقوں پر قبضہکرنے، زیر حمایت رکھنے یا حلقہ اثر میں لانے کیلئے استعمال میں لایا جائے تاکہصنعتی تجارت کی ترقی اور سرمایہ لگانے کے مواقع حاصل ہوسکیں۔
سامراجیّت بطور مکتب:
تاریخ بشریّت میں ابلیسیت باقاعدہ ایک مکتب کی صورت میں سامراج کے نام سے پندرہویں صدی میں منظم ہوئی۔یہ وہ زمانہ تھا جب مشرق وسطی اور ایشیاء کے بارے میں اہل یورپ نہ ہونے کے برابر معلومات رکھتے تھے۔ان کی معلومات کی کہکشاںزیادہ تر مارکوپولو کے سفرنامے کے گرد ہی گردش کرتی رہتی تھی۔پھر جیسے جیسے ان کی معلومات بڑھتی گئیں یہ دوسرے ممالک کو مفتوح کرتے آگے بڑھتے چلے گئے۔ سولہویں و سترہویں صدی میں سائنسی ایجادات اور صنعتی انقلاب نے سامراجی قوتوں میں نئی روح پھونکی اور ہالینڈ، برطانیہ، فرانس، سپین اور پرتگال نے دیگر ریاستوں کو مفتوح کرنے پر کمر کس لی۔یاد رہے کہ صاحبان علم و دانش سامراجیّت کو اس کی عمر کے لحاظ سے دو حصوں سامراجیّت قدیم اورسامراجیّت جدید میں تقسیم کرتے ہیں۔
سامراجیّت قدیم:
پندرہویں صدی سے لے کر انیسویں صدی میلادی تک کے زمانے کو سامراجیّت قدیم کہاجاتاہے۔اس زمانے میں سامراجیّت کا طریقہ واردات کچھ اس طرح تھا
۱۔بغیر کوئی بہانہ ڈھونڈےدوسری ریاستوں پرقبضہ کرلیاجاتا تھا۔
۲۔قبضہ براہ راست کیاجاتاتھا۔
۳۔مفتوحہ ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجادی جاتی تھی،قتل عام کیاجاتاتھا اور بستیوں کو آگ لگا دی جاتی تھی۔
سامراجی طاقتیں جلد ہی اس نتیجے پر پہنچ گئیں کہ یہ طریقہ ان کے لئے زیادہ سود مند نہیں ہے چونکہ اس طرح انہیں مندرجہ زیل دو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہاتھا:
۱۔مفتوحہ ریاستوں میں پائی جانے والی عوامی نفرت انہیں بے چین کئے رکھتی تھی
۲۔کھلم کھلا لشکر کشی خود ان کی اپنی فوج کے تلف ہونے اور بھاری جنگی اخراجات کا باعث بنتی تھی۔
صنعتی انقلاب، نہر سویز کھلنے اور ریلوے کی ترقی کے بعد سامراجی ممالک نے دیگر ممالک کو مفتوحہ بنانے اور مقبوضہ رکھنے کیلئے نئے انداز اور طریقے وضع کئے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
۱۔ ترقی پذیر ممالک کو امداد دےکر من مانی شرائط منوائی جائیں اور ان کے علاقوں کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا جائے۔
۲۔ دنیا بھر میں ایسا تعلیم یافتہ طبقہ تیار کیا جائے جو سامراجی پالیسیوں کا ہمنوا ہو۔
۳۔ غیر ترقی یافتہ علاقوں میں اپنی منڈیاں قائم کی جائیں۔
۴۔ جمہوریت اور آزادی کے نام پر دیگر ممالک میں اپنی فوجیں داخل کرکے وہاں کے وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی سیاسی و معاشی مفادات حاصل کئے جائیں۔
سامراجیت کے چوتھے طریقہ واردات یعنی جمہوریت و آزادی اور خوشحال و ترقی کے نام پر کسی ملک میں فوجیں داخل کرنے کے عمل کو سیاسیات میں استعماریت یا نو آبادیت کہتے ہیں۔ یعنی سامراجیت اصل ہے اور استعماریت اس کی ایک شاخ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں بھی سامراجی طاقتیں جن ممالک کو مفتوح کرتی تھیں اُنہیں ”نو آبادی“ کہا جاتا تھا۔
تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ سامراجی قوتیں کچھ اس طرح کے بہانوں سے دیگر ممالک کو زیر تسلط لاتی تھیں کہ ترقی پذیر ممالک کے لوگ کاروبار حکومت چلانے نیز علمی و فنی پیشرفت کی صلاحیت نہیں رکھتے لہٰذا اُنہیں علوم و فنون سے آراستہ کرنے اور فلاح و بہبود کی شاہراہ پر گامزن کرنے کیلئے اور ان کی سیاسی فکر میں ارتقاءکیلئے ضروری ہے کہ انہیں مغلوب رکھ کر اُن پر کام کیا جائے۔
اس طرح کے لیبل لگا کر مختلف بہانوں سے طاقتور قومیں کمزور اقوام کا استحصال کرتی رہی ہیں بالآخر 1945ءمیں اقوام متحدہ نے اپنے منشور میں یہ شق شامل کی کہ کوئی ریاست کسی دوسری ریاست کو اپنی نو آبادی نہیں بنائے گی لیکن اس کے باوجود سامراجی طاقتوں نے بعد ازاں کئی دوسری ریاستوں کو اپنی نو آبادی بنا یاہے۔ مثلاً ماضی قریب میں روس نے افغانستان کو اپنی نو آبادی بنانے کیلئے حملہ کردیا تھا اور تقریباً افغانستان کو اپنی نو آبادی بنا لیا تھا، بعد میں امریکہ نے افغانستان اور عراق کو غیر اعلانیہ طور پر اپنی نو آبادی بنالیا ہے اِسی طرح اسرائیل نے فلسطین اور لبنان کے بیشتر علاقے کو اور ہندوستان نے کشمیر کے ایک بڑے حصے کو اور روس نے چیکو سلاویہ، ہنگری اور بلغاریہ وغیرہ کو آج بھی اپنی نو آبادی بنا رکھا ہے۔ آج بھی دنیا میں بہت سارے ایسے ممالک موجود ہیں جو بظاہر سامراجی افواج سے خالی ہیں لیکن سامراج اُن پر مالی کمک، منڈیوں اور صنعتوں کے ذریعے قبضہ جمائے ہوئے ہے اور دنیا کے تمام تر سیاسی و معاشی مسائل سامراج کے ناجائز تسلط اور غیر قانونی قبضے کی وجہ سے ہیں۔ سامراجی طاقتوں نے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے مختلف اقوام کو آج بھی دبوچ رکھاہے۔ مثلاً اگر فلسطین کا مسئلہ حل ہوجائے تو سامراج، عربوں کی دولت کو نہیں لوٹ سکتا، اگر عراق و افغانستان کا مسئلہ حل ہوجائے تو مستکبرین اِس خطے کی دیگر ریاستوں کی نگرانی کرنے سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ عراق کے تیل سے بھی محروم ہوجائیں گے، اگر کشمیر سے بھارتی فوجیں نکل جائیں تو کشمیر کے آبی ذخائر، جنگلات اور معدنی ذخائر سے بھارت کو ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مذکورہ علاقوں میں سامراجی عناصر اپنے مفادات کےحصول کیلئے انسانی خون کو پانی کی طرح بہا رہے ہیں۔ سامراجی طاقتوں نے اپنے سیاسی و معاشی مفادات کی خاطر دنیا کو بدامنی اور عدم استحکام کی آگ میں جھونکا ہوا ہے۔ اگر دنیا میں امنیت بحال ہوجائے تو سامراجیوں کا جنگی ساز و سامان اور اسلحہ کسسیارے پر فروخت ہوگا چنانچہ سامراجی طاقتیں پوری دنیا میں ایک دوسرے کی مدد اور حمایت اپنے مفادات حاصل کررہی ہیں۔ مثلا امریکہ اسرائیل کا حامی ہے ،اسرائیل بھارت کا،بھارت روس کا اور ۔۔۔یہ سلسلہ اسی طرح آگے بڑھتا چلاجارہاہے۔یہاں تک کہ سامراجی طاقتوں نے اپنے معاشی مفادات کیلئے ایڈز، ہیپاٹائٹس اور امریکی سونڈی کے وائرس تک دنیا میں عام کئے تاکہ اُن کی دوائیاں اور انجکشن بڑے پیمانے پر فروخت ہوں۔ اس کے بعد آئیےسامراجِ جدید کابھی ایک جائزہ لیتے ہیں:
سامراج ِ جدید:
سامراج جدید کاآغاز بیسویں صدی میں ہوا اور یہ اصطلاح پہلی مرتبہ ۱۹۵۵ میں افریقی و ایشیائی ممالک کی ایک کانفرنس میں انڈونیشیا کے صدر "احمد سوکارنو "نے استعمال کی۔ جدیدسامراج کا طریقہ واردات ملاحظہ فرمائیں:
جدید سامراج کاطریقہ واردات:
۱۔قبضہ غیرمحسوس ہو۔میڈیا کے ذریعے لوگوں کو مختلف ایشوز میں الجھاکر غیر محسوس انداز میں پہلے نفوز کیا جائے پھر مستقل طور پر نظام کو زپنے زیر اثر لایاجائے۔
۲۔کسی بھی ملک کے مقامی افراد کو اپنے افکار کے مطابق تعلیم و تربیت دے کر فکری طور پر اپنا غلام بنایاجائے اور پھر انہی کے ذریعے حکومت کی جائے۔جیساکہ آج پاکستان میں ہورہاہے۔پاکستان کے حکمران سامراجی نظام تعلیم کے لکھے پڑھے ہیں لہذا وہ امریکہ و یورپ کی محبت کا سرعام دم بھی بھرتے ہیں اور ان کے مفادات کی خاطر سب کچھ کرتے بھی ہیں۔اس کے بعد جدید ترین سامراج کے طریقہ واردات پر بھی ایک نگاہ ڈالتے ہیں:
جدید ترین سامراج اور اس کا طریقہ واردات:
یاد رہے کہ جدید ترین سامراج نے ۲۰۰۱ء میں "امریکہ اور اس کے اتحادیوں یعنی "ناٹو” کے شکم سے جنم لیا۔یہ اپنے سابقہ مذکورہ ہتھکنڈوں سے بھی لیس ہے اور اس کے علاوہ مندرجہ ذیل پالیسیوں پربھی پابندی سے عمل پیراہے:
۱۔کسی بھی ملک پرباہر سے خود حملہ آور ہونا اورداخلی طور پر اس ملک میں مخصوص شدّت پسند ٹولے تشکیل دے کر ممالک کو عدم استحکام اور عوام کو عدم تحفظ میں مبتلاکرنا۔جیسے افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے ذریعے کیاگیا۔
۲۔دیگر ممالک میں کرپٹ سیاستدانوں،نام نہادمفکرین ،بزدل حکمرانوں ،ڈکٹیٹر سلاطانوں اور ناسمجھ خطبا و علماء کے ذریعے پہلے داخلی سامراج تشکیل دینا۔پھر اس سامراج کی سرکوبی کے بہانے محدود جنگوں کا آغاز کرکے چھوٹے اور کمزور ممالک کی طرف جنگوں کو دھکیلنا اور انہیں کو دبا کر اپنے مطالبات منوانا۔جیساکہ طالبان کے ذریعے پہلے افغانستان میں داخلی سامراج کو تشکیل دیا گیا پھر اس کی سرکوبی کے بہانے پاکستان کو ناکوں چنے چبوائے گئے اور ابھی بھی پاکستان پر امریکہ اور ناٹو کا فوجی دباو اور ڈرون حملے جاری ہیں۔اس کے علاوہ۴فروری ۲۰۱۱ کو تہران یونیورسٹی میں نماز جمعہ کے اجتماع سے ایران کےاسلامی انقلاب کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای نے خطاب کیا اور نماز جمعہ پڑھائی۔ انہوں نے نماز جمعہ کے دوسرے خطبے میں عالم اسلام میں بیداری کی لہر پر روشنی ڈالتے ہوئے سامرجی طاقتوں کے عزائم سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ امریکی و یورپی تھنک ٹینکس اپنےسامراجی مفادات کے حصول کے لئے مندرجہ ذیل نو اہداف پر گزشتہ کئی سالوں سے سرگرم عمل ہیں۔
۱۔اسلامی ریاستوں کو ضعیف اور کمزاور رکھنا چاہتے ہیں۔
۲۔وہ چاہتے ہیں کہ اسلامی ریاستیں آپس میں متحد نہ ہوں اور ایک دوسرے سے دشمنی کریں۔
۳۔وہ چاہتے ہیں کہ مشرق وسطی کی اسلامی ریاستیں مکمل طور پر یورپ کی مطیع ہوں۔
۴۔اقتصادی لحاظ سے ان ریاستوں کو کمزور رکھنے کے لئے ان کی پالیسی یہ ہے کہ یہ ریاستیں پٹرول بیچ کر جو پیسہ کمائیں اسے دوباربرآمدات پر خر چ کردیں۔
۵۔علمی طور پر مسلمان پسماندہ رہیں۔
