کالم

کبھی اے نوجواں مسلم تدبّر بھی کیا تو نے

نذر حافی
اسلام آباو اجداد کی اندھی تقلید سے پھیلنے والا جامد نظام حیات نہیں بلکہ تحقیق و تجربے کی بنیاد پر پھیلتی ہوئی ارتقاءِانسانیت کی علمی و فکری،تہذیبی و ثقافتی اور سیاسی و اجتماعی تحریک کا نام ہے ۔اس ہمہ جہتی تحریک کی نشوونما میں جہاں انبیاء اکرام کے علم و فضل ، آئمہ اہلبیت {ع} کے عرفان امامت اور علماء کرام کی جدوجہد کا عمل دخل ہے وہیں پر اسلامی جوانوں کے خون کے نذرانے بھی تاریخ اسلام کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ کار دنیا کو انجام دینے میں جوانی کو سنگ بنیاد کی حیثیت حاصل ہے ہی لیکن اسلامی شریعت میں بھی جوانی ہی کی عبادت کو بہترین عبادت کہا گیا ہے۔
بقول معروف” در جوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری است”
دین اسلام کے رشدو ارتقاءمیں جوانوں کاکردار بنیادی اہمیّت کا حامل ہے۔دعوتِ ذوالعشیر سے لے کر میدان ِ غدیر تک اسلام کا پرچم ایک جوان ہی نے اٹھا رکھا ہے اور ساحلِ فرات سے لے کر میدان ِمحشر تک اسلام کی حیاتِ ابدی کا پرچم بھی ایک جوان کے ہی کٹے ہوئے بازووں کے سہارے سے لہرارہاہے۔تاریخ اسلام شاہد ہے کہ اسلام عزیز کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے دفاع کے لیے ہر دور کے اسلامی جوانوں نے بے دریغ قربانیاں دی ہیں۔
چنانچہ اقبال اپنی ملت کے جوان کو مخاطب کر کے کہتے ہیں:
کبھی اے نوجواں مسلم تدبّر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو ہے جس کا اک ٹوٹا ہواتارا
اسی طرح شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی نے بھی جوانوں کو مخاطب کر کے کہا :
اے دوستو1 فرات کے پانی کا واسطہ
آل نبی کی تشنہ دہانی کا واسطہ
شبیر[ع}کے لہوکی روانی کاواسطہ
اکبرکی ناتمام جوانی کاواسطہ
بڑھتی ہوئی جوان امنگوں سے کام لو
ہاں تھام لو حسین کے دامن کو تھام لو
تاخیرکایہ وقت نہیں ہے دلاورو
آواز دے رہاہے زمانہ بڑھے چلو
ایسے میں باڑھ پر ہے جوانی بڑھے چلو
گرجو مثال رعد گرج کے برس پڑو
ہاں زخم خوردہ شیر کی ڈہکار ،دوستو
جھنکار ،ذوالفقار کی جھنکار دوستو
اے حاملان آتش ِسوزاں بڑھے چلو
اے پیروانِ شاہِ شہیداں بڑھے چلو
اے فاتحانِ صرصرو توفاں بڑھے چلو
اے صاحبانِ ہمّتِ یزداں بڑھے چلو
تلوار،شمرِ عصر کے سینے میں بھونک دو
ہاں جھونک دو یزید کو دوزخ میں جھونک دو
جوانی کا عہد بلند حوصلے ،اعلیٰ ہمت اور جنون و عشق کا دور ہوتا ہے۔اس لیے تاریخ عالم کو ہمیشہ جوانوں کے گرم لہو نے ہی انقلابات سے ہمکنارکیاہے۔چونکہ تحریکیں شفاف فکر،جواں ہمت اور بلند حوصلے کی مرہون منت ہوتی ہیں۔اس لیے اگر کسی بھی تحریک سے جوانوں کو علیحدہ کر دیا جائےتو وہ تحریک، تحریک نہیں رہتی بلکہ پیکر جمود بن جاتی ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دین اسلام کے عظیم رہنماوں نے جوانوں کی تعلیم و تربیّت پر خاص توجہ دی ہے ۔عصرِ حاضر میں اسلامی انقلاب کے بانی حضرتِ امام خمینی {رح} نے جوانوں کو جو نصیحتیں کی ہیں ان میں سے ایک نصیحت کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
