کالم

"چودھری صاحب” کی موت

نذر حافی
ہمارے سمیت بہت سارے لوگوں کے نزدیک کتا ایک بھولا بھالا،سیدھا سادھا اور وفادار جانور ہےلیکن اس کے بد خواہوں نے خواہ مخواہ اسے بدنام کر رکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پطرس بخاری اور مولوی نظیر احمد جیسے ادیب بھی اپنی تحریروں میں کتّوں کا بے دریغ استعمال کرتے رہے ہیں۔ہمارے ہاں کتّوں کی مقبولیّت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ ہمارے ملک کی اہم ترین شخصیات کتوں کے ساتھ تصویریں بنوا نے میں فخر محسوس کرتی ہیں اور اگر اس کے باوجود آپ کا دل کتوں کی طرف سے صاف نہ ہو تو پھر آپ کسی گاوں کے "چودھری صاحب” کی داستان پڑھنا شروع کردیں۔آپ کو اس داستان سے کتّے کی بہت ساری ایسی خوبیاں پتہ چلیں گی کہ آپ دنگ رہ جائیں گے۔ داستانوں میں کتّے نے کبھی چودھری کو مایوس نہیں کیا ،جب بھی چودھری آواز دیتا ہےکتا بجلی کی طرح پہنچتا ہے،جدھر اشارہ کرتا ہے یہ دوڑ کر جاتا ہے۔صرف اسے کاٹتا ہے جسے کاٹنے کا چودھری نے حکم دیا ہو ورنہ دور سے صرف دھمکاتا رہتاہے۔
داستان میں سنسنی خیز لمحہ وہ ہوتا ہے کہ جب کتّے سے بچنے کے لئے کوئی شخص بھاگتا ہوا”چودھری صاحب” کے ہاں پہنچتا ہے اور پھر چودھری صاحب مظلوم کی مدد کا نعرہ لگاتے ہوئے مار مار کربیچارے کتے کے بخیئے ادھیڑ دیتے ہیں۔۔۔اس وقت کتا واقعی بیچارہ لگتاہے اگر یہ چودھری صاحب کے اشارے کے مطابق حملہ نہ کرے تونمک حرامی کے الزام میں چودھری صاحب اس پر پابندیاں لگا کر اس کا کھانا پینا بند کر دیتے ہیں اور اگر حملہ کرتا ہے تو مظلوم کی امداد کے نام پر چودھری صاحب کے ہاتھوں کتے کی پٹائی ہوتی ہے۔ لوگ کتے کی پٹائی ہوتے دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ چودھری صاحب تو بہت اچھے آدمی ہیں بلکہ انسانوں کے ہمدرد ہیں ۔اگرچودھری صاحب نہ ہوں تو کتا تو سب کو چیر پھاڑ ڈالے۔چنانچہ وہ اپنی زمینوں کی رگوں سے ذخائر نچوڑ نچوڑ کر چودھری صاحب کے قدموں میں ڈھیر کرتے جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ کتے سے حفاظت کرنے پر چودھری صاحب کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں۔
چودھری اور کتے کا کھیل ہماری عوام اور امریکہ کے درمیان کئی سالوں سے جاری ہے ۔آپ جب بھی ریڈیوآن کریں یا ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھیں تو آپ کووطن عزیز کے کونے کونے سے آہ وفغاں کی صدائیں سنائی دیں گی۔کہیں پولیس مقابلے،کہیں مختلف قبائل پرلشکر کشی ،کہیں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن ،کہیں باغی مظاہرین پرلاٹھی چارج ،کہیں فرقہ وارانہ تصادم ،کہیں ٹرانسپورٹروں کی ہڑتال،کہیں طالب علموں کے نعرے،کہیں تاجروں کا احتجاج اورکہیں ڈرون حملے دیکھنے کو ملیں گے۔لیکن یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے اور کون کروا رہا ہے اس کا کچھ پتا نہیں چلتا۔ہماری عوام ہمیشہ کی طرح بے خبر ہے۔
جب تک ہم سکرین کو دیکھ کر کہانی کو سمجھنے کی کو شش کرتے رہیں گئے ہمیں کچھ سمجھ نہیں آئے گا چونکہ سکرین پر ہمیں وہی کچھ دکھائی دیتا ہے جو باقاعدہ منصوبے سے تیار کیا جاتا ہے۔حقیقت کو سمجھنے کے لیے پسِ سکرین جانا ہوگا تاکہ اصل چہرے نظر آئیں اور پتہ چلے کہ پردے کے پیچھے بیٹھ کر کہانی کو ن لکھ رہا ہے؟پروڈیوسر کون ہے؟ ڈائر یکٹرکون ہے؟ اداکار کون کون سے ہیں؟جب اصل چہرے ہم نے دیکھ لیے تو پھر پتہ چلے گا کہ ہمارے ملک میں آگ اور خون کا یہ کھیل کون کھیل رہاہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ کیا خود کش دھماکے کرنے والے آسمان سے نازل ہوتے ہیں؟ کیا شدت پسند گھاس پھوس کی طرح خود بخود اُگتے ہیں؟کیا فوجی آپریشن میں مارے جانے والے ماں کی کوکھ سے ہی دہشت گرد پیدا ہوئے تھے؟
یہ ٹھیک ہے کہ خود کش دھماکے کرنے والے عوام کے دشمن ہیں ۔۔۔یہ بھی ٹھیک ہے کہ فرقہ واریت کا پر چار کرنے والے مذہب و ملت کے دشمن ہیں ۔۔۔ یہ بات بھی معقول ہےکہ کہ منشیات فروش کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔
لیکن دہشت گردوں کو ٹریننگ دینے والے،کلاشنکوف اور ہیرون کلچر کی بنیادیں فراہم کرنے والے بھی تو ان جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔دہشت گرد اور دھماکے تو سکرین پر چلنے والی کہانی کا حصہ ہیں اصلی ہاتھ تو پس سکرین ہیں۔جو پیسے لے کر کسی کو قتل کرتا ہے یا کہیں پر دھماکہ کرتاہے اگر وہ سزائے موت کا حقدار ہے تو پھر وہ جو ڈالر اور ریّال دے کر یہ سب کچھ کرواتے ہیں وہ بھی تو موت کے حقدار ہیں۔اگر کتا موت کا مستحق ہے تو چودھری بھی تو موت کا ہی حقدار ہے۔چونکہ کتاسب کچھ چودھری کے کہنے پر ہی کرتاہے۔
کہتے ہیں کہ ایران والوں کو بھی ایک چودھری نے اپنے کتوں کی مددسے دبا رکھا تھا لیکن ۱۹۷۹ء میں ۱۱فروری کو جب ایران والے اپنے اپنے گھروں سے لاٹھیاں لیکر نکلے تو چودھری کو اپنے کتوں سمیت ایران سے بھاگنا پڑا۔اگر ہم بھی ان جرائم اور مسائل سے نجات چاہتے ہیں تو ہمیں اچھی طرح سے جان لینا چاہیے کہ کتوں کو مارنے سے جرائم نہیں رُکتے ۔لہذا ضروری ہے کہ "چودھری کو کتے کی موت مارا جائے”۔ http://nazaryaat.blogfa.com

Leave a Reply

Back to top button