۶۔تہذیب و ثقافت میں مغرب کی اندھی تقلید کریں۔
۷۔عسکری لحاظ سے کمزور رہیں۔
۸۔اخلاقی لحاظ سے فاسد ہوں۔
۹۔دنیامیں برائے نام مسلمان ہوں۔
آج پوری دنیا میں جہاںسامراجی طاقتیں لوٹ مار اور دھونس دھاندلی میں مصروف ہیں وہیں پر کمزور اقوام بھی سامراجیّت کے چنگل سے نکلنے کیلئے ہاتھ پائوں مار رہی ہیں۔ سابقہ تجربات کی روشنی میں سامراج نے مستضعفین یعنی کمزور اقوام کے بیچ میں اپنے پٹھو رہنما اور وظیفہ خور دھڑے قائم کر رکھے ہیں جو مختلف عنوانات کے ساتھ مختلف علاقوں میں سامراجی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ مثلاً عصر حاضر میں عراق کے صدام، افغانستان کے طالبان اور لیبیا کے قذافی نے سامراجی عزائم کی تکمیل کیلئے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ صدام نے پہلے ایران پر حملہ کرکے امریکی سامراجی حوصلوں کو بلند کیا اور استعماری طاقتوں سے اسلحہ خرید خرید کر ایران کے نہتے عوام پر استعمال کیا، جب یہ جنگ ختم ہوگئی تو صدام نے کویت پر چڑھائی کرکےسامراجی فوج کو براہِ راست اس خطے میں داخل ہونے کا جواز فراہم کیا۔ اِسی طرح طالبان نے افغانیوں کا قتل عام کرکے نیٹو فورسز کے لئے افغانستان میں راستہ ہموار کیا اور قذافی نے موسی صدر کو اغوا کروا کے دم توڑتے ہوئے اسرائیل کو حیاتِ نو بخشی ۔ ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ عصر حاضر میں جس طرح سامراج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے اسی طرح سامراج کے جاسوس حکمرانوں اور وظیفہ خور ٹولوں سے بھی ہوشیار رہنے کی بھی اشدضرورت ہے۔
ہمارے سامنے جس طرح قذافی،طالبان اور صدام کی صورت میں سامراج کے جا سوسوں کی مثالیں موجود ہیں اُسی طرح مستکبرین کو شکست دینے کے حوالے سے حزب اللہ لبنان اور انقلاب اسلامی ایران کی مثالیں بھی موجود ہیں کہ جنہوں نے ہر قسم کی انانیت اور خود خواہی سے بلند ہو کر دیگر تمام گروہوں اور پارٹیوں سے محبت و اخوت اور باہمی افہام و تفہیم اور اجتماعی ادب و احترام کا مظاہرہ کرکے مختصر سی مدت میں استعماری اثر و رسوخ کو اپنی صفوں سے ختم کردیا ہے۔ سامراج کے خلاف جتنی بڑیکامیابی عصر حاضر میں حزب اللہ لبنان کے قیام اور انقلاب اسلامی ایران کی صورت میں وقوع پذیر ہوئی ہے اِس طرح کی کامیابی پہلے کبھی تاریخ میں دیکھنے میں نہیں آتی۔ حزب اللہ لبنان کی پے در پے کامیابیوں اور انقلاب اسلامی ایران کی مسلسل فکری و علمی فتوحات کے باعث آج کا سامراج ماضی کی نسبت بہت کمزور ہوچکا ہے۔اطراف عالم میں اقوام عالم تیزی اور سرعت کے ساتھ خواب غفلت سے بیدار ہورہی ہیں خصوصاً امت مسلمہ میں اس بیدری کی رفتار کی سرعت بہت زیادہ ہے۔ایسے میں ہم لوگ بھی اگر حزب اللہ لبنان اور ایران کے اسلامی انقلاب کے رہنماوں کی طرح ایک ٹھوس اور ہمہ جہتی حکمت عملی اپنالیں تو دم توڑتے ہوئے سامراج کو بہت جلد زمیں بوس کیاجاسکتاہے۔ تباہی کے دہانے پر کھڑے سامراج کو آخری دھکادینے کے لئے یوں تو کئی طرح سے کام کیا جاسکتاہے اور متعدد پالیسیاں مرتب کی جاسکتی ہیں جن میں سے ایک ممکنہ حکمت عملی ہم بھی بیان کرنے جارہے ہیں لیکن اس سے پہلے ایک مشورہ بھی پیش خدمت ہے:
سامراج کے خلاف منصوبہ بندی کرنے سے پہلے ایک مشورہ پیش خدمت ہے: سب سے پہلے ہمیں سامراج کی مکمل منصوبہ بندی پر عبور حاصل کرناچاہیے ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ سامراج نے ہر شعبہ زندگی کے حوالے سے الگ ریسرچ سنٹرز اور تھنک ٹینکس تشکیل دے رکھے ہیں جو دن رات اپنی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہیں۔مثلاً سامراج نے میڈیا،تجارت،نظام تعلیم وتربیّت،تہذیب و تمدّن و ثقافت،آرمی،خفیہ ایجنسیز،این جی اوز،منبر و محراب اور سیاست سمیت ہر میدان کے لئے الگ سےتھنک ٹینکس قائم کررکھے ہیں چونکہ میڈیاکامیدان تجارت و اقتصاد سے مختلف ہے،تجارت و اقتصاد کا میدان آرمی سے مختلف ہے،آرمی کی دنیاخفیہ ایجنسیوں سے مختلف ہے لہذا ہمیں بھی سامراج کے مقابلے کے لئے اسی شعبے کے ماہرین کے تجربات کی خدمات درکار ہیں۔لہذا ہر شعبے سے متعلقہ ماہرین پر ہی تھنک ٹینکس تشکیل پانے چاہیے جو اپنی متعلقہ دنیا سے سامراج کے خاتمے کے لئے منصوبہ بندی کریں۔ سامراج کا مقابلہ کرنے کے لیے بے شمار تجاویز سوچی جاسکتی ہیں، کئی طرح کی پالیسیاں مرتب کی جاسکتی ہیں اور ہزاروں طرح کے منصوبے وضع کئے جاسکتے ہیں لیکن ایک موئثر ، مضبوط اور ٹھوس حکمت عملی وضع کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے دلوں پر سامراج کا خوف اور ہماری فکروں پرسامراج کے پہرے نہ ہوں ۔ ہمیں سید حسن نصر اللہ کی طرح سامراج کے بارے میں یہ یقین ہونا چاہیے کہ سامراج کی حقیت مکڑی کے جالے سےزیادہ نہیں ہے۔اب آئیے عالمی سامراج کو تباہ کرنے کے لئے ایک ممکنہ حکمت عملی ملاحظہ فرمائیے:
عالمی سامراج کو تباہ کرنے کے لئے ایک ممکنہ حکمت عملی:
۱۔ سامراج کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے مرحلے میں مذہبی سکالرز، دانشوروں، سیاسی رہنماوں ، قومی مفکرین اور مختلف علوم کے ماہرین پر مشتمل تھنک ٹینکس تشکیل دیئے جائیں جو سامراجیت کے تمام پہلووں کا جائزہ لیکر اقوامِ عالم کو عصر حاضر کے سامراج کی سازشوں سے آگاہ بھی کریں اور ان سازشوں کا توڑ بھی بتائیں۔
۲۔ سامراج شناسی:
سامراج کے چنگل سے نجات کیلئے ضروری ہے کہ عوام کو سامراج کی صحیح شناخت کے ساتھ ساتھ سامراج کے جاسوس ٹولوں،تنظیموں اور پارٹیوں نیز وظیفہ خور سیاستدانوں سے آگاہ کیا جائے تاکہ لوگ صدام اور طالبان کی طرح کے سامراجی پٹھووں کی چالوں میں نہ آئیں اور تمام تر تعصبات اور فرقوں سے بالاتر ہوکر اتحاد و اخوّت کے ساتھ اپنی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کریں۔
۳۔ تہذیب و تمدن کا تحفظ:
مستکبرین کے سیاسی و ملی شعورت کی ناپختگی سے فائدہ اُٹھا کر لوگوں کو مختلف دھڑوں میں تقسیم کرکے اُن پر اپنی تہذب اور تمدن کو نافذکرتے ہیں۔ اس صورت حال سے نجات کیلئے ضروری ہے کہ کسی بھی طور لوگوں کا رابطہ اپنی تہذیب و تمدن سے نہیں کٹنے دینا چاہیے اور انہیں سامراج کی تہذیبی و ثقافتی یلغار سے مکمل طور پر آگاہ رکھنے کے لئےسامراج کی بنائی ہوئی فلموں اور ڈراموں میں بھرے ہوئے ذہر اور ضررسے لوگوں کو فوری طور پر آگاہ کرنا چاہیے۔