"آپ جو جوانی کی نعمت سے بہرہ مند ہیں ابھی سے کوشش کریں کہ ایک مفید شخص ثابت ہوں اور آپ جو یہاں علم حاصل کر رہیں ہیں کوشش کریں کہ اپنے لیے بھی اور اپنی قوم اور ملک کے لیے بھی مفید قرار پائیں۔کوشش کریں کہ اپنی عمر برباد نہ کریں ۔کیو نکہ آپ میرے سن کو پہنچ کر کوئی مثبت کام کرنا بھی چاہیں تو ضعف و نقاہت اجازت نہیں دیں گے۔خدا کی عطا کی ہوئی اس طاقت اور امانت کو خدا کی راہ میں صرف کیجیے اور خدا کی راہ میں صرف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کی بہتری۔اسلامی ملک کی بھلائی اور اسلام کی برتری کے لیے کریں۔دشمنان اسلام اور ان افراد کو کہ جو باہر سے آکر مسلمانوں کے خزانوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ملک سے نکال باہر کرنے کے لیےکام کریں۔”۱\
یعنی امام خمینی نے جوانوں کو حصول علم کے ساتھ ساتھ معاشرے کے لئے مفید بننے اور استعماری طاقتوں کے خلاف صف بستہ ہونے کا پیغام دیاہے۔
اسی طرح شاہی نظام کے دوران ایرانی جاسوسی ادارے "ساواک”کے ریکارڈ میں رہبر معظم حضرت آیت اللہ خامنہ ای کی کی نوجوان نسل میں مقبولیّت اور ہردلٰزیزی کی تصدیق کی گئی ہے۔۹/۳۰۰۳ شمارے کی رپورٹ کے مطابق ۸/۱/۱۳۵۳ کویہ درج کیاگیاکہ مرتضی مطہری ساواک کی طرف سے مشہد میں سید علی خامنہ ای کی نماز جماعت بندہونے سے ناراض ہیں اور مطہری[رح]نے کہاہے کہ سید علی خامنہ ای ایک قیمتی شخص ہیں جن سے آئندہ کافی امیدیں وابستہ ہیں انہوں نے اس دوران مشہدمیں کافی مفید کام انجام دیے ہیں جن میں سے ایک یونیورسٹی اور دینی مدارس کے طالبعلموں کو ایک جگہ جمع کرناہے۔/۲
۶۱ہجری میں جب اسلام کو ملوکیت کے پھانسی گھاٹ پر موت کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کی گئی تو اسلام کے حقیقی وارث حسین ابن علی{ع} نے بقاء اسلام کے لیے قیام کیا،مدینے سے خروج کے وقت ایک مرتبہ آپ پر چند لمحوں کے لیے غنودگی طاری ہو گئی۔جب آپ بیدار ہوئے تو آپ کے ۱۸ سالہ جوان فرزند علی اکبر نے آگے بڑھ کر آپ سے غنودگی طاری ہونے کا ماجرا پوچھا تو آپ نے فرمایاکہ اس ہلکی سی نیند کے دوران میں نے عالم خواب میں ایک منادی کو ندا دیتے ہوئے سنا ہے کہ ہمارا یہ قافلہ بخیریت واپس نہیں آئے گا۔تو شہزادہ علی اکبر {ع}نے فورا پوچھا بابا جان:کیا ہم حق پر نہیں ہیں۔جواب ملا ہاں ہم حق پر ہیں۔جب یہ سنا تو شہزادے نے ایک ایمان افروز جملہ کہا”بابا جب ہم حق پر ہیں تو پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ہم موت پرجا پڑیں یا موت ہم پر آ پڑے۔
جوان علی اکبر{ع}کے اس ایک جملے نےتحریک کربلاکی رگوں میں وہ حرارت پھونکی ہے کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود بادشاہوں کے مظالم،مورخین کی خیانتیں اور متعصّبین کا اتحاد تحریک کربلا کو سرد نہیں کر سکا ،آج بھی جب مسلمان جوان سڑکوں پر نکلتے ہیں تو ہر طرف یہی صدا گونجتی ہے:
ہماری یہ جوانیاں ۔۔۔حسین[ع]کی قربانیاں
حسین{ع}مدینے سے مکے کی طرف نکلے پھر مکے سے کوفے کے قریب تک پہنچے۔اس سارے سفر میں چھ مہینے کا عرصہ لگا۔ان چھ مہینوں میں امام{ع}نے دنیا کو یزید کی ان گنت کا رستانیوں بدعات اور انحرفات سے آگا کیا اور مشہور یہی ہے کہ پوری کائنات میں سے یزید کے خلاف فقط بہتر [۷۲]آدمیوں نے امام حسین{ع} کی ہمراہی کا شرف حاصل کیا۔ان بہتر میں سے سترہ {۱۷}افراد آل ابی طالب میں سے تھے اور یہ سترہ کے سترہ افراد یا نوجوان تھے یا پھر کڑیل جوان تھے۔دو خود امام {ع}کے فرزند علی اکبر{ع}اور علی اصغر{ع}تھے۔تین امام حسن {ع}کے فرزند قاسم،عبداللہ اور ابوبکر تھے۔پانچ امام حسین{ع} کے بھائی تھے۔عباس،عبداللہ،جعفر،عثمان،محمد بن علی اور دو بیٹے عبداللہ بن جعفر کے تھے۔عون و محمد اور پانچ افراد اولاد عقیل میں سے تھے۔جعفر بن عقیل،عبدالرحمٰن بن عقیل،مسلم بن عقیل اور مسلم بن عقیل کے دو بیٹے عبداللہ اور محمد اور ایک محدم بن ابی سعید بن ابی عقیل تھے۔ان سترہ افراد کے نا م زیارت ناحیہ میں ملتے ہیں۔ان کے علاوہ امام{ع}کے دیگر تقریبا پچپن جانثاروں میں سے بھی بیشتر جوان تھے۔جو بچے تھے وہ بھی جوانوں کی طرح اپنا سینہ تان کر امام{ع} کے سامنے چلتے تھےتاکہ وہ جوان نظر آئے اور ان کا بچپنہ ان کے شوق شہادت میں حائل نہ ہواسی طرح عمر رسیدہ افراد تھے انہوں نے بھی اپنی ضعیفی کو اپنے جذبہ شہادت پر غالب نہیں آنے دیا اور وہ میدان عمل میں جوانوں کے شانہ بشانہ رہے۔یوں تو امام{ع}کے لشکر میں بنی نوح انسان سے تعلق رکھنے والے ہر طبقے کی نمائندگی موجود تھی۔جون جیسے وفادار غلام بھی تھے۔حر جیسے حریت مجاہد بھی تھے۔عباس جیسے جری بھی تھے۔علی اصغرجیسے شیرخوار بھی تھے اور سجاد جیسے بیمار بھی تھے۔زینب و کلثوم کی صورت میں خواتین کی نمائندگی بھی تھی ۔فضہ کے روپ میں ملکہ دشت وفا بھی تھی۔اس تحریک میں ہر سطح کا شخص موجود تھا اور ہر اس موجود شخص نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔تحریک کربلا کا ہر فرد سبیل ہدایت اور مینارہ نور ہے لیکن کیا کہنا ان جوانوں کاجن کےجوان لہو کے باعث تاریخ کربلا کے چہرے پر بڑھاپے کی جھریاں نہیں پڑیں۔تاریخ کربلا کےخدو حال پہ ضعیفی نہیں چھائی اور پیغام کربلا میں کہنگی نہیں آئی۔
تاریخ کا ہرورق اور ہر شاہکار وقت کے ساتھ ضعیف بھی ہوتاہے اور زوال پذیر بھی لیکن کربلاوقوعہ کے روز سے ہی مسلسل جوان بھی ہے اور لازوال بھی ۔بنو امیہ اور بنو عباس نے کوشش کی کہ واقعہ کربلا کے پس منظر میں تحریف کر کے اور اس کے واقعات میں ردوبدل کر کے اسے ایک خوبصورت افسانے کا رنگ دے دیا جائے۔لیکن تحریک کربلا کے رگ و پے میں جوانوں کے گرم لہو کی مچلتی ہوئی موجوں نے کربلا کے فکری ارتقا ء کے سامنے باندھے جانے والے ہر بند ھ کو بہا دیا ، گرم خون کی حرارت نے بنو امیہ کی حکومت کو راکھ کر ڈالا اور بنو عباس کے تخت وتاج پگھلا ڈالے ۔
