کالم

واپڈا پھر ڈوب رہاہے

ڈاکٹر مرتضیٰ مغل
اسے ڈوبنا ہے‘آج نہیں تو کل۔یہ ٹائیٹنک بچتا دکھائی نہیں دیتا۔ بے ساکھیوں کے سہارے اس کے خسارے پورے نہیں ہوتے۔ ہم اس سے پندرہ بیس برس قبل ہی نجات حاصل کرچکے ہوتے اگر میاں شہبازشریف اسے فوج کا مصنوعی سہارا مہیا نہ کرتے۔ کرپشن کی دیمک نے بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے اس پورے نظام کو اندر سے کھوکھلا کردیا ہے۔ بجلی کے ہر کھمبے کے ساتھ مالی بدعنوانی کا ایک میٹر لگا دیا گیا ہے۔ میٹر ریڈر سے لیکر چیئرمین تک اور چیئرمین سے لیکربرق و آب کے وزیر تک ہر کوئی دیہاڑی لگانے‘منتھلی وصولنے اور ”کک بیک“ کھوجنے میں جتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی تنقید‘عوام کی پکار ن لیگ کے دھرنے سب کار لاحاصل ہیں۔اس سفید ہاتھی کی سونڈ پر جوں تک نہیں رینگتی۔لوڈشیڈنگ میں عارضی وقفے بحران ختم نہیں کرپائے۔
توانائی کے تمام غیر جانبدار سروے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان کے اندر بجلی کا کوئی بحران ہی نہیں ہے۔اس کو چھوڑیے کہ تھرمل بجلی گھروں کو فرنس آئل فراہم کرنے کے لئے پی ایس او کو رقوم فراہم کی جارہی ہیں یا نہیں‘اصل معاملہ یہ ہے کہ پاکستان کے نوے فیصد صارفین ہائیڈل پاور کے ذریعے بننے والی بجلی استعمال کرتے ہیں۔ڈیم بھرے ہیں‘بجلی موجود ہے لیکن علانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے نام پر بجلی کی طویل بندش پھر بھی جاری رہتی ہے اور طوالت بڑھتی ہی جارہی ہے۔بجلی جاتی کہاں ہے؟ خود واپڈا والے مانتے ہیں کہ بجلی کا تیس فیصد لائن لاسز میں غائب ہوجاتا ہے۔لائنوں کے باعث جو لاس (loss)ہورہا ہے اس کا بل بڑی مہارت کے ساتھ صارفین کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔بیس فیصد بجلی چوری کر لی جاتی ہے۔چوری روکنے کیلئے حکومتی سطح پر کچھ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کام کی اس حکومت میں سکت ہی نہیں ہے۔واپڈا یہ کارنامہ سرانجام دینے کی ضرورت محسوس ہی نہیں کرتا۔بجلی چوروں کو پکڑنے کی بجائے بل ادا کرنے والے مجبور عوام کو ٹی وی اشتہاروں کے ذریعے نصیحتیں کی جارہی ہیں۔تف ہے ایسی تدبیر پر۔قوم کو بے وقوف بنانے والے نت نئے فارمولے گھڑے جارہے ہیں۔انسان دشمن دماغوں نے ریاکاری کی فیکٹریاں کھول رکھی ہیں۔پوری قوم کو بجلی چور سمجھ کر بجلی چوری سے باز رہنے کی تبلیغ کی جاتی ہے۔بڑے بڑے اینکر پرسن ”خدمت خلق“ کے اس اشتہار میں چہرہ دکھانے اور نصیحت فرمانے کے پیسے وصول کرچکے ہیں۔وہ طے شدہ سچ بولنے کے عادی ہیں ۔ واپڈا کو سچ کہنے یا سمجھانے کی بجائے ان کی دھوکہ دہی کی میڈیا مہمات میں حصہ دار بن گئے ہیں۔ ریاست کا ظلم کب ختم ہوگا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔کم از کم عمران خان صاحب اس ”واپڈا“ سے ہی نجات دلا دیںکہ یہ خود تو ڈوب رہا ہے۔کروڑوں انسانوں کی معمولی معمولی سی خوشیاں بھی ڈبو دے گا۔
کوئی تو اٹھے جو اس ادارے کو لوٹنے والوں کی فہرستیں بنائے اور چوک چوراہوں میں آویزاں کرے۔کوئی تو ہو جو ہرطرح کی بدعنوانی سے بغاوت کرے اور عوام الناس کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے والے ڈاکوئوں اور لٹیروں کو سرعام کوڑے مارے۔ بڑے بڑے ادارے اس ماردھاڑ میں حصہ دار بن گئے ہیں۔کنڈے کہاں پڑے ہیں؟ میٹر کن کے گھمائے جاتے ہیں؟ سب کو سب کا علم ہے لیکن معصوم صارفین جو بل بھرنے کیلئے قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں انہیں ٹی وی دیکھنے کی سزا دی جاتی ہے۔ انہیں سمجھایا جاتا ہے۔”بجلی چوری قومی جرم ہے“۔لوگ ہر ماہ کپکپاتے ہاتھوں سے بجلی کا موت نما پروانہ نکال کر سوچنے لگتے ہیں کہ انہوں نے بجلی کو چوری کب کیا ہے؟۔پریذیڈنٹ ہائوس اور گورنر ہائوسز کے بل بھی ان کے کھاتے میں ڈال دیئے گئے ہیں۔
ظالم ریاست کیخلاف بغاوت ہر انسان کا حق ہے۔مغلوب یا غالب اس کا فیصلہ وقت اور حالات کریں گے ۔کوئی نہیں جو ان شیش محلوں کے فانوس ریزہ ریزہ کردے۔ان کے گھروں میں گھس کر اندھیرے انڈیل آئے۔ایسے ادارے جو شہریوں کی خدمت کے نام پر زحمت تقسیم کریں انہیں ڈوب جانا ہوتا ہے۔ڈبونے والے باہر سے نہیں اندر سے کارروائی کرتے ہیں۔واپڈا ایک بار پھر ڈوب رہا ہے ۔اسے ڈوبنے دیں‘ صرف ڈبونے والوں کے چہروں کو پہچان لیں۔وقت جب اپنا پہیہ گھمائے گا تو ان چہروں پر لوڈشیڈنگ کی سیاہی ملی ہوئی دکھائی دے گی۔ان چوروں کا انجام صرف اور صرف عوام کے ہاتھوں لکھا گیا ہے۔ابھی صرف عمارتیں اورگاڑیاں جل رہی ہیں‘بہت جلد عوام ان کالے چہروں والے مگرمچھوں کے پیٹ چاک کر رہے ہوں گے!

Leave a Reply

Back to top button