ایرانی گیس کیوں نہیں؟
ڈاکٹر مرتضیٰ مغل
لومڑی مکار کیوں ہوتی ہے؟بظاہر تو وہ ایک خوبصورت‘سمارٹ اور پھرتیلا سا جانور ہے لیکن اس کی مکاری سے جنگل کا بادشاہ بھی پناہ مانگتا ہے۔مکاری اور عیاری امریکہ پر ختم ہے۔ہیلری کلنٹن اپنے لائو لشکر سمیت پاکستان تشریف لائیں۔کبھی لہجہ سخت تھا کہیں پھول جھڑتے رہے۔چہرہ تنا ہوا بھی دکھائی دیا اور مسکراہٹیں بکھرتی بھی نظر آئیں۔ پاکستانیوں سے زیادہ پاکستان کی فکرمندی‘ہمارے آرمی چیف کے جملوں کی جو گالی‘حملہ نہ کرنے کی یقین دہانیاں اور ”ساس“ والی میٹھی میٹھی نصیحتیں بھی سنائیں۔ہم سب نے سکھ کا سانس لیا سب”فتح مندی“ کے احساس سے سرشار ہوئے۔افغانستان پر ہمارا موقف امریکی موقف ٹھہرا۔ گویا امریکیوں نے ہمارے سامنے ”سرنڈر“ کردیا۔
آخر اتنی مہربانیاں کیوں ہوئیں۔ نرم گوئی کے پیچھے کیا چھپا ہوا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ کے لب و لہجہ کی تبدیلی کے ساتھ ہی حامد کرزئی نے پاکستان سے اپنی ”لازوال“ محبت کی بھڑک ماری‘بھارت نے پاکستان کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کے لئے نہ صرف ووٹ ڈالا بلکہ بقول ہمارے سفیر ہمارے ازلی دشمن نے ہمارے حق میں لابنگ بھی کر ڈالی‘ہمارے تجارتی وفد کے سربراہ امین فہیم ”کامیابیوں“ کے جھنڈے گاڑتے دکھائی دیئے۔بھارت نے پاکستان کو یورپی یونین تک رسائی کے حوالے سے حائل رکاوٹیں دور کرنے کا عندیہ دےدیا۔ ہر طرف کامیابیاں ہی کامیابیاں۔آخر یہ ”چمتکار“ کیوں ہوا۔ بھارتی ہیلی کاپٹر اور اس کا عملہ باعزت طور پر واپس بھجوایا گیا۔بھارتی سرکار اور ذرائع ابلاغ نے ہمارے سپہ سالار کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے۔ بطور پاکستانی میں یہ سب کچھ سوچتا ہوں تو ورطہ حیرت میں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے۔ دشمنوں کی طرف سے ایسی محبتیں۔ اللہ خیر کرے!لیکن ایک چھوٹی سی خبر‘خبر کے اندر انکشاف‘انکشاف کے پیٹ میں خوف۔ ایک جھرجھری سی لے کر رہ گیا۔ ہمارے وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹر عاصم نے بھانڈا پھوڑ دیا۔”ایران سے گیس لینے کے حوالے سے عالمی دبائو کو بھی مدنظر رکھیں گے“۔ اصل معاملہ سامنے آگیا”کچھ لو اور کچھ دو“ کے فلسفے کا اصل حاصل حصول سب سامنے آگیا۔”عالمی دبائو“ کا مطلب کیا ہوا؟ ہمارے حکمرانوں کے لئے ایک امریکہ ہی پورا عالم ہے۔ ہیلری نے پیار میں بھیگے لفظوں کے ساتھ پاکستان کو نصحیت فرمائی کہ ”پاکستان ایران سے گیس نہ لے کیوں کہ ایران اپنے تمام ہمسایہ ملکوں کے لئے ایک خطرناک ہمسایہ ہے “ ہم نے ایک بار پھر امریکہ کو اندر کھاتے یہ یقین دہانی کرا دی ہے کہ ایران سے گیس لینے کے معاملے کو لٹکا دیں گے۔اس وقت تک لٹکائے رکھیں گے جب تک امریکہ کی طرف سے گرین سگنل نہیں آجاتا۔ اس کے بدلے ہمیں کہیں سے گیس تو نہیں ملے گی لیکن امریکی فوجیں پاکستان پر حملہ نہیں کریں گے اور پاکستان کو افغان مسئلہ کے ”وائنڈاپ“ میں کچھ کردار ادا کرنا ہوگا۔
کیسا ”لو اور دو“ ہے؟ پاکستان جس کی زندگی گیس کے بغیر ٹھٹھر ٹھٹھر کر اقتصادی موت کو گلے لگالے گی۔اربوں ڈالرز ہر سال کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ کارخانوں کی چمنیاں بند ہوں گی‘چولہے ٹھنڈے ہوں گے اور سڑکوں پر مظاہرے‘مظاہروں میں توڑپھوڑ جلائو گھیرائو۔ لیکن ایران سے گیس نہیں لیں گے کیوں کہ امریکہ نے ایران کے گرد مزید گھیرا تنگ کرنا ہے‘ اس پر جارحیت مسلط کرنی ہے اور اس غرض و غائیت کے لئے پاکستان نے استعمال ہونا ہے۔ ایسے حالات میں گیس پائپ لائن بچھائی نہیں جاسکتی!
سی آئی اے عراق‘ افغانستان کی ”فتح“ کے بعد ایران کو فتح کرنا چاہتی ہے۔ایک ڈرامہ رچایا جاچکا ہے۔سی آئی اے نے دو ایرانی نژاد امریکیوں پر الزام عائد کررکھا ہے کہ وہ امریکہ میں سعودی سفیر کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ سعودیوں نے سی آئی اے کے اس ”ڈرامہ“ کو حقیقت تسلیم کرکے ایران کو سبق سکھانے کے امریکی منصوبے کی مکمل حمایت کردی ہے۔ دوچار سالوں کی بات ہے۔حالات تیزی سے ایران پر جارحیت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔پاکستانی سیاست‘حکومت اور صحافت عالم اسلام کے خلاف اس خطرناک سازش کو بے نقاب کرنے کی بجائے امریکیوں کی زبان اور سوچ سے ہم آہنگ دکھائی دے رہی ہے۔
کوئی نہیں‘کوئی مسلمان لیڈر اس حیثیت میں نہیں کہ وہ سعودی اور ایرانی بھائیوں کے پاس حاضری دے‘ ان کے پائوں پکڑے ان کی آپس میں ملاقات کرا دے۔آپس کی غلط فہمیاں دور کرا دے تاکہ امت مسلمہ مزید تقسیم سے بچ جائے۔ایران اور سعودی عرب دونوں ملکوں کو بھی شائد یہ احساس ہی نہیں کہ وہ دھیرے دھیرے کسی تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔یہی امریکہ تھا جس نے شاہ ایران کو اس علاقے میں تھانیدار بنا رکھا تھا۔اب یہی امریکہ ہے جس نے سعودی عرب کو ایک سو ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کردیا ہے۔
پاکستان سے اپنے دوست اور دشمن چننے کا اختیار لے لیاگیا ہے۔ایرانی گیس سے پاکستانی چولہے نہیں جل پائیں گے کہ ہیلری نے ہمیں دھمکیاں دے کر ہم سے ہماری خوشحالی پھر چھین لی ہے!!