بقول شاعر :
ہر چند اہل جور نے یہ چاہابارہا
ہوجائے محو یادِ شہیدانِ کربلا
باقی رہے نہ نام زمیں پر حسین کا
لیکن کسی کا زور عزیزو نہ چل سکا
عباسِ نامور کے لہو سے دھلاہوا
اب بھی حسینیت کا علم ہے کھلا ہوا
برچھی مارنے والوں نے برچھی مار تو دی لیکن پھر نوک سناں کو نکال نہیں سکے ۔لاشہ قاسم پر گھوڑے دوڑانے والوں نے گھوڑے دوڑا تو دئے لیکن رن میں بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو تاریخ کی آنکھوں سے چھپا نہیں سکے۔زنجیر پہنانے والوں نے سیّد سجاد کو زنجیر تو پہنا دئے پھر زنجیر کی آہٹ کو پابند سلاسل نہیں کر سکے۔باطل نے علمدار کے بازو تو قلم کر دیے لیکن علم کو سرنگوں نہیں کر سکا ۔ کربلا کے جوانوں نے رہتی دنیا تک کے اسلامی جوانوں کے لیے ایسا اسوہ حسنہ چھوڑا ہے کہ اب ملت اسلامیہ کے جوان باطل قوتوں کے ہاتھوں پاش پاش تو ہو سکتے ہیں لیکن باطل کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہو سکتے ۔کربلا کے جوان ملت اسلامیہ کے جوانوں کے لئے نمونہ عمل ہیں ۔
اگر کوئی نوجوان یتیم ہے لیکن حق کی خاطر قربان ہونا چاہتا ہےتو حسن {ع}کے یتیم کی سیرت کو سامنے رکھے۔اگر کسی جوان کو خدا توفیق دے کر وہ بھوک اور پیاس سے نڈھال ہو نے کے باوجود امام عصر{ع} کی صدا پہ لبیک کہنےکا جذبہ رکھتا ہوتو وہ حسین{ع} کے علی اکبر{ع} کی سیرت سامنے رکھے اور اگر کوئی جوان بہت شجاع ہے اور اپنی شجاعت کو مشیت معصوم{ع}کے تابع رکھنا چاہتا ہے تو عباس جری کے اسوہ حسنہ کو سامنے رکھے۔اگر کوئی جوان کسی شاہی خاندان کے نازو نعم کا حسین شاہکار ہے اور اس کے آنسووں سے کائنات کی نزاکتیں دم لیتی ہیں تو اسے سید سجاد{ع}کے سفر شام کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اگر کوئی اپنے حسب و نسب میں بہت اعلیٰ ہے تو اس جوان کو عون و محمد کے نقشِ پا کی پیروی کرنی چاہیے۔اگر کسی جوان کو اپنے زور بازو پہ بہت ناز ہے تو مجلس عزا میں آکر فرات کے کنارے کٹنے والے دو بازوں کی داستان ضرور سنا کرے۔
اگر کوئی جوان حق کی خاطر اپنے سینے پر تمغہ شہادت سجانا چاہتا ہے تو علماء سے علی اکبر{ع} کے سینے میں ٹوٹی ہوئی سناں کا حال ضرور پوچھا کرے۔اگر کوئی جوان امام زمانہ{ع} کے ساتھ وفاداری کا دم بھرتا ہے تو اسے چاہیے کہ شب عاشور بجھے ہوئے چراغ کی کسوٹی پر خود کو پرکھتا رہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جس جوان نے بھی کربلا کے جوانوں کی فکر پر اپنی جوانی کو استوار کیا اسے حیات جاودانی نصیب ہوئی ،صرف پاکستان میں ہی کربلا کے اس فکری ارتقا کے دوران ہزاروں جوانوں نے اسیر ہو کر سیرت سجّاد کا اعادہ کیا ہے اور سینکڑوں جوانوں نے شہید ہو کر سیرت قاسم وعباس و اکبر کو ادا کیا ہے ،کبھی طاغوت نے بے گناہ محرم علی کو سولی پہ لٹکایااور کبھی ظالموں نے ناصر صفوی کو گولیوں سے بھونالیکن اس کے باوجود شمعِ کربلا کے گردپروانوں کی پرواز میں کمی نہیں آئی۔گویا
