اردو شاعری

ظلمت میں، اندھیروں میں، تُو ہے جیسے نور

stream_of_light_by_javierocasio-d1i9obp
ظلمت میں، اندھیروں میں، تُو ہے جیسے نور
ہم ســــر ہــــو نہیں ســــکتے تـرے ماہ و طُور
پھــــــــر کـــــــیوں مـــــایوسی اور نا اُمّیدی؟
قــــــــدر اپنی کـــــو جان لے تُو میرے مہجور
شاعری: احمد دانش
اصلاح: استاد محمد وارث

ایک تبصرہ

  1. روشنی
    نذر حافی
    ادبِ معلّیٰ
    روشنی انسان کی تمنّا بھی ہے ،محبت بھی اور ضرورت بھی ۔انسان ساری زندگی روشنی سے محبت کرتا ہے اور روشنی کی تلاش میں رہتاہے۔ ہر شب ,ہر انسان کےدل ودماغ میں فرشتوں کے قدموں کی چاپ ایسے ہی سنائی دیتی ہے جیسےرات کے سینے میں کوئی جگنو رینگ رہاہو،روشنی جو چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے، اس کی ہزار شکلیں ہیں ہزار جنم ہیں اور ہزار جسم ہیں۔
    کسی غریب کی کٹیا میں جس سے اجالا ہے وہ بھی روشنی ہے اور شاہجہان کے محل میں جو چمک رہی ہے وہ بھی روشنی ہے،مسافر کی لالٹین سے روشنی پھوٹتی ہے اور اسٹریٹ لائٹ سے بھی روشنی۔
    روشنی مدھم بھی ہے ،روشنی تیز بھی ،روشنی سرخ بھی ہے،روشنی سفید بھی ،جو آئینے اور پانی میں منعکس ہے وہ بھی ہے روشنی اور جو آتش پاروں میں جھلکتی ہے وہ بھی ہے روشنی۔
    سورج کی شعاعوں ،چاند کی کرنوں اورآبشار کے قطروں سےہر طرف روشنی ہی روشنی پھوٹتی ہے۔
    جیسی روشنی عالم آفاق میں ہے ویسی ہی روشنی عالم نفوس میں بھی ہے۔
    چراغ بھی روشنی ہے،امید بھی روشنی ہے،قلم بھی روشنی ہے،کتاب بھی روشنی ۔
    روشنی شہیدوں کے لہو سے بھی پھوٹتی ہے،روشنی دعا و مناجات سے بھی
    روشنی علماء کے قلم سے بھی پھوٹتی ہے،روشنی کشف و کرامات سےبھی
    روشنی مومن کے دل سے بھی نکلتی ہے،روشنی انبیاء کے معجزات سےبھی
    اور روشنی حورالعین کی آنکھوں سے بھی جھلکتی ہے۔۔۔
    انسان کے ہر طرف روشنی ہی روشنی ہے لیکن اس کے باوجود وہ روشنی کی تلاش میں بھٹک رہا ہے۔
    یہ مشرق و مغرب کے سفر ،یہ کتابوں کے انبار،یہ فتووں کے ڈھیر،یہ نعروں کی بھرمار ،سرخ و سبز جھنڈوں کی تقسیم،
    یہ سب روشنی کی تلاش میں سرگردانی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
    جس طرح کاغذ پر بکھرے ہوئے لوہے چون کو مقناطیس دکھایا جائے تو لوہے چون کے ذرّات صف بستہ رقص کرنے لگتے ہیں ایسے ہی انسان کو اگر روشنی کی امید دلائی جائے توانسان بھی رقص کرنے لگتاہے اورجھوم اٹھتاہے۔
    آج ہزاروں قمقموں اور سینکڑوں برق پاروں کے باوجودانسان کے آنگن میں ابھی تک روشنی نہیں اتری۔
    آج !
    انسان مضطرب ہے،
    انسان بے چین ہے،
    انسان بے سکون ہے،
    انسان بے قرار ہے۔۔۔
    اس لیے کہ انسان کو روشنی چاہیے۔
    انسان کے اضطراب،بے چینی،بے سکونی اور بے قراری کا علاج روشنی ہے۔۔۔
    جی ہاں! روشنی ۔
    روشنی نعروں اور ریلیوں سے نہیں آتی ،روشنی روٹی اور نوکری سے نہیں آتی،چیلے کاٹنے اور منتر پڑھنے سے نہیں آتی۔
    روشنی سچ اور حق سے آتی ہے۔۔۔
    اگر انسان کو سچ اور حق مل جائے تو اسے روشنی مل جائے گی،سکون مل جائے گا،قرار مل جائے گا۔
    جسے کسی بابرکت شب میں سچ اور حق مل گیا اسے روشنی مل گئی،اسے زندگی مل گئی۔
    سچ روشنی ہے ،حق روشنی ہےاور یہی حقیقی روشنی ہے۔
    باقی جہاں بھی ہے ،چاہے کسی کے قلم میں ،خون میں ،پیغام میں،قبر میں ،دل میں صرف اور صرف سچ اور حق کے دم سے روشنی ہے۔
    اپنی زندگی کی گم سم راتوں میں جب آنکھ کھلے تو فرقوں،بینروں،نعروں اور پھر پوسٹروں پر نہ جائیے،سچ اور حق تلاش کیجیئے۔
    جسے سچ اور حق مل گیا اسے روشنی مل گئی۔ روشنی انسان کی تمنّا بھی ہے ،محبت بھی اور ضرورت بھی ۔انسان ساری زندگی روشنی سے محبت کرتا ہے اور روشنی کی تلاش میں رہتاہے لیکن چمگادڑ۔۔۔
    [email protected]

Leave a Reply

Back to top button