کالم

پاک چین دوستی کے 60درخشاں سال

یوں تو تاریخ میں افراد اور اقوام کے مابین دوستی اور محبت کی داستانو ں کے ساتھ ساتھ جنگ و جدال اور نفرتوں کی بیشما ر مثالیں ملتی ہیں ۔ جن میں قدیم ایران اور یونانیوں کے مابین جنگ، فراعنہ اور بنی اسرائیل کے مابین جنگیں اور نفرتیں، رومیوں اور مصریوں کے مابین جنگ، ازمنہ ووسطی کی صلیبی جنگیں ، منگولوں کی مشرق اور مغرب کےجانب یلغار اور قتل و غارت گری کے علاوہ ماضی قریب میں جنگ عظیم اولّ اور عا لمی جنگ عظیم دوم ّ انتہا ئی دور رس نتائج کے حامل رہی ہیں ۔البتہ تاریخ ِعالم کے مطالعہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اکثر ان مملکتوں اور حکومتوں کو ہی پائیداری نصیب ہوئی جنہوں نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ اور اچھے برے دنوں میں ایک دوسرے کی مدد اور معاونت کرتے رہے۔البتہ ان طاقتور حکمرانوں اور شہنشاہوں پر زوال آیا۔ جنہو ں نے طاقت کے نشے میں اپنے چھوٹے ہمسایوں پر بزور شمشیر قبضہ جمانے کی کو شش کی ، ناجائز ٹیکس لگا ئے۔ اور اپنی رعایا کو کمزور کر کے بعد میں انہی کے ہاتھوں سازشوں اور غضب کا شکا ر ہوئے۔ ہندوستان میں مغل شہنشاہوں اور بر طانیہ کی عظیم شہنشاہیت بھی بر صغیر میں اپنے ہی رعایا کی غیظ و غضب کا شکار ہوئے۔ اور بالآخر شکست سے دوچار ہوئے ۔
ہماری مملکتوں کو تاریخ کے تلخ حقائق سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
تاریخ کے مطالعہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ چین اور برصغیر ہندو وپاک قدیم تہذیب ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی زرخیز زمین اور دوستانہ آب و ہو ا کے حامل مما لک رہے ہیں۔ اس لئے بیرونی طاقتوں نے مقامی سازشی عناصرکے ساتھ ملکر ان خطوں پر قبضہ جمانے کی کوششیں کی ہیں ۔ البتہ چین ماوزے تنگ کی سربراہی میں 1949ءکی عوامی انقلاب کے بعد اکےسویں صدی کے اہم اقتصادی و عسکری طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔
جبکہ پاکستان ابھی تک سامراجی قوّتوں اور مفاد پرست سیاستدانوں کی ریشہ دوانیوں کے سبب آج بھی کئی خطرات سے دوچار ہے۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستانی سیاستدان اب بھی ہوش کی نا خن لیں ۔ اورچینی قوم کی خود انحصاری ، محنت اور مثالی دوستانہ رویے سے سبق سیکھتے ہوئے ملک کے اندرونی حالات پر توجہ دیں۔ بالخصوص مہنگائی ، افراط ِ زر اور بے روزگاری پر قابو پنانے کی کوشش کریں ۔ اقتصادی خودکفالت کے بغیر تعلیمی ، صحتی ، سماجی بہبود اور دفا عی کوششیں سب کے سب لاحاصل یعنی صدا بہ صحرا ثابت ہونگی
۔
مولا نا حالی کے یہ اشعار ہمارے عظیم ہمسایہ ملک چین پر صحیح معنوں میں صادق آتے ہیں۔
کا ٹیے دن زندگی کے ان چٹانوں کی طرح
جو سدا رہتے ہیں چوکس پاسبانوں کی طرح
سعی سے اکتاتے اور محنت سے کنیاتے نہیں