یہ صبحِ انقلاب کی جو آج کل ہے ضو
یہ جو مچل رہی ہے صبا پھٹ رہی ہے پو
یہ جو چراغِ ظلم کی تھرّا رہی ہے لو
درپردہ یہ حسین کے انفاس کی ہے رو
حق کے چھڑئے ہوئے ہیں جو یہ ساز دوستو
یہ بھی اسی جری کی ہے آواز دوستو
اب ہر منصف مزاج انسان اس حقیقت کا اعتراف کر رہا ہے کہ نیک ،متّقی اور باشعور جوانوں کے قتل کا حضرت ہابیل{ع}کی شہادت سے شروع ہونے والا سلسلہ آج پوری دنیا میں جاری و ساری ہے اور تاابد جاری و ساری رہے گا چونکہ شہید ہونے والا ہرباشعورجوان اپنے پیچھےیہی پیغام چھوڑ جاتا ہے کہ
رکنے نہ پائیں یہ قدم ۔حی علی خیرالعمل
چودہ سالوں سے نہ ظالموں کے خنجر کند ہوئےہیں اور نہ مظلوموں کی گردنیں کم پڑی ہیں ۔
"جوان” ہر قوم کی امیدوں کا محور ہوتے ہیں۔بابصیرت قائدین کٹھن حالات میں جہاں جوانوں کو امیدیں دلاتے ہیں وہیں پر جوانوں سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کئے ہوئے بھی ہوتے ہیں۔ قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی [رح]بھی اپنی ملت کے جوانوں کے بارے میں یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں:
پاکستان بنانے میں ہمارے بزرگوں کی فکراور سرمایہ خرچ ہواہے،ہمارے جوانوں کا خون خرچ ہواہے۔۔۔اب بھی اگر پاکستان کے بیرونی دشمن نے کسی قسم کا حملہ کیا تو آپ دیکھیں گے کہ کس طرح یہ جوان محازوں پر اپنے سینے سپر کرکےپاکستان اسلامی کادفاع کریں گے۔/ ۳
اسی طر ح لاہورمیں منعقد ہونے والی قرآن وسنّت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے جونوں کو مخاطب کرکے کہا تھاکہ اے جوان تو قوم کا سرمایہ ہے،اے جوانوقوم کی امیدیں آپ سے وابستہ ہیں،آئندہ اس مملکت کی زمامِ امور آپ کے ہاتھ میں آنے والی ہے،لہذا آپ کو چاہیے کہ اس وقت ہر لحاظ سے اپنے آپ کو آمادہ کریں۔/۴
اپنی قوم کے جوانوں کو مخاطب کر کے محسن نقوی شہید نے بھی کہا ہے کہ
رونق شاخ سردار بنو
وقت کے میثم تمار بنو
لشکر ظلم سے لڑنے کیلئے
دست مظلوم کی تلوار بنو
صبر کے سر کو جھکانے کیلئے
صبر سجاد کا معیار بنو
ہاتھ سے ہاتھ نہ چھٹنے پائیں
آہنی عزم کی دیوار بنو
تم سے زنداں بھی لرز جائیں گے
جرات جذبہ مختار بنو
سرخرو حشر میں ہونا ہے اگر
دوستو صاحب کردار بنو
توڑ دو بیعت باطل کا فسوں
حر نظر آو جگر دار بنو
پھر تمنائے ارم بھی جائز
پہلے مولاکے عزادار بنو
مرحب نو ہے مقابل محسن
پیرو حیدر کرار بنو
یہ غیر مسلم اقوام کا المیہ ہے کہ ان کی آئندہ نسلوں کا مستقبل مخدوش ہے لیکن ملت اسلامیہ کا مستقبل اس لیے روشن ہے کہ یہ ملت خورشیدکربلا سے نور حیات لیتی ہے۔بھلا جس قوم کے جوانوں کے آئیڈیل قاسم و اکبر {ع}ہوں۔اس قوم کو سپاہ یزید کیسے ہرا سکتی ہےاور جس قوم کے جوان عباس نامور کے علم کو تھامے ہوئے ہوں اس قوم کو لشکر فرنگی کیسے شکست دے سکتا ہے۔جس قوم کا ورثہ پیاس بھرا مشکیزہ ہو اس قوم کے جوانوں کو دنیا کا اضطراب کیسے مضطرب کر سکتا ہے۔