۴۔ بین الاقوامی سطح پرسامراج کے خلاف مزاحمت:
ضروری ہے کہ سامراجیت شناس لوگ دیگر اقوام سے اپنے روابط قائم اور مضبوط کریں اور دیگر ممالک کے میڈیا کے ذریعہ دیگر اقوام کو عالمی سامراج کی حقیقت سے آگاہ کریں نیز حریت پسنداقوام کو یہ دعوت دی جائے کہ وہ ڈپلومیسی اور خارجہ پالیسی کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر سامراجی سازشوں کے خلاف مزاحمت کریں۔
۵۔ رائے عامہ:
ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبارات اور مجلات میں ہر سطح کے لوگوں کے ذہنی معیارات کے مطابق سامراجیت کے متعلق پروگرام نشر کئے جائیں اور مقالات چھاپے جائیں۔ نیز سامراجیت کے موضوع پر جا بجا تحقیقی کانفرنسیں منعقد کرکے اُنہیں میڈیا میں بھرپور کوریج دی جائے۔اس طرح عوام کو اندھی تقلید کرنے کے بجائے سوچنے،تنقید و تبصرہ کرنے ،اپنی رائے بیان کرنےاور سامراج کے خلاف زبان کھولنےکا عادی بنایاجائے۔
۶۔ تعلیمی ادارے اور نظام تعلیم:
دینی مدارس، سکولز، کالجز الغرض ہر سطح کے طالب علموں کے سامنے نہ صرف یہ کہ سامراجیت کو موضوع بحث بنایا جائے بلکہ سامراجیت کی تاریخ کو تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے تاکہ آئندہ نسلیں بھی استعماریت کی سازشوں سے باخبر رہیں۔
۷۔ پبلک پلیٹ فارم، سیاسی و مذہبی اجتماعات:
مختلف فرہنگی و ثقافتی تقاریب کا انعقاد کیا جائے جن میں مختلف فنون کے ذریعہ سامراج کے مظالم سے پردہ اُٹھایا جائے، سیاسی و مذہبی اجتماعات میں استعمار کی تازہ ترین سازشوں سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے، ہینڈ بلز اور پمفلٹس نیز چھوٹے چھوٹے کتابچوں کی صورت میں محلوں اور قصبوں کی سطح تک سامراج سے متعلق ضروری مواد اور شعور و آگاہی پہنچائی جائے۔
۸۔ اقتصادی و صنعتی مسائل:
استعمار کے اقتصادی و صنعتی ڈھانچوں کی درست رپورٹس اکٹھی کرکے ماہرین اقتصادیات کو فراہم کی جائیں اور ان سے گزارش کی جائے کہ وہ سامراج کے چنگل سے نکلنے کیلئے مستضعف اقوام کے لئے ٹھوس اقتصادی و صنعتی لائحہ عمل تیار کریں۔
۹۔ کمزور اقوام کی حوصلہ افزائی:
کمزور اقوام کی مختلف امور میں حوصلہ افزائی کی جائے اور انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ اُن کا اور ان کی آئندہ نسلوں کا مستقبل ان کے اپنے ہاتھ میں ہے نیز یہ کہ محنت ، جدوجہد ، مستقل مزاجی اور باہمی اتحاد کے ساتھ استکبار کے غرور کو خاک میں ملایا جا سکتا ہے۔
۱۰۔ہر پلیٹ فارم پراپنی تہذیب و ثقافت،تمدن اورقومی زبان کی حفاظت کی جائے۔سامراج کے غلیظ لٹریچر کے بجائے اپنی ملت کو اپنے اسلاف کےا فکار سے آشنا کیا جائے۔
۱۱۔باشعور طبقہ استعمار شناسی اوراستعمار سے نجات کواپنا ہم و غم بنائے۔
۱۲۔ استعمار سے نجات کے لئے دو طرح کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ایک داخلی طورپرمنصوبہ بندی کی جائے جس کے ذریعے اپنی ملت کو فعال کیا جائے اور دوسرےبیرونی اور بین الاقوامی سطح پرمنصوبہ بندی جس کے ذریعے عالمی پلیٹ فارمز پر سامراج کو تنہا اور رسوا کیا جائے۔
[email protected]

Leave a Reply

Back to top button