جھیلتے ہیں سختیوں کو سخت جانوں کےطرح
آس کھیتی کے پنپنے کی انہیں ہو یا نہ ہو
ہیں اسے پانی دیے جاتے کسانو ں کیطرح
کام سے کام اپنے ان کو گو ہو عالم نکتہ چین
رہتے ہیں بتیس دانتوں میں زبانوں کی طرح
ان دنوں پاکستان اور چین اپنی دوستی اور سفارتی تعلقات کی ساٹھویں سالگرہ منا رہے ہیں ۔ اور پاکستا ن کےوزیر اعظم جناب سےدّ یو سف رضا گیلانی اپنے وزیروں ، مشیروں اور سماجی و اقتصادی ماہرین کے ہمراہ چین کے دورے پر ہیں۔ اس اہم اور تاریخی موقع پر دونو ں برادر ہمسایہ ممالک نے نہ صرف اپنے روائتی دوستی کی تجدید کی بلکہ نئے عزم جزبے اور ولولے کے ساتھ آگے بڑھنے کے خواہش کا اظہارکیا ہے۔
پاک چین دوستی جدید دنیا میں ایک ضرب المثل بن چکی ہے۔ اور یہ تعلقات نہ صرف حکومتوں تک محدود ہے بلکہ تناور درخت کی مانند ہو چکی ہے۔ جو اقتصادی، سائنسی ، تعلیمی اور عسکری تعاون پر محیط ہے۔ اور دونوں ممالک اس دوستی اور تعلقات کو قدر کی نگا ہ سے دیکھتی ہیں ۔ جنکے مثبت ثمرات سے دونوں ممالک کے عوام یکساں طور مستفید ہو رہے ہیں جن میں قراقرم ہائی وے (KKH) ، گوادر پورٹ کی تعمیر ، سینڈک پروجیکٹ اور پاکستان میں توانائی کے مسئلے سے نمٹنے کےلئے چین کی مالی و فنیّ امداد قا بل ذکر ہے۔ البتہ عسکری شعبے میں چین کے ماہرین اور حکومت کا تعاون وسیع شعبوں پر محیط ہے ۔ جنکا احاطہ اور تذکرہ اس مختصر سے مقالہ میں ممکن نہیں ۔
گلگت و بلتستان چین سے ملحقہ علاقہ جات ہیں ۔ اور ہنزہ کے عوام اور بلتستان کے عوام کے چین کے ساتھ تاریخی ، سیاسی و اقتصادی روابط رہے ہے۔ جنہیں بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ KKHکی مرمت اور تعمیر ِنو بالخصوص گلگت تا سوست ڈرائی پورٹ کو 4جنوری 2010 ءکے سانحہءعطاآباد سے جو دھچکا لگا ہے۔ اور جسکے نتیجے میں ابھی تک KKHدوطرفہ تجارت کےلئے بند ہو چکا ہے۔ نیز ایک مصنوعی جھیل کے وجود میں آنے کے سبب نہ صرف تےس (30) کلو میٹر کے قریب شاہراہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ بلکہ اسکے نتیجے میں ایک گاؤں مکمل طور پر اور دو گاؤں ششکٹ اور گلمت جزوی طور پر جھیل میں ڈوب گئے ہیں۔ اور تحصیل گوجال کے 25,000 نفوس پاکستان کے دوسرے حصوں سے مکمل طور پر کٹ چکے ہیں۔ KKH پاک چین دوستی اور تجارت کےلئے ہمیشہ سے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اسے آٹھویں عجوبہءعالم قرار دیا گیا ہے۔ اسکی تباہ شدہ پلوں اور شاہراہ کی فوری تعمیر پر توجہ مبذول کی جانی چاہیئے تاکہ دونوں ممالک کے مابین زمینی رابطہ بر قرار رہنے کے ساتھ ساتھ اربوں روپوں کی تجارت بحال رہ سکے ۔ اور ہزاروں افراد کے روزگار کےلئے موافق ذرائع اور وسائل پیدا کئے جا سکیں ۔ ۔انشا اللہ
پاک چین دوستی زندہ باد
تحریر: احمد جامی سخی ،
ایم۔اے۔ سوشیالوجی
صدر قراقرم لسنرز کلب، گلگت ۔

Back to top button