انہی خیالات کا اظہار علامہ عارف حسین الحسینی [رح] نے باغ آزاد کشمیر میں اپنے خطاب کے دوران کچھ اس طرح کیا تھا:
ہم حکومت پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر حکومت ہمارے جوانوں کو ان چیزوں سے ڈرائے دھمکائےتو یقیناً ہمارے جوان اس سے ڈرنے والے نہیں ،حق کی بات کریں گے،حق کے مقابلے میں ان کو جو قیمت بھی ادا کرنی پڑی وہ کریں گےلیکن کبھی بھی حق سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔/۵
حق پر کٹ مرنے اور حق کی خاطر زندہ رہنے کایہ درس جوانوں کو صرف اور صرف کربلا سے ہی ملتاہے جیساکہ شب عاشور جب امام حسن{ع}نے اپنے جواں سال بھتیجے قاسم بن حسن{ع}سے پوچھا”کیف الموت عندک” بیٹا موت تمہارے نزدیک کیسی ہے؟ شہزادے نے برجستہ جواب دیا:”احلی من العسل”شہد سے زیادہ میٹھی۔
پس جس قوم کے جوان حق کی حمایت میں موت کو شہد سے زیادہ شیریں سمجھتے ہوں دنیا بھر کی باطل طاقتیں انہیں مرعوب کیسے کر سکتی ہیں۔
چنانچہ قائد شہید نے بھی جوانوں میں جوش ایمان اور جذبہ شہادت کا اصلی محرک کربلا کو قرار دیا ہے ،یوں توآپ نے متعدد خطبات میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے،ہم یہاں نمونے کے طور پر آپ کی ایک تقریر میں سے ایک پیراگراف نقل کررہے ہیں:
"یہ عزاداری سیّد الشہدا[ع]ہےکہ ان نوجونوں کے خون کو جوش میں لاتی ہے،یہ عزاداری سیّد الشہدا[ع]ہے کہ ایران اور لبنان کے نوجوانوں کو طاغوتی طاقتوں کے خلاف دیوار بناکرکھڑاکردیتی ہے۔برادران عزیز۔۔۔ سیّد الشہدا[ع]کی عزاداری کا احترام کریں،یہ گوہرِ گراں بہاہے اس کی حفاظت کریں۔جب تک سیّد الشہدا[ع]کاعشق اور محبت ہمارے سینوں میں موجود ہےاورجب تک یہ دل ان سینوں میں موجود ہیں یہ کبھی بھی لشکروں سے مغلوب نہیں ہونگے۔/۶
آج کے اس پر آشوب دور میں جب کے فرعونیت چہار سو ہے،یزیدیت جا بجا ہے ہر کوچے میں سپا ہ یزید اور ہر شہر میں سپاہ شام کے ڈیرے ہیں۔ آج ضرورت ہے کہ ملت اسلامیہ کے جوان تمام تر تعصبات اور فرقوں سے بالاتر ہوکرشہدا کربلا کی طرح اپنی مقدس جوانیوں کو خورشید کربلاکے قدموں میں رکھدیں۔اس لئے کہ جو جوانی بھی کربلا کی دہلیز پر نچھاور ہوگئی آفاقِ ہستی کے افق پر مینارِ تابندگی بن کر جگمگانے لگی۔چنانچہ ہمارے ملک کے ایک نامور شاعر کو یہ کہنا پڑا :
کس طرف جاناہے تجھ کو سوچ اے مردِ خدا
اِک طرف زہرِ فناہےاِک طرف نہرِبقا
یاپہن لے تاجِ کردارِ شہیدِ کربلا
یامحیطِ کشورِ باطل میں جاکرڈوب جا
یاعنانِ ذہنِ عالم جانبِ حق موڑ دے
یا حسین ابن علی کا نام لینا چھوڑ دے
۱/کوثر ج۱ص۱۴۰
۲/سلالۃ الابرار،ص۸۸ ساواک کی اسناد سے نقل شدہ
۳/ اسلوب سیاست ص۱۸
۴/ اسلوب سیاست ص۷۰
۵/ اسلوب سیاست ص۵۶
۶/ اسلوب سیاست ص۲۴۵
[email protected]

Leave a Reply

Back to top button