کالم

یہ تیرے بیٹے یہ تیرے جانباز۔۔۔

نذر حافی
یہ تو ہم جانتے ہی تھے کہ اس مقدس سرزمین میں کئی انبیاء و صالحین اورشہداء سے منسوب مقامات و زیارات کے علاوہ بے شمار تاریخی و ثقافتی مراکز،عمارتیں،باغات اور مقبرے موجودہیں لیکن ہم اس احساس سے بالکل غافل تھے کہ جب ہم اس سرزمین پر نجس امریکی فوجیوں کو دندناتاہوا دیکھیں گے تو ہمارے دل پر کیا گزرے گی!ہمیں یہ معلوم نہ تھا کہ جب ہم اس پاک دھرتی پر قدم رکھیں گئے تو شہرکے درودیوار زبان ِ حال سے پکاررہے ہونگے کہ تم کس منہ سے آئے ہو۔۔۔جانتے ہوکتنے عرصے تک اسی ملک میں بیواوں کے بین گونجتے رہے،یتیم بچے گرم پہروں میں پیاس سے بلکتے رہے،اسلامی سرزمین طاغوت کے محاصرے میں رہی،گولیوں اور گولوں کی گرج سے درودیوار لرزتے رہے،گلی کوچوں میں موت رقص کرتی رہی،یہ ملک مسلسل اجڑتارہالیکن تم اپنے اپنے گھروں میں آباد رہے۔ہمیں یہ خبر نہ تھی کہ جب ہم اس ارضِ مقدس پر سجدہ شکر بجالائیں گے تو یہ سرزمین یخ اٹھے گی اورریگِ شہر کو فضاء میں اڑاتی ہوئی ہوائیں گریہ کر کے کہیں گی کہ تم کیسے مسلمان ہو! ارے کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اسی شہرمیں بے کس و بے نوا مسلمانوں پر کیا کیا مظالم ڈھائے گئےاور تم اپنی عیش و عشرت کی زندگی گزارتے رہے،ہمیں کیا پتہ تھا کہ جب ہم شہیدوں کے کسی تاریخی قبرستان میں داخل ہوں گے تو قبرستان میں بھٹکتی ہوئی اداسی ہم سے گلے لگ کر کہے گی کہ ان قبرستانوں کو آباد کرنے میں تم بھی تو برابر کے شریک ہو،جب استعماری ایجنٹ تمہارے مسلمان بھائیوں کی کھال کھینچتے رہے تو تم خوابِ غفلت میں مست تھے،ہم نے یہ سوچا بھی نہ تھاکہ جب ہم کسی شہید کے مزار پر جائیں گے توشہید کا سنگِ لحد ہم سے پوچھے گا کہ جانتے ہو میں بھی اسی رسول [ص] کا امتی ہوں جس نے ہم سب مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی قرار دیاتھا۔تم میرے کیسے بھائی ہو میں اسلام کی آبرو کی خاطر اپنی عزت ،ناموس اور جان تک قربان کر بیٹھا لیکن تم نے کبھی میرے لئے فاتحہ تک نہیں پڑھی۔
شاید ہم دل ہی دل میں یہ کہہ دیتے کہ اے مقدّس سرزمین ہم نے تیرے تحفظ کے لئے کالم لکھے،مجلے چھاپے،پمفلٹ تقسیم کئے،نعرے لگائے،سیمینار منعقد کئے،تقریریں کیں اور جلوس نکالے لیکن ہمارا ضمیرہمیں بولنے نہیں دیتا تھا۔۔۔ ہمیں مسلسل ضمیر کی سرگوشی محسوس ہورہی تھی کہ بتائوتم کیسے مسلمان ہو امریکی ٹینک تمہاری لاشوں پر سے کیوں نہیں گزرئے ۔۔۔اور۔۔۔ فضائوں میں تمہارے بدن کے ٹکڑے کیوں نہیں بکھرے ۔۔۔ اپنے ضمیر کے ان سارے سوالوں کا میرے پاس صرف یہی جواب تھا کہ اے مقدس سر زمین!ہم شرمندہ ہیں،ہم تیری مدد کو نہیں پہنچ سکے،ہم کیا کریں،ہماری بھی کچھ مجبوریاں ہیں،ہم پہلے ہی اپنے وطن پاکستان کے دوٹکڑے کرچکے ہیں، ہم پہلے ہی کشمیر کی تحریک آزدی کو بیچ کر کھاچکے ہیں،ہم پہلے ہی فلسطین کو کچھ ڈالروں کے عوض بھول چکے ہیں،ہم پہلے ہی افغانیوں کے خون کو سعودی تیل میں ملاکر پی چکے ہیں۔ کیا کریں۔۔۔ہم بھی کیا کریں، آخر ہمارے ساتھ بھی پیٹ لگاہے،ہمارے بچوں کو بھی خوش رہنے کے لئے گاڑی کوٹھی اور مکان کی ضرورت ہے،ہم ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر گرماگرم پریس کانفرنسیں توکرسکتے ہیں ،ہم میڈیا کے سامنے مگرمچھ کے آنسو تو بہاسکتے ہیں،ہم ایک دن سخت گرمی یا سردی میں گلا پھاڑ پھاڑ کے مردہ باد امریکہ کے نعرے تولگاسکتے ہیں لیکن ہم کیا کریں ،ہمیں بھی تو روزگار چاہیے،ہمیں بھی تو یورپ اور امریکہ میں ملازمت درکار ہے۔۔۔میں نے سر گھماکر ادھر ادھر دیکھا تو سارے ہمسفروں کی آنکھیں بھیگی ہوئی نظر آئیں ۔۔۔اس وقت میں نے اپنے ضمیر کے کانوں سے اپنے دوستوں کی سسکیاں سنیں ،شاید سبھی یہی کچھ کہہ رہے تھے کہ اے سر زمین عراق تو ہمارے حق میں دعا کر۔۔۔ہم تیرے بیٹے تیرے جانباز بیمار ہوچکے ہیں،ہمیں بونی اور کھوکھلی شخصیات کی پرستش کی لت پڑچکی ہے،ہم تنظیمی بتوں کے خول سے نکلنے کے لئے تیار نہیں ہیں،ہمیں دوسروں پر تنقید کرنے اور دوسروں کو بیدار کرنے کا تو جنون ہے لیکن اپنے آپ کو اصلاً قابلِ اصلاح نہیں سمجھتے،ہم اپنے نام و نمود کی خاطرٹرسٹ پر ٹرسٹ اورتنظیموں پر تنظیمیں بناتے چلے جارہے ہیں لیکن خدا اور دین کی خاطر کسی دوسری تنظیم یا شخصیت کو برداشت کرنے پر راضی نہیں ہیں۔ہمارے بلندوبالانعرے صرف دوسروں کو سنانے کے لئے ہیں،قوم کے درد میں نکلنے والی ہماری آہیں صرف اورصرف ہمارا اپنا پیٹ بھرنے اورچندہ اکٹھاکرنے کے لئے ہیں۔اے سرزمین عراق!تجھے اپنے سینے میں سوئے ہوئےمقدس شہیدوں کے لہوکا واسطہ ہمارے حق میں دعا کر ۔۔۔دعاکر۔۔۔کہ خدا ہمیں بزدل جرنیلوں،مکار سیاستدانوں اوربکے ہوئے مولویوں سے نجات عطاکرئے۔خدا ہمیں اس قابل بنادے کہ ہماراوطن اسلام کا قلعہ اورہماری ملت اخوّت و وحدت کی پیکر بن جائے، ہمارا دماغ تعمیر بشریت کے کام آسکے اور ہمارا خون دنیاکے ہر مظلوم کے کام آئے۔
اے انبیاء کی سر زمین۔۔۔اے شہدا کی سرزمین۔۔۔دعاکر دعاکر۔۔۔یہ تیرے بیٹے یہ تیرے جانباز۔۔۔
[email protected]

Leave a Reply

Back to top button